ائیر پورٹ جانے کے لیے بیگ پکڑا۔ والدہ محترمہ سے سفر کی اجازت لینے کے لیے ان کے کمرے میں حاضری دی۔ اماں جی نے پوچھا: بیٹا انگلینڈ میں کون کون سی فصلیں ہوتی ہیں؟ پھر کہا: ہمارے لوگ وہاں زیادہ تر کیا کام کاج کرتے ہیں؟ اماں جی کو یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ پاکستانی اچھے روزگار پر لگے ہیں‘ جو بے کار ہیں وہ بھی عرصے سے تاجِ برطانیہ کے وظیفہ خوار ہیں۔ بے روزگاری الاؤنس، اولڈ ایج سہولت کاری، بچہ الاؤنس، بیماری الاؤنس اور کچھ مزید تفصیلات بتائیں۔ فصلوں کے بارے میں عرض کیا: اس دفعہ اچھی طرح سے معلومات لا کر آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اجازت ملی اور ساتھ پیار، عزت اورحفاظت سے واپسی کی دعا بھی۔
اس تناظر میں سب سے پہلے دیہی علاقے سے گزرنے والی گرینڈ کینال دیکھنے کا فیصلہ ہوا۔ عالمی جنگوں کے زمانے میں یہ کینال برطانیہ کے ایک سرے سے دوسرے کنارے تک رسد اور سپلائی کا اہم ذریعہ ثابت ہوئی۔ آپ اندازہ کریں جس شہر پر ایک وقت میں 800 جہاز بم گرانے کے لیے چیلوں کی طرح جھپٹ پڑیں وہاں پانی کی سپلائی دیوانے کا خواب نہیں تو اور کیا ہوگا۔ یہ گرینڈ کینال آج کل ''آبی شہر‘‘ بلکہ بہت سی پانی پر تیرتی ہوئی آبی بستیوں کا منظر پیش کرتی ہے۔ میں عبداللہ اور عبدالرحمن کو بھی یہ کینال دکھانا چاہتا تھا‘ کیونکہ یہ امن کے زمانے میں غریب جوڑوں، پرانے فوجیوں اور چھوٹے خاندانوں کے لیے گرینڈ آبی رہائش گاہ بن چکی ہے۔ برطانیہ کے کئی شہروں میں ایسی نہروں پر مختلف شکلوں کی ہزاروں کشتیاں کھڑی نظر آتی ہیں‘ جو مکمل گھر ہیں۔ چھوٹا سا کچن، واش روم، فیملی روم اور بیڈ۔ معلوم نہیں اس پر کوئی ڈاکومنٹری بنی ہے یا نہیں لیکن ان کشتیو ں کی شکلیں بذاتِ خود دیکھنے کے قابل اور ایک عجوبہ ہیں۔ کہیں بڑے درخت کا تنا، کہیں پھول، کہیں ریلوے انجن، کہیں جوتا، کہیں تلوار، کہیں کیک، کہیں خرگوش‘ کسی جگہ پر کمپیوٹر۔ ہزاروں کشتیاں اور ہزاروں ڈیزائن موجود ہیں۔ شہروں کے اندر آنے والی نہروں میں ان کشتیوں پر مشتمل پانی پر تیرنے والی کالونی کو چھوٹا ''وینس‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسی چھوٹے وینس کے اوپر لٹکتے پل پر کوئی کشتی کے مستقل مسافروں اور کشتی کے سامان کی دکان سجائے بیٹھا ہے۔ مجھے خیال آیا‘ ہماری ہزاروں نہریں، کالا باغ ڈیم اور دریا ویران ہیں یا سیاسی کارپوریٹ مافیا کے قبضے میں جا چکے ہیں۔ حکمران ایسے ڈیموں کی سائٹ منتخب کرتے ہیں جو کبھی نہ بن سکیں۔ یہاں اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے 5,4 ہزار فی ایکڑ کے حساب سے زمین خریدی جاتی ہے‘ اور پھر ''ھذا من فضل ربی‘‘ کے اولے پڑتے ہیں۔ وہ بھی صرف برسرِ اقتدار اشرافیہ اور بیوروکریسی کی رہائش گاہوں کے ارد گرد۔ عام آدمی کی حالت وہی ہے جو پچھلی صدی میں اقبال نے بتائی تھی۔ ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
آئیے آپ سے ایک اور تجربہ شیئر کرتے ہیں۔ اور وہ یوں کہ اگر آپ یوکے میں لمبا سفر طے کرکے وہاں اصلی رہن سہن، وسیب اور لوگ دیکھنا چاہیں تو پھر آپ کے دوست یا ٹرین آپ کی کم ہی مدد کر سکتے ہیں؛ چنانچہ میں نے اپنے ایک قریبی عزیز بیرسٹر حسن کی ڈیوٹی لگائی تاکہ وہ کوئی اچھی وین کرائے پر لے دے۔ شرط یہ تھی اس وین کو ڈرائیور تب چلائے گا جب بیرسٹر حسن مصروف ہو گا۔ حسن ملک نے نارتھ انگلینڈ کے ایک کالے کی وین کرائے پر لی۔ پہلے دن کالے نے وین خود چلانے کا فیصلہ کیا۔ سکھوں کی طرح خوش مزاج اور کھلا ڈھلا برانسن سمتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا‘ ساتھ والی سیٹ پر میں جبکہ باقی لوگ پچھلی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ برانسن کی ڈرائیونگ اور فرنٹ سیٹ کے درمیان کنسول پر تقریباً ڈیڑھ فٹ کا مگر بھاری تھیلا پڑا ہوا تھا۔ اس دشت نوردی کا ابتدائی دن ڈھلنے لگا‘ ہم یورپ کے پنچھیوں کے ساتھ گھونسلے کی طرف لوٹنے کے لیے محوِ سفر ہوئے۔ 11,10 گھنٹوں میں برانسن کافی کھل چکا تھا۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے پوچھا: اس چھوٹے سے تھیلے میں اتنا بھاری کیا پڑا ہوا ہے؟ کہنے لگا: اگلی ''ریسٹ پلیس‘‘ یعنی آرام گاہ پر رک کر بتاؤں گا۔ ہمارا تجسس اور برانسن کا (Suspense) تقریباً 50 منٹ کی ڈرائیو کے بعد کلائمیکس پر آ پہنچا۔ برانسن نے بریک لگائی۔ پوچھا: کسی نے واش روم جانا ہے؟ سب نے نفی میں جواب دیا۔ وہ بھاگ کر کافی کے لمبے کپ اور بڑے سائز کی ''کوکیز‘‘ لے آیا۔ کافی کا پہلا گھونٹ لے کر برانسن نے تھیلے کا پنڈورا باکس کھول دیا۔ کہنے لگا: ایک دن رات11 بجے کے لیے مجھے سواری مل گئی۔ پہلے اس نے اِدھر اُدھر گھمایا پھر شہر سے باہر جانے کا عندیہ دیا۔ میں چل پڑا۔ تقریباً 10میل کے بعد (برطانیہ میں کلومیٹر استعمال نہیں ہوتا‘ فاصلے اب بھی میلوں میں ہی ناپے جاتے ہیں) اچانک سواری نے چاقو نکال لیا اور میرے منہ پر وار کیا۔ اس نے آگے ہو کر چہرے پر لمبی سی لکیر دکھائی۔ پھر کہنے لگا: اس تھیلے نے مجھے بچا لیا۔ دوسرا چاقو کا وار بازو پر ہوا۔ کہنے لگا: وہ میرا ''ٹرک‘‘چھیننا چاہتا تھا۔ یاد رہے کہ کالے اپنی جیپ کو پیار سے ٹرک کہتے ہیں۔ میں عرصے سے اس تھیلے میں پاؤنڈ اور پینی یعنی لوہے سے بنے ہوئے سکوں کی ریزگاری جمع رکھتا ہوں۔ اس وقت میں خالی ہاتھ تھا۔ میں نے بائیں بازو پر چاقو سے وار کھائے اور دائیں ہاتھ سے یہ تھیلا اٹھا کر اس کی ناک پر دے مارا۔ اس کے دانت، ہونٹ اور ناک سے خون کا پرنالہ جاری ہو گیا۔ گاڑی روکی تو سواری نے بھاگنے کی کوشش کی۔ میںنے اڑنگی دے کر اسے گرا لیا۔ پھر بیلٹ سے اس کے ہاتھ پشت پر باندھے اور ایمرجنسی پولیس کو کال کر دی۔
برانسن کی دلیری اور حاضر دماغی قابلِ ستائش تھی۔ لہٰذا میں نے اسے داد دی‘ اور ساتھ ایسی بات کہی جس کو وہ کئی روز یاد کرتا اور ہنستا رہا۔ میں نے کہا: (You are a real smith) یعنی تم تو پکیّ لوہار نکلے۔ لندن پلان پڑھنے والوں سے درخواست ہے وہ اس جملے کو سیاسی نہ سمجھیں کیونکہ میں نے اسے عارف لوہار سمیت کسی پاکستانی لوہار کی کوئی کہانی نہیں بتائی۔
لندن کے شرق سے لے کر لیک ڈسٹرکٹ اور اس کے طو ل و عرض تک زراعت ہوتی ہے۔ برمنگھم کے ایک دوست نے ان معلومات تک رسائی کے لیے خاصی مدد کی۔ چوہدری خادم حسین، جن سے میرا تعارف میرے گرائیں کنگ خان المعروف عامر خان ورلڈ باکسنگ چیمپئن نے کروایا اور یہ بھی کہا کہ یہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ بلامبالغہ سینکڑوں دیہات دیکھنے کے بعد اور درجن بھر سے زائد زرعی فارم، کیٹل فارم دیکھ کر پتاچلا کہ یہاں گندم سے لے کر مکئی تک ہر فصل اگائی جاتی ہے۔ کھانے والے کم ہیں لیکن فصلیں زیادہ ہیں۔ اس کا راز یہ نکلا کہ اگر برطانیہ میں قحط پڑ جائے یا برطانیہ کے خلاف پھر کوئی عالمی جنگ چھڑ جائے تو ایسی صورت میں اناج کہاں سے آئے گا؟
اوپر غریب مریدوں اور امیر مرشد کا ذکر آیا تھا۔ یہ کاروبار یوکے میں خوب چمکا ہوا ہے۔ درجنوں چھوٹے بڑے ٹیلی ویژن پیر صاحبان، ان کے جنات اور عملیات کے اشتہارات چلاتے ہیں۔ ٹیلی فون پر نکاح بہت پرانی بات ہو گئی اب تو ٹی وی کی پھونک سے کینسر کا شرطیہ علاج ہوتا ہے‘ لیکن کوئی پھونک مارنے والا غریبوں کی غریبی کا درد یا دکھ دور کرنے کے لیے پھونک نہیں مارتا۔ اسی لیے مغرب والے کہتے ہیں، چائے کا کوئی ایسا کپ نہیں جو مفت مل جائے۔ (جاری)