جب سے پارلیمنٹ کے اندر وزیراعظم کے سستی گھڑی ٹائپ عزیز سے یہ سنا کہ ہمارے وزیراعظم کی لابی کرنے والے توقع رکھتے ہیں انہیں جلد نوبل انعام مل جائے گا، تب سے میرا دل دھک دھک کر رہا ہے۔
معاف کیجیے گا آج مجھے پہلی بار سمجھ نہیں آ رہی بات شروع کہاں سے کروں،کیونکہ دل کی کیفیت یوں ہے ؎
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ا یسی تو نہ تھی
مجھے نوبل انعام سے ہرگز ڈر نہ لگتا اگر یہ انعام سویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچو ف کو نہ ملا ہوتا یا پھر اگر یہ انعام قبول کرنے کے لئے فلسطین کے شہید صدر یاسر عرفات راضی نہ ہو جاتے۔ نوبل انعام امن سے وابستہ ہے جنگ سے نہیں، اس لئے آپ کی پریشانی بجا ہے، یہی کہ بھلا امن سے بھی کوئی ڈرتا ہے؟ یا امن کے انعام سے۔ مجھے مکرر اعتراف ہے، ہاں میں نوبل انعام سے خوفزدہ ہوں اور اس خوف کی وجہ دو عالمی لیڈروں کی کہانی ہے۔۔۔۔گورباچوف اور جنابِ یاسر عرفات۔
پہلے گورباچوف کی طرف چلتے ہیں۔گورباچوف جوزف سٹالن کے دور میں شعور کو پہنچا۔ اسے جرمنی کے زیرِقبضہ علاقے میں دوسری جنگِ عظیم کی سختیاں سہنا پڑیں۔گورباچوف نے ماسکو سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور 1979ء میںکمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گیا۔ 1985ء میں گورباچوف سویت یونین کا نیا لیڈر منتخب ہوا۔ اس کے بیرونی دوروں اور کمیونسٹ مخالف لیڈروں سے بڑھتے ہوئے ''ذاتی تعلقات‘‘ کو سویت یونین کے اندر ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ یہ شک اس وقت حقیقت کا روپ دھار نے لگا جب گورباچوف نے سویت یونین میں رائج کمیونزم کے نظام کی منجھی پیڑی ٹھوکنا شروع کی، جسے اس نے اصلاحات کا نام دیا۔ ساتھ ہی عوام کا دل بہلانے کے لئے دعویٰ کیا کہ وہ ان اصلاحات کے نتیجے میں کمیونزم میں ریفارمز لائے گا۔ گورباچوف کے متعارف کردہ دو نظریات کو مغر ب میں زبردست پذیرائی ملی۔ ان میں سے پہلا نظریہ گلاسٹ ناسٹ (Glasnost)کے نام سے مشہور ہوا جس کا مطلب تھا کھلا پن یعنی Openess۔ گورباچوف نے دوسرا نعرہ Perestroika کا لگایا۔ روسی زبان کی اس اصطلاح کا انگریزی مطلب ہےChange یعنی تبدیلی۔ مغرب کی سیاسی تاریخ ان دونوں اصطلاحوں کے حوالے سے بڑی پر لطف بات بتاتی ہے۔ Openess کا نعرہ سب سے پہلے یورپ میں لگا جبکہ تبدیلی والا نعرہ امریکہ میں دریافت ہوا تھا۔کمیونزم کو ریفارم کرنے کی اس دو نکاتی اصطلاح کا ایجنڈا 1989ء اور1990ء کے برسوں میں کھل کر سامنے آ گیا۔ گورباچوف نے امریکی گلوبل ازم کے نعرے کے سامنے انقلاب کی ٹوپی اتار کر سرینڈر کر دیا۔ امریکہ کی شرائط پر ''دی تانت‘‘ سائن کیا۔ ساتھ ہی کہا آج کے بعد روس کمیونزم کو الوداع کہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔ اسی خدمت کے عوض گورباچوف نے1990ء میں نام نہاد امن کا نوبل انعام جیت لیا۔ تب سے اب تک مسلم زمینوں میں خون کی ندیاں بہہ گئیں جبکہ باقی دنیا بھی امن و امان کے مسلسل زلزلوں کی لپیٹ میں ہے۔ نہ ختم ہونے والے زلزلے۔
دوسری کہانی محمد یاسر عبدالرحمن عبدالرؤف عرفات القدوہ ابوعمار الفلسطینی (24 August 1929 to 11 November 2004) کی ہے جو 24 اگست 1929ء کو شروع ہوئی اور11نومبر 2004ء تک پوری آب و تاب سے چلتی رہی۔ سچ تو یہ ہے شہید یاسر عرفات کی کہانی میںعروج ہی عروج ہے، زوال کا نام و نشان نہیں۔ الفتح کے پلیٹ فارم سے صہیونی استعمار اور اس کے مغربی سرپرستوں کے خلاف انتفاضہ ، جہاد اور مسلسل مزاحمت کی یہ کہانی ابھی تک جاری ہے۔ اسحق روبن اور شمعون پیریز کے ساتھ کامیاب امن مذکرات کے نام پر یاسر عرفات شہید کو 1994ء میں نوبل انعام دیا گیا۔ کچھ تفصیل ایسی ہے جسے لکھنے پر دل آمادہ ہے اور نہ قلم تیار۔ سچ تو یہ ہے کہ امن کے نام پر جو سیاسی نوبل انعام جاری ہوئے اس کی تین وجوہ تاریخ کا حصہ ہیں۔
پہلی،انعام انہیں ملے جنہوں نے مظلوموں کی حمایت چھوڑ کر ہاتھ کھڑے کر دیے۔
دوسری، مغرب کا ایجنڈا آگے بڑھایا، مادرِ وطن کو مستقل خیرباد کہا، اپنی زمین سے ناطہ توڑا اور غیروں کے ہوکر رہ گئے۔ تیسرے وہ جنہوں نے کسی ''مجبوری‘‘ کے پیشِ نظر سودے بازی نما مفاہمت کی اور گورباچوف بن گئے۔
اس کہانی میں سب سے عجیب ٹوئسٹ 1994ء میں سامنے آیا جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اوسلو معاہدے کے ذریعے فلسطینیوں نے عالمی برادری کے سامنے اسرائیل کی ریاست کو باقاعدہ ملک کے طور پر تسلیم کر لیا۔ قبلۂ اول جس پر اسرائیل نے1967ء میں ناجائز قبضہ کیا تھا، وہ اسرائیل کا دارالحکومت مان لیا گیا جبکہ فلسطین کی عشروں پرانی تحریکِ آزادی دو حصوں میں نہیں بلکہ دو فرقوں میں تقسیم ہو گئی۔ فلسطینیوں کی حالت عملی طور پر یوں ہوگئی ؎
پھر یوں ہوا کہ ہم پہ، اِک دیوار آ گِری
یہ دیکھ نہ سکے، پسِ دیوار کون تھا
اسی سال یاسر عرفات شہید، شمعون پیریز اور اسحق روبن کو امن کا مشترکہ نوبل انعام ملا۔ ریکارڈ پر انعام دینے کی وجہ یہ لکھی گئی: For their efforts to create peace in the Middle East.
برسوں پہلے، میں شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ ایک مغربی سفرپر تھا کہ گورباچوف کا ذکر آیا۔ ان دنوں شہید بی بی دنیا کے مختلف تھِنک ٹینکس، یونیورسٹیوں اور لیڈر شپ کے اداروں میں لیکچر دیتی تھیں۔ لمبی فلائٹ میں وقت گزارنے کے لئے میں نے ایک سوال پوچھا جس کا پسِ منظر یہ تھا کہ مغرب میں ہر ایسے لیکچرکا اچھا خاصا معاوضہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے شہید بی بی نے بتایا کہ عالمی لیڈروں میں سے ان کے علاوہ مہاتیرمحمد، بِل کلنٹن اور گورباچوف بھی لیکچر دیتے ہیں۔ میں نے سوال کیا سب سے زیادہ معاوضہ کسے ملتا ہے۔ بینظیر بھٹو شہید ہنس کر کہنے لگیں میخائل گورباچوف کو۔ پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولیں آپ پوچھیں گے نہیں کیوں؟ میں نے کہا یہ بھی کوئی راز کی بات ہے ۔ پھر انہیں فارسی کا یہ مِصرع سنایا ع
قومِ فروختند و چہ ارزاں فروختند
جس کا مطلب ہے قوم بیچنے والے نے کتنے سستے ریٹ پر قوم فروخت کر دی۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی بتا دوں بی بی کو فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں دلچسپی تھی۔ جلاوطنی کے دنوں میں شہید بینظیر بھٹو نے آصفہ، بختاور اور بلاول کے لئے عربی پڑھانے والا ٹیوٹر رکھا ہوا تھا اور ٹیوٹر ان بچوں کو تب پڑھا سکتا تھا جب بی بی خود ان کے ساتھ بیٹھتیں، اس لئے انہیں عربی زبان میں گہری دلچسپی اور دسترس حاصل ہوئی۔ فارسی ان کے دودھ میں شامل تھی۔ ان کی والدہ مادرِ جمہوریت بیگم نصرت بھٹو ممتاز ایرانی آیت اللہ کا خون تھیں۔ جن لوگوں نے شہید بی بی کا حقیقی قرب دیکھا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ دبئی میں جلاوطنی کے دوران طبی ضرورت کے پیشِ نظر صرف ایرانی ہسپتال جاتیں۔ ان کے شوہر، بچے اور والدہ بھی چھوٹی موٹی ضرورت کے تحت ایرانی ہسپتال ہی جاتے۔ بی بی عربی کو ساری زبانوں کی ملکہ اور فارسی کو غنائیت کی زبان کہتیں۔ اسی وجہ سے 18اکتوبر2007ء کو وطن واپسی کے بعد اردو زبان پر ان کی دسترس بھی حیران کن تھی۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں بی بی کے انتخابی جلسے منعقد ہوئے۔ ان میں میرے علاوہ سینیٹر فرحت اللہ بابر، میجر امتیاز(اکثرمشہور برطانوی مصنفہ کرسٹینا لیمب بھی) ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید خان ساتھ ہوتے۔ بی بی اپنی تقریر کے نوٹس اردو میں بھی بناتی رہیں۔
با ت ہو رہی تھی نوبل سے ڈرنے کی۔ نوبل کے مقابلے میں میری بزدلی کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ جو دوسرا نوبل انعام ہمیں ملا اس کا دنیا میں ذکر ہمیشہ پاکستانیوں کو وحشی قوم ثابت کرنے سے ہوتا ہے۔ یقین کریں مجھے ڈر بہت کم لگتا ہے لیکن مودی کی شکل دیکھ کر تیسرے نوبل انعام کا ذکر میرا ڈراؤنا خواب ہے۔