امریکہ میں جمہوریت ناکام ہو گئی، شکر ہے ہماری جمہوریت چل رہی ہے۔ امریکی جمہوریت کی ناکامی کی پہلی وجہ کا نام بارک حسین اوباما ہے، جبکہ ریاست ہائے متحدہ کی دوسری ناکامی کا نام ڈونلڈ جے ٹرمپ کہہ لیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے جمہوریت کی اولین کامیابی، دو نمبر کامیابی‘ اور انشااللہ آخری کامیابی کا نام ماشااللہ، اللہ کے فضل و کرم سے قائد اعظم ثانی ہے (الحمدللہ)۔
بیربل کا یہ استدلال سن کر میں نے کہا: حضرت کچھ سمجھ نہیں آیا، بیربل صاحب آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اس کے کانوں سے دھواں نکلا۔ نتھنوں سے آتش فشاں جیسی آواز نکلی۔ پھر اس نے دانت کچکچائے‘ اپنی وسیع و عریض پیشانی پر بل ڈالا، بلی جیسی آواز کو شیر کی دھاڑ بنانے کی ناکام کوشش کی‘ اور بولا: میرا موقف کھلی کتاب ہے‘ اگر کسی نے پڑھی نہیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ آنکھیں کھولو اور اس کتاب کو پڑھو‘ یہ مکمل کتاب ہے۔ پھر اس نے شیرکے بجائے اپنے اوپر شاعر والی اداسی طاری کی‘ اور بولا: آپ نے الطاف حسین کا نام سنا ہے؟ عرض کیا: جی ہاں، انتخاب حسین کے چھوٹے بھائی۔ اس نے پھر دانت پیسے اور بولا: اوہ ہو‘ آپ نے کچھ نہ سننے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ پھر کہا: میں تو دوسرے الطاف حسین کی بات کر رہا ہوں۔ ان کو آپ عالی صاحب کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ الطاف حسین عالی کون ہیں۔ موصوف گویا ہوئے: تین شعر سن لیں‘ آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ وہ کون ہیں! ساتھ ہی اپنی عبرت انگیز بیٹھی ہوئی آواز کو مترنم سمجھ کر بیربل دونوں ہاتھ لہرا لہرا کر یوںگنگنانے لگا: ؎
میں نے کہا‘ تُو کون ہے‘ اُس نے کہا‘ قسمت تیری
میں نے کہا‘ چاہے تو کیا‘ اس نے کہا‘ خدمت تیری
میں نے کہا‘ پچھتائے گا‘ اس نے کہا‘ قسمت میری
میں نے اُسے ٹوک کر کہا: یہ الطاف حسین حالی کے اشعار ہیں‘ نہ ہی جمیل الدین عالی صاحب کے۔ اُس کے چہرے پر مروڑ کے آثار نمودار ہوئے۔ میائوں والی آواز میں جوش پیدا ہوا۔ کہنے لگا: پھر میرے قائدِ محترم کے ارشادات ہوں گے‘ اُن کے انتخابی جلسوں کی شاعری نے دھوم مچا رکھی ہے۔ میں نے اُکتا کر پوچھا: کوئی اور بات؟ وہ پھر بولا: شکر ہے ہماری جمہوریت چل رہی ہے‘ یہ بہترین جمہوریت امریکہ جیسی بدترین آمریت سے بہتر ہے۔ پوچھا: امریکہ کی کون سی آمریت؟ بیربل بولا: بارک اوباما کی آمریت‘ اور کس کی؟ ساتھ ہی اترائی پر لگے ہوئے ٹرک کی طرح چھک چھکا کرتا پھر چھلک پڑا۔ کہا: اوباما نے امریکہ کا سارا امیج اور عالمی رعب تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ 8 سال وائٹ ہائوس میں اورنج جوس کے ڈبے، ٹوتھ پیسٹ اور باتھ روم میں استعمال ہونے والے ٹشو پیپر کے رول بھی اپنی جیب سے خریدتا رہا‘ لعنت ہے ایسی صدارت پر‘ جس میں نہ شبھ شبھا، نہ رنگ بازی۔ پھر اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہنے لگا: شکر ہے ہماری جمہوریت چل رہی ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ وائٹ ہائوس میں اوباما اپنی جیب سے ٹوائلٹ پیپر خریدے یا ٹشو پیپر، آپ کو کیا اعتراض ہے؟ بولا: ہمیں دیکھو، ہمارے تو سری پائے بھی ہیلی کوپٹر کے بغیر بھوربن پہنچنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ پھر فخریہ انداز میں پوچھا: مغل اعظم کو جانتے ہو؟ عرض کیا: جی نہیں، وہ مجھ سے چار سو سال پہلے آئے تھے‘ اُنہیں جانتا نہیں البتہ مغل اعظم کا نام سنا ہوا ہے۔ بیربل نے ٹھنڈی آہ بھری اور کہا: وہ ہماری جمہوریت کا پہلا خادم اعلیٰ تھا۔ پوچھا: بادشاہ اور خادم اعلیٰ‘ وہ کیسے؟ بیربل بولے: اس نے پورے شان و شوکت سے اعلیٰ خدمت کروائی‘ ہندوستان کے سارے بجٹ کو اپنی انگلی کے اشارے پر رکھا‘ وہ جہاں بھی بیٹھتا تھا اس کے ارد گرد بھرپور ترقی نظر آتی‘ اُس کے سارے درباری اللہ کے فضل و کرم سے انتہائی امیرکبیر ہو گزرے ہیں‘ بیربل ہو یا ملا دوپیازہ۔ میں نے بیربل سے جان چھڑانے کے لئے کہا: مجھے اجازت دو‘ ضروری کام کرنے ہیں۔ اُس نے میری بات سنی ان سنی کر دی۔ دونوں ہاتھ توند پر باندھے، رکوع کے انداز میں جھک کر بولا: شکر ہے جمہوریت چل رہی ہے۔
میں سمجھا میری سمع خراشی مکمل ہو گئی ہے لہٰذا اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر میرا راستہ روک لیا۔ چہرے پر نحوست نما غصہ طاری کیا اور للکار کے انداز میں کہنے لگا: انشااللہ‘ ترکی کی طرح قیامت تک پاکستان میں جمہوریت چلے گی۔ شکر ہے ترکی میں بھی جمہوریت چلی رہی ہے۔ ترکی میں پارلیمنٹ پر انتظامی قہر نازل کرکے جو قانون سازی ہوئی‘ اسے جمہوریت کہنے پر میرے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ کہا: میاں بیربل کس دنیا میں رہتے ہو‘ تمھیں پتہ ہے ترکی کی پارلیمنٹ نے وہی کیا جو جنرل ضیاالحق نے پارلیمنٹ کے ساتھ کیا تھا۔ اب ترکی کا جمہوری صدر 2029ء تک 'میرا سلطان‘ بن چکا ہے۔ اس فیصلے کو قوم پر مسلط کرنے کے لیے ریفرنڈم کروانے کا آئیڈیا یقینا ترکی کے صدر کے پاکستانی گھریلو دوستوں نے دیا ہو گا۔ پھر میں نے بیربل کے ہوش ٹھکانے لگانے کے لیے اسے کہا: نہ یہ ترکی ہے‘ نہ پاکستانی قوم کسی سلطان کو قبول کرے گی‘ یہاں کسی سلطان کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی حکومت‘ نہ کہ 35 پنکچروں والی حکومت۔ عوام کے ذریعے حکومت‘ نہ کہ ریٹرننگ افسروں کے ذریعے سے حکومت۔ عوام کے لیے حکومت، نہ کہ آئی ایم ایف کے لیے حکومت۔ یہ جو چل رہی ہے اس کو تم جمہوریت کہتے ہو‘ جس میں نشتر ہسپتال ملتان کے ایک بیڈ پر 4 بزرگ شہری اکٹھے لیٹ کر علاج کرواتے ہیں۔ یہ نظام مغلِ اعظم والا نہیں شغلِ اعظم والا ہے‘ جس کے زکام کا چیک اپ بھی سنٹرل لندن کے سب سے مہنگے ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ بیربل لڑنے بھڑنے پر اُتر آیا۔ کہنے لگا: شکر ہے جمہوریت بچ گئی‘ ورنہ آپ کو سستی روٹی کہاں سے ملتی؟ یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے 60,70 سو کروڑ کے معمولی خرچے سے ملک کو سستی روٹی دے دی۔ میں نے پوچھا: کبھی روٹی خریدنے بازار گئے ہو‘ یہ سستی روٹی کہاں سے ملتی ہے؟ بیربل بولا: بازار سستے ہوں یا مہنگے سب غریبوں کے لیے ہیں‘ میں اللہ کے فضل و کرم سے سرکار کا چمچہ منہ میں لے کے پیدا ہوا ہوں‘ سرکاری خرچ پہ روٹی کھاتا ہوں‘ سرکاری گھر میں رہتا ہوں اور سرکاری تابوت میں میری تدفین سرکاری قبرستان میں ہو گی‘ اس لیے میں آپ کی طرح سستی روٹی ڈھونڈنے کے چکر میں نہیں پڑ سکتا‘ آپ شکر کریں ہماری جمہوریت چل رہی ہے۔ اب وہ مجھے مداخلت کی مزید اجازت دینے کی موڈ میں نہ رہا۔ کہنے لگا: ہم نے لوڈشیڈنگ کا 6 ماہ میں خاتمہ کیا‘ پاکستان میں ہر جھونپڑے تک LNG پہنچائی‘ اپنی شوگر ملوں کی چینی مفت میں بانٹی' ہمارا انڈہ سب سے سستا ہے‘ ہمارے دودھ میں پانی نہیں ملایا جاتا‘ ہمارا سریا اور جنگلہ پورے پاکستان میں چھا چکا ہے‘ آپ جیسے جمہوریت کے دشمنوں کو یہ ترقی نظر نہیں آتی‘ نہ آئے‘ لیکن شکر ہے جمہوریت چل رہی ہے۔ ہم نے کچی آبادیوں کو آشیانہ سکیم میں چھت فراہم کر دی۔ آج پاکستان میں کوئی سڑک پر نہیں سوتا۔ ہماری کامیاب معاشی پالیسی کے نتیجے میں 15 ہزار روپے والا لیپ ٹاپ ایک لاکھ میں بک رہا ہے‘ آج پاکستان میں پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ کا قرضہ لے کر دنیا میں آتا ہے‘ مجھے بتائو ایشیا میں کسی ملک کا بچہ اتنا قرضہ لے کر آتا ہے؟ آج لندن، فرانس، دبئی، قطر، سعود عرب، برازیل، پاناما، سوئٹزرلینڈ‘ امریکہ، ورجن آئی لینڈز، جرمنی، پولینڈ، ترکی جیسے ملکوں میں ہم نے چھوٹے چھوٹے پاکستان بنا دیے ہیں‘ جہاں لیٹ کر جمہوری لیڈر پاکستان کی ترقی کے منصوبے بناتے ہیں‘ یہ سب کچھ ایک ہی وجہ سے ممکن ہوا‘ شکر ہے جمہوریت چل رہی ہے!