ہزارے کے مالٹے کئی ناموں سے مشہور ہیں۔ آپ پوٹھوہار، ہزارہ، ہندکو اور پہاڑی بولنے والے کسی علاقے میں چلے جائیں، مالٹوں کے سیزن میں ایک آواز آپ کو ضرور چونکا دے گی: جیڑھا کپو، اوہ ای لال‘ ترجمہ: جو کاٹو گے اندر سے سرُخ نکلے گا۔ سیل پرموشن کا یہ نعرہ ہزارے کے ''ریڈ بلڈ‘‘ چھوٹے سائز والے مالٹے کی آمد پر لگتا ہے۔ مالٹے کی نسل میں ''ریڈ بلڈ‘‘ سب سے چھوٹے سائز کا فروٹ ہے مگر سب سے لذیز مالٹا یہی ہے۔
جس علاقے کی بات میں کر رہا ہوں وہاں کچھ لوگ دوسروں کو چھیڑنے کے لیے اس پروموشنل نعرے کو بطور ہجو استعمال کرتے ہیں۔ لالو پرساد کے ذکر نے مجھے ہزارہ اور اس کا مالٹا یاد کروا دیا۔ یادش بخیر، آج کل میرے دیرینہ بزرگ دوست بابائے ہزارہ حیدر زمان کے علاوہ ہزارہ صوبہ تحریک کے باقی سارے بڑے لیڈر اقتدار میں ہیں۔ ایک لیڈر وزارتِ امورِ نیکی و پرہیز گاری چلا رہا ہے۔ دوسر ا پی آئی اے کو وَن ویلنگ کروانے کے مِشن میں گم ہے۔ موصوف کے عزیزوں میں سے ایک عزیز کچھ دنوں کے لیے پی آئی اے کا چیئرمین مقرر ہوا۔ اس کے دعووں کے برعکس پی آئی اے تو نہ اُڑ سکی مگر اُس کی بغل میں معجزاتی طور پر اپنی ذاتی ایئرلائن آ گئی۔ صاف ظاہر ہے ہزارہ صوبہ تحریک سے زیادہ ضروری کام یمن کی جنگ اور پی آئی اے کی پتنگ کو بو کاٹا کہہ کر اُڑانے والا ہے۔ ان لیڈروں میں سے بہت جلد کسی سے پوچھنا پڑے گا کہ عارضی کُرسی پر جھولے کھانے کے دوران اُنہیں ہزارہ صوبہ تحریک کے شہیدوں کا لہو کیوں یاد نہیں رہا۔ ہماری سیاست میں لالو نام کا کوئی آدمی کبھی برسرِ اقتدار نہیں آیا اور نہ ہی کوئی پرساد۔ پرساد کا سیدھا مطلب ہے اپنی جیب میں سے اپنا مال نکال کر دوسروں کے نیاز و نذر کر دینا۔
یہاں تو قوم کا مال جیب میں ڈال کر پکڑائی نہ دینے والے گاڈفادر کا اعزاز ملنے پر مبارک بادیں وصول کرکے عزت کے لڈوکھاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک عزت دار کے تنخواہ دار فدائی سے سوال ہوا، آپ کے مُرشد مال کے غم میں اس قدر بے حال ہو گئے ہیں کہ انہیں عزت سے چِڑ آتی ہے۔ فدائی نے پوری صفائی سے جواب دیا ''جس گھر میں اس قدر دولت جمع ہو جائے وہاں عزت پارک کرنے کی جگہ کہاں؟‘‘۔
ماورائے واہگہ بارڈر تازہ لطیفہ لالو پرساد کے بارے میں ہے۔ راوی کہتا ہے لالو پرساد یادیو نے امریکہ کی سب سے بڑی مائیکروسافٹ کمپنی میں ایک خالی پوسٹ کی نوکری کے لیے اپنا سی وی بھجوایا۔ کچھ دن بعد لالو جی کو یہ جواب موصول ہوا:
Dear Mr Laloo Prasad, You do not meet our requirements. Please do not send any further correspondence. No phone call shall be entertained.
''Thanks, Bill Gates
لالو پرساد جی یہ جواب ملنے پر خوشی سے اچھلنے لگے۔ فوری طور پر ایک عدد بھرپور پریس کانفرنس سے خطاب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اوپر درج انگریزی زبان میں لکھا خط قوم کے سامنے پیش کرنے کے لیے یوں گویا ہوئے: آپ سبھوں کو یہ جان کر بہت خوشی ہو گا‘ کی ہم کو امریکہ میں نوکری مل گوا ہے۔
یہ جملہ سن کر لالو جی کے حامیوں نے پُرجوش نعرے لگائے۔ لالو جی نے پریس کانفرنس جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا: اب ہم آپ سب کو اَپُن کا اپائنمنٹ لیٹر پڑھا کر سُنائیں گا۔ پر سُسرا، لیٹروا، انگریجی بولی ماں لکھا ہے۔ اس لیے ساتھ ساتھ ہندی کا ٹرانسلیسن کروں گا۔ لالو جی نے اپنی نوکری کے فیصلے کا جس طرح ترجمہ کیا وہ پیشِ خدمت ہے:
Dear Laloo Prasadپیارے لالو پرساد بھائیا۔
You do not meet آپ ملتے ہی نہیں ہو۔
Our requirement ہم کو تو جرورت ہے۔
Please do not send any further correspondence۔ اب لیٹر ویٹر بھیجنے کا کائونو جرورت نہیں ہے۔
No phone call۔ فونوا کا بھی جرورت نہیں۔
Shall be entertained۔ بہت خاطر کی جائے گا۔
Thanks۔ بہت بہت دھنے واد۔
Bill Gates۔ توھار بِلوا، گیٹ پر انتجار کرت ہے۔
آج کل پانامہ گیٹ کے فیصلے کو مختلف ماہرین بالکل لالو پرساد کے فارمُولے کے عین مطابق پڑھ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کرنے کے لیے سرکار کے لیے گُلو بٹ بریگیڈ کا انداز سب سے زیادہ لذیز نکلا۔ ایک ماہر نے فرمایا: سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین ججوں کا لکھا ہوا فیصلہ ججمنٹ کی تعریف میں نہیں آتا۔ یہ ایک اختلافی نوٹ ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ایک اور لالو فیصلے کی تشریح والی پرساد بانٹنے میں چند قدم اور آگے چلا گیا، کہا: اختلافی نوٹ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کر سکتا۔ عدالتی امور کے سب سے بڑے ماہر نے چڑِے، چِڑی کو بھی مات دے دی۔ بولا ''60 دن بعد آنے والا فیصلہ 2 ججوں کے فیصلے سے بھی خطرناک ہو گا‘‘۔ اسی ڈال پر چہچہانے والی ایک عمر رسیدہ چڑیا 20 اپریل کو کہہ رہی تھی: نواز شریف سُرخرو ہو گئے۔ مجھے پتہ نہیں بلکہ یقین بھی ہے کہ سوائے عدالتی رپوٹروں اور چند وکلا کے باقی ماہرین نے پانامہ کیس فیصلے پر جو ''اقوالِ زریں‘‘ قوم کے نام کیے وہ فیصلہ پڑھے بغیر ہی جاری کر دیے۔ پانامہ گیٹ کے مقدمے کا فیصلہ سناتے وقت بینچ نے یہ ابتدائی ریمارکس دیے ''اس مقدمہ میں ہم پانچوں جج حضرات نے اپنا اپنا فیصلہ تحریر کیا ہے‘‘۔ جس کا سیدھا مطلب یہ ہوا کہ محترم جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب اور محترم جسٹس گلزار احمد صاحب کے فیصلے کو باقی تینوں ججوں میں سے کسی نے رَد نہیں کیا۔ لہٰذا وہ ڈیکلریشن جو ان 2 جج حضرات‘ جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے وزیرِ اعظم کی نااہلی کے لیے جاری کیا‘ وہ پاکستان کے آئین اور ملکی قانون کی تشریح کے اصولوں پر مبنی فیصلہ ہے۔ قانون کی تشریح اور آئین جو کہ بذاتِ خود سپریم لا ہے، اس کی تعبیر پر مبنی فیصلے کے بارے میں مجھ سمیت کسی اور کی رائے سے زیادہ اہم رائے آئین نے خود ان لفظوں میں دے رکھی ہے‘ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہیں: آرٹیکل :189 ''عدالتِ عظمیٰ کا کوئی فیصلہ جس حد تک کہ اس میں کسی امر قانونی کا تصفیہ کیا گیا ہو یا وہ کسی اصولِ قانون پر مبنی ہو یا اس کی وضاحت کرنا ہو۔ پاکستان میں تمام دوسری عدالتوں کے لیے واجب التعمیل ہو گا‘‘۔
محترم جناب مِسٹر جسٹس سینئر ترین جج آصف سعید خان کھوسہ صاحب اور محترم جناب مِسٹر جسٹس سینئر ترین جج گلزار احمد صاحب کے اس فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو یہ واضح ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ نواز شریف کو قومی اسمبلی کی نشست سے فوری نااہل قرار دے کر بے دخل کر دے‘ کیونکہ نہ تو وہ سچے ہیں نہ ہی امانت دار۔ کیا پاکستان کا کوئی بھی ادارہ‘ چاہے وہ ایگزیکٹو کے اختیارات استعمال کر رہا ہو یا پھر جوڈیشل اتھارٹی رکھتا ہو‘ سپریم کورٹ کے حکم نامے کو رَدی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔ اس اہم سوال پر بھی اپنی رائے دینے کی بجائے آئین کے آرٹیکل 190 کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ جس کی زبان خود وضاحت کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملک کی ایگزیکٹو اور جوڈیشل نوعیت کے کام کرنے والے سارے اداروں پر کس طرح اطلاق ہو گا۔ ملاحظہ فرمائیں آئین کا آرٹیکل 190: ''پورے پاکستان کی عاملہ و عدلیہ کے تمام حکام، عدالتِ عظمیٰ کی معاونت کریں گے‘‘۔ (جاری)