اگلے روز لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی عدالت میں پیش ہوا۔ ایک عدالتی سوال کے جواب میں عرض کیا: حکمران سب کو کہتے رہتے ہیں‘ عدالت کا سامنا کرو‘ اپنی باری آئے تو دوست جج‘ وہ بھی ریٹائرڈ مراعات یافتہ‘ ڈھونڈنے دوڑ پڑتے ہیں۔
ساتھ ہی عرض کیا: اگر وزیر اعظم کے پاس سکیورٹی لیکس میں چھپانے کے لیے کچھ نہیں تو نواز حکومت اپنے صوبے کی ہائی کورٹ پر عدم اعتماد کیوں کر رہی ہے۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب نے پھر سوال اٹھایا: آپ کو حکومت پر کیوں اعتماد نہیں؟ میں نے کہا: جو حکمران خود اپنی عدالتوں پر اعتماد نہیں کرتے ان کی حکومت پر عوام کیونکر اعتماد کریں گے۔ تفصیلی دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصورعلی شاہ صاحب نے حکومت کو 2 عدد آپشن دیے۔ پہلا یہ کہ سکیورٹی لیکس کے حوالے سے حکومت چاروں صوبوں کے افسران پر مشتمل کمیشن بنانے کا جائزہ لے۔ ایسا کمیشن جس پر قوم اعتماد کر سکے۔ دوسرا آپشن یہ کہ کیا حکومت لاہور ہائی کورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنا چاہے گی؟۔
ملک و قوم پر کیا وقت آ گیا ہے کہ قوم کی قیادت کے دعویدار اپنے ہی قومی اداروں پر اعتبار کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ اس کی تازہ ترین دو مثالیں سب کے سامنے ہیں۔ پہلی مثال: وزیر اعظم ہائوس والا مشہور زمانہ سکیورٹی لیکس‘ جسے خود حکومت نے ایک سے زیادہ دفعہ سکیورٹی بریچ (Security Breach) قرار دیا‘ لیکن اس کے باوجود آفیشل سیکریٹ ایکٹ، آرمی ایکٹ اور آئین سبوتاژ کرنے کے اس حساس ترین مقدمہ میں تحقیقات کے لیے سکیورٹی اداروں پر اعتماد نہ کیا۔ دوسری مثال بھی اسی جرم سے متعلقہ ہے‘ جس کے مطابق پنجاب کے لاہوری گروپ آف بیوروکریٹس اور کچھ حکومتی پے رول والی شخصیات کو شامل کرکے ایک فیملی فرینڈ کو تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی دے دی۔ ساتھ ساتھ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے لیے آئی ایس آئی اور ایم آئی‘ دونوں کا ایک ایک نمائندہ تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کر دیا۔ ذرا غور فرمائیے کہ کس طرح دھاندلی کے نظام کی دھاندلی زدہ حکومت نے پہلے اپنے پانچ لوگوں کی اکثریت کمیٹی کے ممبران میں شامل کی‘ پھر سکیورٹی اداروں کو عملی طور پر کمیٹی کے سپرد کر دیا۔ کون نہیں جانتا کہ حکومت 2 کے مقابلے میں 5 کا فیصلہ اپنی جیب میں ڈال کر گھوم رہی ہے۔ یادش بخیر، 1994ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے شرف آفریدی بنام فیڈریشن آف پاکستان نامی رپورٹ شدہ (PLD 1994 SC. Page 105) مقدمہ میں عدلیہ کو انتظامیہ کے شر اور چنگل سے آزاد کروایا تھا‘ لیکن اپنے قومی اداروں پر عدم اعتمادکے عادی ٹولے نے شرف آفریدی کیس کو ہوا میں اڑا دیا۔ یہ ہے بھی تازہ واردات۔ تب کی واردات جب ماڈل ٹائون قتل عام کے مقدمے سے اپنی گردن نکالنے کے لیے 302 کے ایک نامزد ملزم نے لاہور ہائی کورٹ کو جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کی درخواست دی‘ جس کے نتیجے میں جسٹس باقر نجفی کمیشن قائم ہوا۔ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں‘ یہ ایک جوڈیشل کمیشن تھا‘ اس لیے اس کا فیصلہ عدالتی حکم نامے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کون یہ بات نہیں جانتا کہ ہر عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل، نظر ثانی، رٹ پٹیشن یا نگرانی کا راستہ سب کے لیے کھلا ہے‘ لیکن ماڈل ٹائون قتل عام کے ملزموں نے خود اپنے حق میں اپنے ہی قلم سے اپنے ہی ملازمین پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی بنا ڈالی۔ اس کمیٹی کے بندگانِ شکم نے انصاف کی بجائے شکم کا عَلم بلند کیا۔ جسٹس نجفی صاحب پر مشتمل ون مین کمیشن کے جوڈیشل فیصلے کو مسترد (Over Rule) کر دیا گیا۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب نے مجھ سے کہا: ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے سیاسی معاملات پر نہیں بلکہ (Natural Clamity) یعنی قدرتی آفات پر ہی جج نامزد کریں گے۔ میں نے جواباً عرض کیا، یہ National Clamity یعنی قومی آفت ہے‘ جس سے ہماری قوم کو نقصان ہوا‘ لیکن مودی کی قوم کو علاقائی نہیں بلکہ عالمی سطح تک فائدہ پہنچا۔
چونکہ بات جوڈیشل کمیشن پر چل نکلی تھی اس لیے میں نے موقع مناسب سمجھا اور محترم چیف جسٹس صاحب سے مطالبہ نما درخواست کر دی کہ لاہور ہائیکورٹ جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ فوری طور پر شائع کر دے۔ جوڈیشل کمیشن اور وہ بھی اپنے ہاتھ سے بنائے گئے، جن کی رپورٹ کو موجودہ حکمرانوں نے تسلیم نہ کیا۔ ان میں سے انتہائی قابل ذکر کمیشن 2010ء کا سیلاب کمیشن ہے۔ اس کی رپورٹ بھی چھپائی گئی‘ اور اس طرح پنجاب کی کروڑوں ایکڑ اراضی‘ لاکھوں گھر‘ کروڑوں مویشی، جنگلی حیات، اربوں روپے کی فصلیں، گائوں، شہر اور انسانی بستیاں برباد کرنے والے ظالموں کے ظلم پر پردہ ڈالا گیا۔
ٹرانسپیرنسی اور احتساب کے حوالے سے گزشتہ تین سالوں کے دوران دنیا بھر میں احتجاج کی لہر آئی ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف سمیت عالمی ادارے اور کرپٹ حکمران ننگے ہو رہے ہیں‘ اور عام لوگوں کے غیظ و غضب کی زد میں ہیں‘ لیکن پاکستان میں اس مقصد کے لیے اربوں روپے کے خرچے پر چلنے والے ادارے معذور ثابت ہوئے۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹ کمیٹی سے شروع کرکے ایف بی آر تک ایک تماشہ لگا ہوا ہے۔ یہ ادارے حکمرانوں کی کرپشن کے لیے پاکستانی بہاماس اور لوکل پاناما سمجھے جاتے ہیں۔ اسی لیے حکمرانوں کی نظر میں ان کی جتنی قدر و قیمت ہے‘ عوام کے دلوں میں ان کے لیے اتنی ہی لعنت اور ملامت پائی جاتی ہے۔ عوام بمقابلہ حکمران نامی اس کشمکش کے نتیجے میں اہم ترین قومی ادارے فٹبال بن گئے ہیں۔
قومی اداروں پر اس عدم اعتمادکی ایک مثال سپریم کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کی تازہ گفتگو سے بھی ملتی ہے۔ سپریم کورٹ میں عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے ان اہم رپورٹرز کو ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے شام کی چائے پر اپنے گھر دعوت دی۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران میزبان نے مہمانوں سے دو سوال پوچھے: پہلا یہ تھا کہ پاناما کیس کو آپ مضبوط سمجھتے ہیں یا کمزور۔ سب کا متفقہ جواب تھا: یہ انتہائی مضبوط مقدمہ ہے۔ مہمانوں سے پوچھے گئے دوسرے سوال کا جواب بھی متفقہ ہی آیا جو یہ ہے‘ ''ان حکمرانوں کے خلاف نہ پہلے کبھی کوئی فیصلہ آیا نہ اب آ سکتا ہے‘‘۔ اس تناظر میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ قومی اداروں پر عدم اعتماد یک طرفہ نہیں۔ اس عدم اعتماد کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ بیوروکریسی، پولیس سمیت دیگر اداروں میں راج دربار کی خوشامد پر مبنی سیاست ہے۔ اس بیماری کا دوسرا سبب خود سیاست دان ہیں‘ جن کا سیاسی ایمان یہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ کرپٹ اور بے ایمان اہلکار ہیں۔ ایک تیسرا المیہ بھی قابل ذکر ہے۔ وہ ہے‘ بعض عدالتی فیصلے جنہیں نوکری بچائو مہم والے عدالتی انقلاب میں نیا عنوان دیا گیا تھا‘ اور یہ عنوان ہے "Political Justice" (یعنی سیاسی انصاف)۔
سیاسی انصاف پر مبنی دو مقدمے انتہائی اہم ہیں۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ‘ جس میں کہا گیا کہ زیادہ منظم دھاندلی نہ ہو سکی۔ دوسرا فیصلہ حلقہ این اے 110 سیالکوٹ 1- کے بارے میں ہے‘ جہاں کے آر او کو الیکشن کمیشن نے ملزم ٹھہرایا۔ پھٹے ہوئے تھیلے، ٹوٹی ہوئی سیل، انتخابی قانون کی دھجیاں ہوا میں اڑ گئیں۔ الیکشن سے پہلے جس امیدوار نے پریذائڈنگ آفیسرز کو چائے پلائی اور ان سے خطاب بھی کیا‘ اس کے بارے میں کہا گیا: اس کا کیا قصور؟
موضوع خشک ہے اور طویل بھی‘ شاید یہ شعر اس خشکی کو دور کر دیں:
اسی کا نام زمانے میں ابتلا ہے دوست
ہم ایسے لوگ بُتوں کو بلند و بام کریں
لُقندروں کی سیادت پہ اکتفا کرکے
گرہ کٹوں کی جماعت کا احترام کریں
وہ جن کا نام شریفوں میں ایک گالی ہو
انہیں ہم ایسے قلم کار بھی سلام کریں
مرے خدا یہ سزا کس لئے ہمیں دی ہے
کہ ہم گدائوں کے سرخیل کو امام کریں
عجیب کام ہے جس پر لگا دیا ہے ہمیں
کہ دھوپ چھائوں کے بیٹوں کو نیک نام کریں
نٹوں کو قبلہء حاجات کا لقب بخشیں
برائے شکم خلافِ ضمیر کام کریں
بپاسِ تاجِ شہئی خانہ زادگان کبیر
سفید ریش بزرگوں کو زیرِ دام کریں
بکائو مال کی بہتات ہے زمانے میں
فقیہِ شہر برآمد کا انتظام کریں
قلندروں میں کوئی بک سکے؟ یہ ناممکن
مجاوروں کی خرید و فروخت عام کریں