بھارت کیونکر بدمعاش (Rogue Country) ملک ہے؟
اس کا بنیادی نکتہ سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ بھارت کی سر زمین پر کام کرنے والے غیر جانبدار ماہرین نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان ماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ بھارت کی بیوروکریسی، حکومت اور فوج پر ایک اقلیتی طبقہ شروع دن سے قابض ہے۔ یہ طبقہ ہندی بولنے والوںکے ایک معروف اقلیتی گروہ پر مشتمل ہے جس کا تعلق بھارتی صوبے اتر پردیش سے چلا آتا ہے۔ ان ماہرین کے رپورٹ کردہ حقائق کے مطابق ہندی کبھی پورے ہندوستان کی زبان نہیں رہی جبکہ تعصب کا مارا ہوا یہ اقلیتی ٹولہ بوجوہ اردو دشمن، مسلمان دشمن اور پاکستان دشمن ہے۔
اس موضوع پر پاکستان میں شاذ ہی بولا جاتا ہے۔ لکھا ہوا مٹیریل تو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ آج کے بھارت کی زمینی صورت حال بتاتی ہے کہ یہاں وسطی بھارتی صوبوں بشمول بہار اور گجرات کی سابق 66 ریاستیں آزادی کی تازہ انگڑائی لے رہی ہیں۔ پورے بھارت پر قابض ہندی بولنے والی اقلیتی گروہ کے اقتدار کے خلاف بھارت کے طول وعرض میں ملک سے علیحدگی حاصل کرنے کے لئے67 منظم تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بہت بڑی تحریکیں جبکہ 50 نسبتاًچھوٹی کہی جا سکتی ہیں۔ یہ تحریکیں ہیں کیا اور ان کا اثر و نفوذکتنا ہے؟ اس کی صرف چند مثالیں دیکھنے سے اصل صورت حال کھل کر سمجھ میں آ جائے گی۔
شمالی بھارت کی سات بڑی ریاستیں، سیون سسٹرز یعنی سات بہنیں یا سات ہمجولی ریاستیں کہلاتی ہیں۔ ان سیون سسٹرز میںآزادی کی خون آشام تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں آزادیٔ آسام، تری پورہ، اروناچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھا لایا اور ناگا لینڈ کی آزادی کے لئے مسلح جد و جہد کرنے والی تحریکیں زوروشور سے برپا ہیں۔ بھارت سے علیحدگی کی یہ تحریکیں کس قدر مؤثر ہیں، اس کا ایک ثبوت صورت حال کی سنگینی بیان کرنے کے لئے کافی رہے گا۔ صرف ملکِ آسام میں 34 باغی لشکری تنظیمیں متحرک ہیں۔ یہ تنظیمیں بھارتی مقبوضہ آسام کے 162یعنی اکثریتی اضلاع پر 100فیصد مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ،نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ، ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن، برچھاکمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگر فورس،آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، گورکھا ٹائیگر فورس اور پیپلز یونائیٹڈ فرنٹ جیسی اہم تحریکیں شامل ہیں۔
آسام میں آزادی کے لئے لڑنے والی تنظیموں کے ناموں سے ظاہر ہے کہ ان میں چار تنظیمیں مسلمان باغیوں کی بھی ہیں۔ ناگا لینڈ میں تین تنظیموں نے آدھی ریاست پر قبضہ کیا ہوا ہے، جن میں ناگا باغی، نکسل باڑی اور ماؤ باغیوںکی تحریک سب سے زوردار اور جارحانہ ہے۔گزشتہ چار سال کے عرصے میں صرف ماؤ باغیوں نے 1000سے زیادہ بھارت کے باقاعدہ فوجیوںکو ہلاک کیا۔ پولیس اور دیگر اداروں کے ہلاک شدگان کی تعداد اس میں شامل نہیں۔ ناگالینڈ کی نیشنل سوشلسٹ کونسل بین الاقوامی سطح کے اداروں میں آزادی پسند باغیوںکامقدمہ لڑنے کی ذمہ دار تنظیم سمجھی جاتی ہے۔
بھارت سے علیحدگی کی ایک بھرپور تحریک ریاست منی پورکی آزادی کے لئے سرگرم ہے۔ ریاست منی پور میں بھارتی ذمہ دار اداروں پر تواتر سے بھرپور حملے ہوتے ہیں۔ یہ جنگ سرگرمی سے لڑنے والوں میں منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، پیپلز لبریشن آرمی اورکوکی ڈیفنس فورس نمایاں ہیں۔ منی پور میں بھارت نے زمینی فوج اور ایئر فورس دونوں کو آزما لیا۔ لیکن ریاست منی پور میں بھارت، باغیوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ میزورام کی تحریک بھی 65 سال پرانی ہے۔ یہاں آزادی کے لئے لڑنے والے تمام گروپوںکے اتحاد کا نام پروفیشنل لبریشن فرنٹ ہے۔ اس کے ارکان موجودہ ریاست کی سرحدوں سے باہر نکل کر بھی بھارت کے ریاستی اداروں پر دلیرانہ حملے کرتے ہیں۔
تری پورہ بھارت کے ایک اور درد ِسر کا دوسرا نام ہے۔ جہاں آج نہیں توکل ایک علیحدہ ریاست معرضِ وجود میں آنے والی ہے۔ یہ تحریک مشرقی پاکستان کو فوجی قبضے کے ذریعے بنگلہ دیش بنانے کے بعد شروع ہوئی۔ تری پورہ میں بھارت نے مشرقی پاکستان کے دو باغی گروہ مکتی باہنی اور شکتی باہنی کو فوجی تربیت دی۔ اس علاقے میں بنگالی بولنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں، جو مکتی باہنی اور شکتی باہنی کے ساتھ ہی بھارت کے ہاتھوں سبوتاژ اور گوریلا کارروائیوں کے لئے تیار ہوئے۔ ان بنگالیوں کی اپنی فوج کا نام بنگال رجمنٹ ہے۔ اس کے علاوہ تری پورہ مکتی کمانڈوز، تری پورہ آرمڈ والنٹیر فورس اور تری پورہ ٹائیگر فورس بھی آزاد ملک کے قیام کے لئے بھارت کی زمین پر جنگ میں برسرِ پیکار ہیں۔
بھارت کے اندر آزادی کے لئے لڑنے والی دو فوجی تحریکیں ایسی ہیں جو عالمی سطح پر منظم اور سر گرم ہیں۔ ان میں سے پہلی تحریک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف لڑنے والے کشمیریوں کی ہے۔ بھارت سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے دو تازہ پہلو بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں ۔پہلا یہ کہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک نو عمر پڑھے لکھے سکول،کالج کے لڑکے لڑکیوں کے ہاتھ آ گئی، جنہوں نے پتھر اور غلیل کے علاوہ کوئی ہتھیار قابض فوج کے خلاف استعمال نہیںکیا۔ دوسری جانب قابض بھارتی فوج ٹینک، توپ اور مشین گن کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی تیارہ کردہ پیلٹ گن استعمال کرکر کے تھک چکی ہے۔ ہزاروں طالب علم گرفتار ہیں۔ ہزاروں زخموں سے چور، سینکڑوں کو نابینا کر دیا گیا، لیکن پھر بھی شمعِ آزادی کے پروانے جان کی پروا کرتے ہیں نہ بینائی کھو جانے کا افسوس۔ اس تحریک کا تازہ مرکزی نکتہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہے۔ یہ عظیم پرچم راہِ حق کے شہیدوںکے کفن پر، مقبوضہ کشمیر کے ہر تعلیمی ادارے پر، ڈل جھیل میں دوڑنے والے بجروں پر، ہر جلسے میں، ہر ریلی میں، ہر جلوس میں، ہر گھر اور ہر مارکیٹ میں پوری شان سے لہرا رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے بچے بچے کی زبان پر جو نعرے ہمہ وقت گونجتے ہیں ان میں سے معروف ترین چند نعرے یہ ہیں: ''پاکستان ہمارا ہے، ہم پاکستانی ہیں، کشمیر بنے گا پاکستان، ہم کیا مانگیںآزادی، للکار کے لیں گے آزادی، ہم چھین کے لیں گے آزادی، ہم اب ڈاکٹر نہیں بنیں گے شہید بنیںگے، شہید بنیں گے‘‘۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کی آواز کس قدر زور دار ہے، اس کا اندازہ صرف وہاں چار ماہ سے جاری کرفیو اور کریک ڈاؤن سے ہی نہیں ہوتا بلکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموںکے داخلے پر پابندی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی چیمپیٔن کے بھارت بھرکے دفاتر پر تالہ بندی بھی اس کے کھلے ثبوت ہیں۔
بھارت کے اندر علیحدگی کی تحریکوں میں دوسری عالمی تحریک مشرقی پنجاب میں جاری ملکِ خالصتان کی تحریک ہے۔ ہندوستان کے اندر اس تحریک کی قوت کا اندازہ لگانے کے لئے محض ایک مثال سن لیں۔ جس خالصے نے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ بیانت سنگھ دربار امرتسر پر حملے کا بدلہ لیا، اسے سزائے موت ہوئے 32 سال ہوگئے۔ یہ خالصہ اندرا گاندھی کے قاتل ستونت سنگھ کا ہمنام ہی نہیں بلکہ بھارت میں سزائے موت کا منتظرہے۔ بھارت سرکار، افضل گورو اور اجمل قصاب کو تو فوراً پھانسی دینے میں کامیاب ہوئی، لیکن جب بھی ستونت سنگھ کو پھانسی دینے کے لئے بلیک وارنٹ جاری ہوتا ہے تو پورے بھارت میں ریڈ الرٹ کے گھڑیال گونج اٹھتے ہیں۔ پھر بھارت سرکار اسے پھانسی گھاٹ کی بجائے بیرک میں واپس چھوڑ آتی ہے۔ سکھوں کی اس زور دار تحریک کی قیادت ببرخالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، ڈنڈرا والا ٹائیگر فورس، خالصتان کمانڈو فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ اور خالصتان نیشنل آرمی جیسے سرگرم ترین آزادی پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ،ا ڑیسہ، مدھیہ پردیش، مہارا شٹرا اورآندرا پردیش، اروناچل پردیش، میگھا لایا، بھارتی مقبوضہ کشمیر اورمغربی بنگال سمیت کئی دیگر علاقوںکے لوگ بھارت سے آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کے خلاف بھارت کا بدمعاش ملک والا مقدمہ ایک خالی ٹین ہے۔ اس ٹین کو مفادات کی رسی سے باندھ کر بارڈرکے دونوں جانب کرائے کے ٹٹو پتھر ڈال کر پروپیگنڈے کی سڑک پر دوڑا رہے ہیں۔ اس شور شرابے کے خاتمے کے لئے کاش علامہ اقبال کے خواب اور قائداعظم کے خونِ جگر سے بننے والے ملک کا وکیل دکاندار کی بجائے کوئی بے پروا ہوتا۔ مفادات کے اسیر کی جگہ کوئی آزاد دیدہ ور۔ اسلام آباد کے ریڈ لائٹ ایریا عرف (ریڈ زون) میں، کوئی ایسا ہے تو سامنے آئے۔۔۔۔!