"SBA" (space) message & send to 7575

معافی… کس بات کی؟

تین مارچ 2016 کے دن ایشیائی ریاستوں کی تاریخ کا عجب واقعہ ہوا جب حسین مبارک پٹیل بن کر آنے والا اِنڈین نیوی کا حاضر سروس کمانڈر بلوچستان داخل ہوتے وقت گرفتار ہو گیا۔ بھارت کی پرائم جاسوس ایجنسی ریسرچ اینڈ انیلسز وِنگ (RAW ( کا دہشت گرد بلوچستان، کراچی، اندرونِ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ ظاہر ہے دہشت گردی کا بین الریاستی نیٹ ورک مقامی سہولت کاروں کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سہولت کار کو قانون کی زبان میں (abettor) بھی کہا جاتا ہے۔ جرم میں معاونت کرنے والا۔ ملک دشمن کو چھت فراہم کرنا، ٹرانسپورٹ دینا، مختلف جگہ اُسے متعا رف کرانا، اُسے معلومات فراہم کرنا، اُس تک سرکاری راز پہنچانا، مالی لین دین کرنا، اُسے مظلوم بے گناہ ثابت کر کے بچانے کی کوشش کرنا۔ یہ سب سنگین جرم بھی سہولت کاری ہیں۔ کل بھوشن یادیو کو ٹرائل کے بعدسزائے موت ہو گئی لیکن ابھی پاکستان آرمی ایکٹ اور آ فیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سہولت کاروں کا کورٹ مارشل ہونا باقی ہے ۔ 
کل بھوشن کی سزائے موت پاک بھارت تنازع ہر گِز نہیں۔ نہ ہی اس کا تعلق انسانی حقوق کے کسی قانون سے جوڑا جا سکتا ہے۔ بھارت کے اس دہشت گرد کو بچانے کے لیے حسین مبارک پٹیل کے مقامی'' کزن‘‘ سخت بے چین ہیں اور مختلف طر یقوں سے بھارت سے کل بھوشن بچا ئو مہم کا ٹھیکا لینے کے لیے ایڑیاں ر گڑنا شروع ہو چُکے ہیں۔ یہ و کا لت نامہ چھپنے تک آپ کل بھوشن کیس پر بہت کچھ پڑھ چکے ہوں گے، سوائے اصل بات کے۔ اور وہ ہے کل بھوشن کے خلاف اصل مقدمہ کی تفصیل ۔ دھرتی ماں پاکستان سے پیار کرنے والے یہ مقدمہ جاننا چاہتے ہیں۔ جمعہ کے روز کئی دن بعد میں پارلیمنٹ کے اجلاس میں گیا ۔خیال تھا اپوزیشن جما عتوں کے سربراہوں سے اس معاملے پر بات کروں گا تاکہ سینیٹ آف پاکستان سے کوئی متفقہ مگر موثرمئو قف پیش کیا جا سکے۔ کئی دوستوں سے بات چیت ہوئی مگر مفاہمت کا شکار پارلیمینٹ مجبوری کے لنگڑے گھوڑے سے اُتر کر معذوری کے اندھے خچر پر سوار ہو چکی ہے۔سینیٹ سے پاکستان کابہ یک آواز بولنا اس لیے ضروری تھا کہ بھارت میں راجیہ سبھاا (سینیٹ یاا پر ہائوس) میں ساری سیاسی جماعتیں پاکستان کے خلاف 3دن تک ہذ یان بکتی رہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ خاموش ہے جس کا سبب وہ مفاہمت ہے جسے میں نے بدبودار مُک مکا کہہ رکھا ہے۔سرکاری کُرسیوں پر بیٹھے ہوئے نظریہ پاکستان کے محافظ خواتین و حضرات کے لیے حکم زباں بندی ہے۔ کون نہیں جانتا کل بھوشن3 مارچ 2016 کو ماشکیل کے علاقے سے پکڑا گیا۔ وہ پاکستان توڑنے آیا تھا پاکستانیوں کے عزم کو شکست دینے کے لیے۔ ہمار ے وطن کی وحد ت کو پارہ پارہ کرنے کا اعتراف اُس نے کیمرے کے سامنے بر ملا کیا ۔ اسی وحد ت کے تحفظ کی ہاتھ اُٹھا کر قسم کھانے والے وزیرِ اعظم کو ابھی تک صرف 3 لفظ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی''کل + بھوشن + یادیو‘‘۔ ایسے میں ہماری پارلیمینٹ نے بھارتی پارلیمان کے مقابلے میں تاریخی بے حسی اور پاکستان کی سا لمیت سے کم دلی اور بے رحمانہ روگردانی کا مظاہرہ کیا ہے ۔
اس وقت پارلیمینٹ کے دونوں ایوان نان اِیشوزکے سرکس کا بھرپور شو پیش کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے برسرِ اقتدار اشرافیہ کے کانوں میں ذاتی مفادات کی روئی ڈال دی گئی ہے۔ بھارت سے پاکستان کے خلاف اُٹھنے والی کوئی آواز اس روئی کو ابھی تک نہیں چیر سکی۔ بھارتی جاسوس کمانڈر کا مقدمہ بڑا سیدھا ہے۔ ایک سال پہلے جب کل بھوشن یادیو گرفتار ہوا تو پہلے روز بھارت کا سرکاری مئو قف یوں تھا ''ہم کسی کل بھوشن یادیو کو نہیں جانتے‘‘۔ بھارت کا دوسرا سرکاری مئوقف یہ سامنے آیا کہ'' کل بھوشن یادیو نیوی کا رِیٹا ئرڈ کمانڈر ہے‘‘ بھارت کا تیسرا موقف انڈین نیوی نے پیش کیا جس میں کل بھوشن یادیو کو نیول کمانڈر تسلیم کیا گیا۔3 مارچ 2016 سے لے کر 10 اپریل 2017 تک بھارت نے کبھی نہیں کہا اس کا نیول کمانڈر اغوا کیا گیا ہے۔ ہاں البتہ پاکستان آرمی کے فیلڈجرنل کورٹ مارشل سے موت کی سزا کے فیصلے کے بعد بھارت نے کل بھوشن کے اغوا کا دفاع پیش کیا ۔ دنیا بھر کے فوج داری نظام میں اتنی تاخیر سے گھڑے گئے دفاع کو ( after thought ) کہا جاتا ہے ۔ اب آیئے کل بھوشن یادیو کے آخری دفاعی نقطہ کی طرف۔ وہ ایران کے شہر چاہ بہار میں کیا کرتا رہا، اُسے ایرانی شہریت کیسے ملی۔ کل بھوشن یادیو کو حسین مبارک پٹیل کے نام کا ایرانی پاسپورٹ حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور ایران کی جانب سے پورے ایک سال تک کل بھوشن کے معاملے میں مکمل خاموشی کیوں اپنائی گئی؟؟
بھارتی جاسوس کے حق میں جانے والے دفاعی موقف کے یہ سارے نُکتے کیوں نہ چھیڑے گئے۔ آپ یقینا حیر ان ہوں گے کہ میں نے کل بھوشن یادیو کے خلاف پاکستان کا مو قف پیش کرنے سے پہلے کل بھوشن کا دفاع کیوں سامنے رکھ دیا ۔ اس کی سادہ وجہ یہ ہے تا کہ آپ جان سکیں بھارت کی جانب سے کل بھوشن کے حق میں شروع کی گئی کل بھوشن بچائو مہم میںکتنا دم ہے ۔
اب دیکھیے پاکستان کا مقدمہ کیا ہے۔ RAW کے اعلیٰ ترین عہدے دار کو دہشت گردی کرتے پکڑا گیا۔ اُس کے خلاف مفصل تحقیق اور تفتیش ہوئی ،پھر باقائدہ ٹرائل شروع ہوا۔ بھارتی جاسوس نے عترافِ جرم کیا اُسے صفائی کا پورا موقع ملا۔ اُس کا تیار کردہ دہشت گردی کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ اُسے ملکی قوانین کے تحت سزائے موت سنائی گئی۔ کل بھوشن کو تحریری طور پر اپیل کا حق ملا۔ دوسری جانب بھارت میں افضل گورو کی پھانسی کنفرم کرتے وقت سپریم کورٹ آف انڈیا نے کہا عوام کو راضی کرنے کے لیے پھانسی کی سزا ضروری ہے۔
اجمل قصاب کون تھا کوئی نہیں جانتا۔ دہشت گردی کے جرم میں اُس کا ٹرائل کہاں ہوا کوئی نہیں جانتا۔ اُسے مار کر کہاں دفنایا گیا، کسی کو معلوم نہیں۔ اگر وہ پاکستانی ہوتا تو ہندوستان ضرور کہتا لاش لے لو۔ کل بھوشن ٹرائل میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے غیر ملکی ملزم کو کس بات کی معافی دی جائے۔کوئی بھی اعلیٰ حکومتی عہدیدار اُسے کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ در حقیقت اس ٹرائل کے نتیجے میں اب پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کا ٹرائل شروع ہو گیاہے۔ جو ریاست اپنے مجرموں کو نہ مار سکے اُس کے عوام اِن مجرموں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔
کل بھوشن سے پہلے جن پاکستان دشمنوں کو پھولوں کے ہار ڈال کر واہگہ بارڈر کراس کروایا گیا اُن احسانوں کا بدلہ کل بھوشن یادیو کی دہشت گردی ہے۔
بڑا کرپٹ، بڑا جاسوس، بڑا مجرم، بڑا منی لانڈ رنگ کا لارڈ، بڑا لینڈ مافیا، بڑا منافع خور، بڑا ملاوٹ کار، بڑا ٹیکس چور، بڑا جعل ساز ، ا ن سب میں سے جب کوئی پکڑا جائے تو بڑے بڑے دلائل کے ساتھ معافی برگیڈ حرکت میں آ جاتے ہیں۔ آج کل یہ موسم پھر عروج پرہے۔ لوڈشیڈنگ اور پری رمضان مہنگائی کے موسم کی طرح۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں