پہلے خیال تھا کہ آج کے وکالت نامہ کا عنوان رکھوں‘ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘ پھر یہ خیال بدل گیا جس کا سبب یہ تھا کہ اہل دل یہ نہ کہہ اٹھیں کہ یہ کہاں ہوتی ہے اور وہ کیا ہوتی ہے۔؟
اور یہ بات100فیصد سچ بھی ہے اگر یہ ہوتی تو وہISPRکے میل باکس پر جنرل راحیل شریف کے گھر کے دروازے پر معافی نامے کے ٹرک اور ٹرالے بھر بھر کر لا رہی ہوتی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ عنوان وہ رکھا جائے جس کو پڑھ کر کسی کو نہ شرم آئے اور نہ کسی کو حیا کرنی پڑے۔ یہ غلیل والے وہ ہی ہیں جن کے بارے میں تازہ تازہ معزول‘ وزیر سرکاری نشریات اور غلط اطلاعات نے عین سکیورٹی لیک والے دن کہا تھا یہ پہلے ملک برباد کرتے ہیں‘ اسے لہولہان کرتے ہیں یہ''جرنل‘‘ پھر نواز شریف سے کہتے ہیں کہ آئو اب اس ملک کو ٹھیک کر دو۔ جرنیلی کے متاثرین میں سے ایک عدد وزیر سے کوئی پوچھے کہ وہ کون سا جرنل ہے وہ جس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ لیکن ایک وزیر کا کیا تذکرہ تین اور بھی ہیں۔ ایک وہ جو اپنے بادشاہ احتساب کے لیے چھوٹی موٹی رقم والی ویڈیو کی زد میں آئے۔ نادر شاہی حکم صادر ہوا اسے نکال دو۔ وزیر صاحب نکلے بھی لیکن پچھلے دروازے سے پھر دربار میں گھس آئے تیسرا نام تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اگر نہیں جانتے تو فیصل آباد والے چوہدری شیر علی سے پوچھ لیں۔ چوہدری شیر جن دنوں اڈیالہ جیل میں بند تھے ان دنوں احتساب عدالت راولپنڈی کے باہر یہی وزیر پانی کی بوتل پکڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔ ان دنوں میں اسی عدالت میں نواب کالا باغ ملک اسد خان‘ چوہدری شیر علی کے ہمراہی ملزم پپو بٹ‘ آصف زرداری‘ سینیٹر چوہدری تنویر سمیت دیگر اہم مقدمات کا وکیل صفائی تھا۔ جیل کے ساتھ چوہدری شیر علی صاحب کو بابا شیرو ڈنڈا پھیرو کہہ کرپکارتے تھے۔ افریقہ میں اصلی شیروں کو صواحلی زبان میں باباشیرو ہی کہا جاتا ہے۔ پھر باری آئی وزیر ماحولیات کی جو کہ کراچی کے کوٹے سے تعلق رکھتے ہیں مگر پلے بڑھے پنڈی میں۔ وزیر موصوف کی وڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ جس میں ایک میں ڈی جی‘ آئی ایس آئی کے ٹیلی فون ٹیپ ہونے کا اعتراف پایا جاتا ہے۔ ان چار وزیروں پر علیحدہ علیحدہ حرف آئے۔ لیکن ان سے ان کے اپنے سلطان نے ایک ہی جیسا سلوک کیا۔2عدد وزیروں کے ساتھ ایک نمبر سلطان نے اور دیگر دو وزیر حضرات کے ساتھ سلطان نمبر دو نے بھی ایک جیسا سلوک کیا۔ الزامات کی آزادانہ تحقیقات کے لیے ان سے استعفے لے لیے گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہائوس آف شریف پر یہ والا اصول بھی لاگو نہیں ہوتا قوم کہہ رہی ہے استعفیٰ دے دو۔ حالانکہ ان کا اپنا اصولی موقف ہی دیکھا جائے تو پانامہ تحقیقات تک نواز شریف کو وطنی یا جلاوطنی استعفیٰ دینا چاہیے۔ پاکستان بھر میں نواز شریف صاحب کے لیے بے شمار سرُور پیلس موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنے لیے علیحدہ اصول اور اپنے ہی وزیروں کے لیے دوسرا اصول جب کہ مخالفوں کے لیے ڈنڈا ڈولی کا پیمانہ بنا رکھا ہے۔ بات ہورہی تھی غلیل والوں کی نہ جانے اس میں شیر کہاں سے گھس آئے۔ بیٹھنے سے یاد آیا کہ ایک کالا نیگرو آٹھ سال تک امریکہ کے وائٹ یعنی سفید ہائوس میں بیٹھا رہا۔
آٹھ سال وائٹ ہائوس میں گزارنے کے بعد وہ عزت‘ فخر‘ احترام اور اپنے عوام کی بے مثال خدمت والی داستان لے کر سابق صدر اوباما کی حیثیت سے وائٹ ہائوس چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔ آپ کہیں گے اوباما کا وائٹ ہائوس چھوڑنے سے غلیل کا کیا تعلق ہے۔ غلیل کی طرف ضرور واپس آئیں گے لیکن ایوان اقتدار سے رخصتی کے لیے تیار امریکی صدر اوباما کی نااہلی دیکھ لیں۔ وہ اقتدار سے نکل رہا ہے اور اس کا نامہ اعمال خالی ہے۔
ذرا وضاحت سے دیکھیں
1۔ نہ کوئی پانامہ لیکس
2۔ نہ کوئی محلات
3۔ نہ ہی کوئی سکینڈل
4۔ نہ سریا‘ نہ سیمنٹ‘ نہ جنگلہ
5۔ نہ کوئی ٹھیکہ
6۔ نہ کوئی درباریوں کی فوج
7۔ نہ سینکڑوں گاڑیاں‘ ہوٹرز اورسرخ نیلی بتیاں
8۔ نہ چیلے نہ چمچے نہ کڑ چھے
9۔ نہ کوئی ٹیکس چوری‘ نہ کوئی لندن فلیٹ
10۔ نہ کوئی فارن اکائونٹ نہ کوئی سپیڈ والا بھائی
11۔ نہ انڈوں والا بھتیجا نہ ڈالروں والے بچے
12۔نہ کنگلوں کا لشکر جو ارب پتی بن کر ایوان اقتدار سے نکلے۔
رخصتی کا امریکی برانڈ ایک منظر یہ تھا۔ جانتا ہوں کہ آپ غلیل کی تفصیل جاننا چاہتے ہیں یہ غلیل والے بھی عجیب لوگ ہیں اگلے دن ان میں سے 3نے لائن آف کنٹرول پر بھمبر کے شہریوں کو بچانے کے لیے اپنی جان یوں نثار کر دی جیسے ان تینوں کو کبھی جان کی پرواہ تھی ہی نہیں۔ ان میں سے ایک کپتان‘ دوسرا حوالدار اورتیسرا لائنس نائیک تھا۔ یہ تینوں جانباز زندہ رہتے تو تب بھی میرے کالج کے زمانے کے ایک جونیئر کی طرح آزاد کشمیر میں ووٹ بنوا کر ریاست کے سربراہ نہ بن سکتے۔ بڑی غلیل والا بڑا جانباز آپ کے سامنے ہے۔126روزہ دھرنے سے 126روز پہلے اور پھر 126روز کے بعد بھی اس کے پاس قوم کو ترقی کے سفر پر دوڑانے کے بے شمار مواقع آئے لیکن یہ غلیل والے بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں نوکری کو فرض جان کر‘ قوم کی امانت اور ساٹھ سال کی عمر کے بعد ریٹائرمنٹ کو اپنی عزت اور اثاثہ سمجھتے ہیں۔ آج کل ایسا ہی بے پرواہ شخص جسے امیرالمومنین یا میرا سلطان بنانے کے لیے سرکاری بنچوں نے ایڑی چوٹی کا پراپیگنڈہ کیا دورے کرتا نظر آتا ہے۔
میرے کئی قریبی عزیزبھی غلیل والے ہیں۔ یہ بے پروا شخص جہاں جہاں جاتا ہے اس کے ساتھ وابستگی و محبت کا اظہار کرنے کے لیے دوسرے بے پروا جو بے ساختہ جذباتی گفتگو کرتے ہیں۔ اس کی ویڈیو چل جائے تو ساتھ آنسوئوں کا سیلاب بھی چل پڑے گا۔ لیکن کوئی خوشامد‘ کوئی آنسو‘ کوئی قلم ‘ کوئی چمک اس پر غالب نہیں آئی۔ نہ ہی اس نے اپنی غلیل کا منہ ایوان اقتدار کی طرف موڑا وہ وہاں بھی پہنچا جہاں اسے غلیل کا طعنہ دینے والوں کے مالکان خود جانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ پل‘ سڑک‘ سریا‘ سیمنٹ ‘ مرغی‘ انڈا‘ شوگر اور میٹرو کے خواب پرانے ہوئے اقبال اور قائد اعظم کے خواب بھی پیچھے رہ گئے۔
اب تو قائد اعظم ثانی اقبال کی ہر نشانی کو جمہوریت کے حسن سے تبدیل فرما رہے ہیں۔ مثال کے طور پر یوم اقبال کی چھٹی۔ شاعر مشرق کا ان کے دل کی طرح کھلا ہوا مزار اور اب تو عملی طور لب کی دعا بھی بدلی ہوئی نظر آتی ہے۔
ایک طرف یہ غلیل والے ہیں جو دعا کرتے ہیں مالک‘ مرنے کے لیے شہادت دینا اور جینے کے لیے عزت‘ کھرب پتی حکمرانوں کی تازہ دعا یوں ہے۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی سیٹھ کی صورت ہو خدایا میری
ہو مرا کام امیروں کی حمایت کرنا
درد مندوں کی ضعیفوں کی مرمت کرنا
بھائی‘بھائی سے لڑانے کا ہنر دے مجھ کو
گیدڑوں کی طرح پتھر کا جگر دے مجھ کو
لہلاتے ہوئے کھیتوں کو جلا کر رکھ دوں
آگ غربت کی جہاں چاہوں لگا کر رکھ دوں
ہوں میرے نام سے بدنام محلے والے
رات دن دیں مجھے انعام محلے والے
ہو میرے نام سے منسوب''حوالہ‘‘ یا رب
پُھل جھڑی بن کے کروں میں بھی اجالا یا رب