الیاس خان کے اہم ترین آئینی مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ کے روبرو دلائل دیے۔ رمضان چوہدری، لالہ شکیل اور دیگر وکیل دوست کیانی ہال لے گئے۔ وہاں چائے کی میز پر بھرپور سیشن ہوا۔ سمجھنے سمجھانے اور سوال و جواب کا۔ میز پر فلمی اصطلاح میں کھڑکی توڑ رش تھا۔ ہائیکورٹ سے واپسی پر جسٹس سعیدالرحمن فرخ ملے۔ حلیم طبع اور مستقل مزاج۔ میرا ہاتھ پکڑا اور مجسمِ سوال بن گئے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ آپ نے بنایا تھا۔ عرض کیا‘ کریڈٹ ہے یا الزام دونوں قبول ہیں۔ کہنے لگے‘ جسٹس اقبال حمیدالرحمن سے مطالبہ کرو استعفیٰ واپس لیں‘ وہ قوم کا اثاثہ ہیں۔
اگلی نشست ایک پنج ستارہ ہوٹل میں چائے کے نام پر ہونے والی جرح تھی۔ ہر جگہ '2 نومبر کے بعد کیا ہو گا‘ بنیادی سوال تھا۔ آنسو بہتر ہیں، یا استعفیٰ۔ جسٹس سعیدالرحمن فرخ صاحب کے ساتھ بھی مکالمے کا دوسرا حصہ یہی تھا۔ فرمایا‘ استعفیٰ تو میں نے بھی دیا تھا۔ پھر خود ہی کہنے لگے‘ تم نے وزارت چھوڑی۔ لیجنڈ جج حمودالرحمن کے بیٹے کا استعفیٰ ان کے ہمراہی ججز کا فیصلہ بنا۔ فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی کچھ تعیناتیاں غیر قانونی ٹھہریں۔ بہادر باپ کے بہادر بیٹے نے استعفیٰ دے کر 'سیاسی جج بحال کرو‘ تحریک قوم کو پھر یاد کرا دی۔ کیا زمانہ تھا۔ سرکاری گاڑیوں پر‘ سرکاری خرچ پر، نوکری بحال کرو مہم۔ نوکری واپس آ گئی انصاف رخصت ہو گیا۔ آئین کے آرٹیکل 209 کی نفی کے ذریعے ماورائے آئین فیصلے ابھی تک موجود ہیں۔ ایسے فیصلے جن کے سامنے مولوی تمیزالدین کیس اور ظفر شاہ کیس شرماتے ہیں۔ آئینی عدالتوں کے 120 جج رخصت ہوئے۔ نہ انہیں بلایا گیا‘ نہ دفاع کا موقع ملا۔ یہ گزرے کل کی سیاہ تاریخ کا تاریک باب تھا۔
آج کی بات آنسوؤں سے شروع ہوئی۔ آنسو اردو ادب کا معروف استعارہ ہے۔ پنجابی لٹریچر میں یہی استعارہ ''ہنجو‘‘ کہلاتا ہے۔ اردو کا محاورہ 'مگرمچھ کے آنسو‘ بہت مشہور ہے۔ مگرمچھ اپنے نوکیلے، زہریلے دانتوں سے شکار کو ٹکڑے کرنے کے بعد اس کی یاد میں موت کا رقص (Dance of Death) کرتا ہے۔ ڈانس آف ڈیتھ کے آخری سٹیپ پر مگرمچھ کے آنسو نکل آتے ہیں۔ جب کوئی حیلہ ساز، فریب، دھوکہ دہی اور چال بازی کے آنسو بہائے تو اسے ''ٹسوے بہانا‘‘ کہتے ہیں۔ نواز شریف نے سرائیکی وسیب کے غریب مریضوں کی یاد میں مگرمچھ کے آنسو بہائے یا ٹسوے گرائے‘ یا کسی نے انہیں خون کے آنسو رلا دیا‘ یہ آپ کی دلچسپی کا موضوع نہیں۔ مگر یہ طے ہے کہ وزیر اعظم نے یہودی سازش کے خلاف آنسو بہائے۔ آئیے یہ سازش بے نقاب کریں، اور اس کی مذمت بھی۔
سب سے پہلے ہم سب یہودیوں کی اس سازش کی مخالفت کرتے ہیں‘ جس سے انہوں نے ہمارے وزیر اعظم کو 35 سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود سستی دوائی، بہترین ڈاکٹر اور معیاری ہسپتال بنانے سے جبراً روکا۔ سب جانتے ہیں وزیر اعظم نے اس ہاتھ کو مسلسل چھڑانے کی کوشش کی‘ جسے ہسپتال کی تعمیر روکنے کے لیے پکڑ لیا گیا تھا۔ یہودیوں کی دوسری سازش پنجاب اور مرکز کا بجٹ بنانے والے ذمہ داروں نے آگے بڑھائی۔ انہوں نے وزیر اعظم اور ان کے پسندیدہ وزیر اعلیٰ کو صرف لوہے، سریے اور جنگلے کے جنگل اگانے کا مینڈیٹ دیا‘ جبکہ ہسپتال، ڈسپنسری، پولی کلینک اور حادثات، اموات، زچہ و بچہ کے کلینک کے پلان تک بنانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ یہ اسی سازش کی کامیابیاں ہیں کہ آج ہر شہر میں لاکھوں میٹر لمبا سریا، کروڑوں میٹر جنگلہ اور اربوں کھربوں ٹن لگا لوہا تو نظر آتا ہے‘ لیکن نئے ہسپتال نظر نہیں آتے۔ یہودیوں کی ایک اور سازش بھی کامیاب ہو گئی۔ انہوں نے حکمران گھرانے کو اپنا ذاتی میڈیکل سٹی بنانے کی تو اجازت دے دی مگر اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں چوہے مار گولیاں فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی لیے انسانوں کے نومولود بچے سرکاری خرچ اور سرکاری سرپرستی میں پلنے والے چوہوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ چوہے چاہیں تو ان بچوں کو زندگی کی بھیک عطا کر دیں اور اگر کسی وجہ سے چوہوں کا موڈ خراب ہو تو پھر بیماری اور موت ان کا مقدر ہو جاتا ہے۔ شریفانہ جمہوریت اور شغلیہ طرزِ حکومت کے خلاف سازشوں کی کوئی حد ہی نہیں۔ اس کی چند مثالیں پیش کرکے آگے بڑھتے ہیں۔
مثلاً، یہی کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد لے جایا گیا۔ ایک گھناؤنی سازش کے ذریعے سارے کھلاڑیوں کو بھاگ دوڑ کرنے کی جسمانی تربیت دی گئی۔ اس دوران ایک سازشی ورزش کے ذریعے پوری کرکٹ ٹیم جمہوریت کے خلاف سازش میں ملوث ہو گئی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ایک انتہائی محبِ وطن‘ ذہین اور دور اندیش نون لیگی ایم این اے نے حاصل کر لیا۔ اس پر پاکستانی قوم نے اس ایم این اے، اس کے چیف ایگزیکٹو، جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ پر داد کے ڈونگرے برسائے۔ اس سازش کے مطابق کرکٹ کے کھلاڑیوں کو پُش اپس یعنی ڈنڈ بیٹھک لگوا کر باغی بنا دیا گیا۔ اسی سازش کے نتیجے میں اس کرکٹ ٹیم نے‘ جو زمبابوے، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسی ٹیموں کے آگے برادرانہ طور پر لیٹ جایا کرتی تھی‘ عالمی رینکنگ کی اعلیٰ ترین ٹیموں کو ہرانا شروع کر دیا۔
اس سازش کی ایک اور مثال پاکستان کے کنٹینروں کا وہ اجتماع ہے‘ جس کے ذریعے اسلام آباد شہر کے سارے داخلی اور خارجی راستے شریف حکومت بند کر رہی ہے۔ ذرا غور فرمائیں! یہ سازش نہیں تو اور کیا ہے کہ وفاقی حکومت کی اتنی محنت کے بعد کھلاڑی اور اس کے حواری بھی اسلام آباد کو بند کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ اس سازش کی تیسری مثال ہمارے پنڈی وال دوست شیخ رشید کی 5 مرلے والی حویلی ہے۔ یہ حویلی قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہے‘ لہٰذا اس کی چادر پھاڑ کر حکومت نے اس کی چار دیواری پھلانگنے کے لیے 15 دن کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ اگر پانچ مرلے کی لال حویلی سازش نہ کرتی تو نون سرکار کے حمایتی چادر اور چار دیواری کا مسئلہ ضرور اٹھاتے‘ اور قبلہ شاہ صاحب سکھر آبادی سمیت اصلی اپوزیشن کے اصلی تے وڈے لیڈر اس پنڈی وال لال حویلی کے حق میں بھرپور آواز بلند کر دیتے۔
بات ہو رہی تھی یہودیوں کی عالمی سازش کی۔ درمیان میں دیسی ساختہ گھریلو سازشوں کا ذکر خواہ مخواہ ٹپک پڑا۔ آئیے نواز شریف حکومت کے خلاف مزید سازشوں کو بے نقاب کرتے ہیں‘ اور اس سازش کا سلسلہ 1985ء سے شروع ہوتا ہے‘ جب ایک مردِ مومن نے آئین بنانے والی اسمبلی کو رخصت کرکے عین آئینی قدم اٹھایا‘ جس کے نتیجے میں وڈے میاں صاحب پنجاب کے وزیرِ خزانہ بن گئے۔ اسی روز سرائیکی اور پوٹھوہاری وسیب کے خلاف سازش شروع ہو گئی۔ بجٹ بناتے وقت وڈے بھا جی کو پتا ہی نہیں چل سکا کہ پنجاب میں ہسپتالوں کی ضرورت ہے' ورنہ انہیں اقتدار کے 35,30 سال گزارنے کے بعد دکھی مریضوں کے دکھ میں شریک ہو کر مگرمچھ کے ٹسوے سے بھی بڑے اصلی تے وڈے آنسو نہ بہانے پڑتے۔ یہ غریبوں کی بدقسمتی ہے‘ جن کی غریبی میاں صاحب کی غریبی کی رفتار کے ساتھ امیری میں تبدیل نہ ہو سکی‘ ورنہ پنجاب کے ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر لیٹے پانچ پانچ سات سات مریض اور زچہ و بچہ اجتماعی علاج کی سہولت سے محروم رہ جاتے۔
1985ء میں پنجاب کی وزارتِ خزانہ کے خلاف عالمی صہیونی سازش مسلسل جاری رہی‘ اور گزشتہ ساڑھے 8 سال میں یہ سازش ہر سال ہوتی ہے۔ اسی سازش کے نتیجے میں وڈے بھا جی کے چھوٹے خادمِ اعلیٰ صاحب جب بھی بجٹ بنانے بیٹھتے ہیں‘ ان کا بجلی والا وعدہ پورا ہو جاتا ہے۔ وہی وعدہ جس میں اعلان ہوا تھا کہ بجلی ختم نہ کر دوں تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ ظاہر ہے اندھیرے میں صحت مند آدمی کو بھی صحت نظر نہیں آ سکتی‘ لہٰذا صحت کا بجٹ پنجاب سپیڈ لیک کی نظر ہو جاتا ہے۔ ادھر بجٹ نکلا ادھر سریا نکل آیا۔ وہ بیوقوف جو اس سازش کو نہیں سمجھ سکتے وہ ذرا غور تو کریں۔ آخر ایمرجنسی روم، ہسپتال‘ زچہ و بچہ مرکز بنانے میں سریا لگتا ہی کتنا ہے۔ اس طرح کی بیکار جگہوں پر جنگلے کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ لہٰذا اس عالمی صہیونی سازش کے تحت وزیر آباد کا کڈنی سینٹر اور باغ سرداراں کا پنڈی والا ہسپتال ساڑھے 8 سال میں مکمل نہ ہو سکے۔
پس ثابت ہوا‘ استعفیٰ آنسوؤں کے خلاف ایک اور سازش ہے۔ ان عالمی سازشوں سے جمہوریت کو بچانے کا ایک ہی طریقہ باقی بچتا ہے۔ جنگلہ لگاؤ، سریا لگاو‘ مگر محبِ وطن لوگو! خدا کے واسطے پُش اپس مت لگاؤ۔ پُش اپ لگاتے لوگ دیکھ کر جمہوریت کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑ جاتی ہے۔ اب بتائیں آنسو اچھے یا استعفیٰ؟؟