مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ روز محشر بپا ہے اور ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ایک اجنبی بزرگ میرے پاس آئے۔ اُن کا چہرہ نورانی، داڑھی اور مونچھ سُرخ اور شخصیت پُروقار تھی۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور پوچھا ''تم مجھے پہچانتے ہو؟‘‘۔ میں نے کہا ''نہیں‘‘۔ اُنہوں نے کہا: میں علی ؓ ہوں اور تمہیں بتانے آیا ہوں کہ آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ آپؐ جنت کے دروازے پر میرا انتظار کریں گے‘ اور تمہیں ساتھ لے کر جنت میں داخل ہوں گے۔ پھر اچانک میں بیدار ہو گیا۔
یہ خواب حیدر علی کے بیٹے فتح علی نے سال 1798ء مئی کے مہینے میں دیکھا۔ فتح علی کا یہ خواب ایک سال بعد 4 مئی 1799ء کی رات کو پورا ہو گیا۔ حیدر علی کا بیٹا کتنا بخت آور تھا۔ فتح علی نے یہ خواب دیکھتے ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی ڈائری میں لکھ کر اسے محفوظ کر دیا‘ اور خود کو حُریت کی تاریخِ عالم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر لیا (British library I.O Islamic 3563, F-6V) خواب نمبر 12:
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم
رسولِ پاکؐ نے بانہوں میں لے لیا ہو گا
علیؓ تمہاری شجاعت پر جھومتے ہوں گے
حسین پاکؓ نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
گزشتہ رات میں 12 بجے کے قریب گھر پہنچا۔ سونے کی کوشش کی لیکن ایک خوشگوار سی کیفیت نے 45: 5 تک آنکھ نہ لگنے دی؛ چنانچہ بِستر سے اُٹھ کر ریڈنگ ٹیبل پر جا بیٹھا۔ 48 سال 3 مہینے اور 72 دن شیر بن کر زندگی گزارنے والے ٹیپو سلطان کی شہادت کی رات تھی۔ آج سے 218 سال پہلے ہندوستان میں آزادی اور خود مختاری کا آخری چراغ بُجھ گیا۔ فتح علی ٹیپو سلطان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ 17 سال 4 ماہ 4 دن مسلسل بہادرانہ لڑائی لڑتے لڑتے 4 مئی 1799ء کے دن سرنگا پٹم میں دادِ شجاعت دینے کے دوران اپنی جان ہم وطنوں کی عزت پر قربان کر گیا۔ اس کی شہادت کے بعد بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرنگی کمان دار ٹیپو سلطان شہید کی بے جان لاش کے پاس جانے سے ڈرتے رہے۔ لندن کی برٹش لائبریری میں موجود تاریخی مواد 218 سال سے آج تک سلطان فتح علی ٹیپو کی بہادری کے لازوال ترانے پڑھ رہا ہے۔ ٹیپو سلطان ماہ نومبر سال 1750ء میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے مشہور ضلع بنگلور کے علاقے دیوانہالی میں پیدا ہوئے۔ اب یہ گائوں علاقے کا مشہور ترین قصبہ بن چکا ہے۔ اس کی آبادی 40 ہزار کے قریب ہے۔ فتح علی ٹیپو سلطان کے والد سلطان حیدر علی بھی انتہائی شجاع جنگ جُو تھے۔ وہ 7 دسمبر 1782ء کے دن فرنگیوں کے خلاف دوسری جنگِ میسور کے عرصے میں راہیِ ملکِ عِدم ہوئے۔ 29 دسمبر 1782ء کو فتح علی ٹیپو سلطان اپنے والد کے بعد تختِ میسور پر بیٹھے۔ ایک طرف سلطان حیدر علی اور ٹیپو سلطان ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی میں جانے سے روکنے کے لیے تادمِ آخریں میدانِ جنگ میں دادِ شجاعت دیتے رہے۔ وہیں پر دوسری جانب ہندوستان کے 2 غدار ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کے ٹوڈی کا کردار ادا کیا۔ ان میں سے ایک کا نام میر صادق اور دوسرے کا پورنیا ہے۔ میر صادق نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کو سرنگاپٹم میں واقع ٹیپو سلطان کے قلعے کا خفیہ نقشہ بیچ ڈالا‘ جس کے بعد میر صادق اور پورنیا کی ملی بھگت سے سرنگاپٹم قلعے کی دیوار باآسانی توڑ دی گئی اور 4 مئی 1799ء کو بعد از دوپہر فرنگی فوج غدارانِِ وطن کی مُخبری پر قلعے کے اندر جانے میں کامیاب ہو گئی۔ بزدل غداروں کی جوڑی نے ایک طرف انگریزی فوج کو قلعے میں داخل ہونے کے لیے سہولت کاری کی جبکہ دوسری طرف معصوم شکلیں بنا کر ٹیپو سلطان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُنہیں خوف زدہ کرنے کی ناکام کوشش کی۔ دونوں نے بڑی مکاری سے کہا کہ فرنگی فوج نے قلعے کو ہر طرف سے گھیر لیا ہے۔ اب ہم پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ آپ کے بچنے کی کوئی صورت نہیں‘ لہٰذا سلطانِ محترم خفیہ راستوں سے اپنی جان بچا کر نکل جائیں۔ اسی لمحے ٹیپو سلطان نے ایک جملے میں بہادری کی ازلی تاریخ لکھ ڈالی۔ فرمایا ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ شوقِ شہادت میں ٹیپو سلطان کا لگایا ہوا یہ نعرہِ مستانہ آج دنیا بھر کی حُریت پسند قوموں، شجاع لیڈروں اور بہادر عوام کے لیے محاورہ بھی ہے اور روڈمیپ بھی۔
سلطنتِ میسور، ہندوستان میں سالوں تک حُریت پسندوں کا سب سے بڑا آزادی مورچہ رہا۔ پہلی جنگِ میسور 1766ء میں شروع ہوئی اور 1769ء میں سلطان حیدر علی نے مدراس میں فرنگی اور مرہٹہ فوج کے اتحاد کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ پھر دوسری، تیسری اور چوتھی جنگِ میسور میں یکے بعد دیگرے باپ بیٹے نے بہادری اور شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کر ڈالیں۔ میسور کی سلطنت کے سلطان فتح علی ٹیپو صرف عظیم جرنیل ہی نہیں بلکہ عادل بادشاہ بھی تھے۔ اُن کے دورِ حکومت میں انسانوں کو بَلی (قربانی) چڑھانے، عورتوں کی منڈی میں خرید و فروخت، نمود و نمائش کے لیے اخراجات اور کرپشن، ڈالی اور سرکاری حُکام کے تحفے لینے پر مکمل کنٹرول قائم رہا۔ ٹیپو سلطان نے سلطنتِ میسور کے عوام کو ملکی معاملات سے آگاہ رکھنے کے لیے اوّلین اخبار جاری کیا۔ ٹیپو سلطان اور اُن کے والد حیدر علی نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک ہندورستان میں انگریزوں کی پیش قدمی طاقت کے زور سے روکے رکھی۔ ٹیپو سلطان نے بہترین جنگی ہتھیار ایجاد کیے۔ انہیں پہلا میزائل(طغرق) بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔
شاعرِ مشرق حضرت اقبال نے شہید سلطان فتح علی ٹیپو کو ان لفظوں سے عقیدت کا خراج پیش کیا: ؎
تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو، محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدہء کائنات میں
محفل گداز! گرمیء محفل نہ کر قبول
صبحِ ازل یہ مجھ سے کہا، جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہِ حق و باطل نہ کر قبول
مری دعا ہے اس ملکِ خداداد کو کوئی اقبال جیسا رہ نوردِ شوق اور فتح علی ٹیپو سلطان جیسا دریائے تند و تیز میسر آ جائے۔