حسنِ انتظام نہ سہی، حسنِ اتفاق مان لیتے ہیں۔ مگر ہُوا وہی جس کا ڈر تھا۔ لیکن ذاتی طور پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے مادرِ وطن کی خود مختاری کے سوال پر میں سب سے پہلے آن ریکارڈ آیا ۔ ایک دفعہ نہیں بار بار ۔ٹوئیٹر پر ، سپریم کورٹ میں ، فیس بک پر ، میڈیا میں بھی ۔
مودی کے بچے اور انڈیا کے بیٹے کلبھوشن کے حق میں آئی سی جے کی طرف سے اولین ریلیف نے پاکستان کے قومی منظرنامے کو سوال پورہ بنا دیا ہے، با لکل جنجال پورہ کی طرح۔ اس سوالستان کے کچھ سوال مگر ایسے نہیں جن سے آنکھیں چُرائی جا سکیں۔ ریاست آنکھیں چُرانے کا کاروبار کرنے لگے تو اس کے وجود پر شکوک وشبہات کی چاند ماری ہونے لگتی ہے۔ آنکھیں چُرانے کو انگریزی میں ) (self-denial یا حقیقت کا سامنا نہ کرنے والی بے ہمتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جو حقائق نوشتہئِ دیوار ہیں۔ آئیے اُن کو پڑھتے ہیں۔ سپاٹ فکسنگ کی ساری کہانی کھل جائے گی۔
پہلا سپاٹ: وزیرِ اعظم عرف وزیرِ خارجہ نواز شریف کے بابائے مشاورت بر خارجی امور کا پاکستان کے ایونِ بالا میں بیان ہے۔ جس پر ایک موقر انگریزی اخبار نے یہ شہہ سُرخی جمائی"Evidence against Kalboshan Jadav is insuffient says Sartaj Aziz".
دوسرا سپاٹ: مارچ 2017 کی 29تاریخ‘ نواز حکومت کے دل میں اچانک بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرنے کا احساس جاگا۔ وفاقی حکومت کے متعلقہ اداروں کو یہ ہدایات جاری ہوئیں۔ ICJ ( بین الاقوامی عدالتِ انصاف(کا پاکستان کے حوالے سے اختیارِ سماعت تسلیم کرتے ہیں۔اس حوالے سے اقوامِ متحدہ میں پاکستا ن کی مستقل مندوب ڈاکٹر مدیحہ لودھی صاحبہ کی ذمہ داری لگائی گئی۔جس کا دستاویزی ثبوت آئی سی جے کی وئب سائٹ پر کل شام تک مو جود تھا۔
تیسرا سپاٹ: ایسا کیا ہوا کہ ہمارے اقتداری ٹولے کی اس حرکتِ کے ساتھ ہی بھارت‘ کلبھوشن کا ـکیس آئی سی جے میں لے گیا۔اور وہ بھی صرف 10 دن کے اندر اندر ؟۔چلیے ان دونوں واقعات کو بھی کوئی طے شدہ ''واردات‘‘مت سمجھیں۔اسے بھیــ'' اتفاقات کی فیکٹری‘‘ کا کار نامہ کہہ لیں۔
چوتھا سپاٹ: اگلے ہفتے بھارت سے سریاساجن وی آئی پی طیارے میں آیا۔نور خان ائیر بیس پر طیارہ پارک ہوا۔اوپر ہیلی کا پٹر نیچے سرکاری گاڑیوں کا قافلہ۔ بھارتی وزیرِ ا عظم اور پاکستانی وزیرِ ا عظم کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے والا جنگلہ جندال ،مشکوک ساتھی سمیت بغیر ویزے کے مری لے جایا گیا۔جہاں نواز شریف کوپہلے سے اس کا انتظار تھا۔کیا دفترِ خارجہ نواز،جندال ملاقات کے نوٹس عوام کے سامنے پیش کرے گا تا کہ شک وشبہ کے بادل چَھٹ جائیں۔ یا یہ بھی حُسن اتفاق تھا کہ اس ملاقات کے نہ کوئی نوٹس ہیںنہ کوئی ریکارڈنہ ہی کوئی گواہ۔
پانچواں سپاٹ:دوسرے مقدمات کو عشروں تک لٹکانے والی انصاف کی عالمی عدالت نے فوراََ پاکستان کو نوٹس جاری کر دیا۔یہ با ت بھی اسی عدالت کے ریکارڈ کا حصہ ہے ۔جب پاکستان نے اپنا طیارہ گرائے جانے کے خلاف بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو عدالت نے پاکستان کی درخواست مسترد کر دی۔فیصلہ یہ دیا کہ جن ملکوں کے درمیان (bilateral agreements)یعنی دو طرفہ معاہدے موجود ہیں۔ان کے تنازعات کو آئی سی جے طے کرنے کا اختیارنہیں رکھتی۔یہ ڈکٹیٹر مشرف کے دور کا واقعہ ہے۔
چھٹا سپاٹ:پاکستان کو عالمی تنازعے میں پیش ہونے کے لیے صرف 7 دن دیے گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان کا نمائندہ عدالت سے تیاری کا وقت مانگتا اور آئی سی جے کے رولز کے مطابق پاکستان اپنا ایڈ ہاک جج تعینات کردیتا۔
جس کے ذریعے سے نہ صرف عدالت میں پاکستان کی آواز موجود ہوتی۔ اختلافی نوٹ لکھا جا سکتا بلکہ ججز کے ساتھ لابنگ کا ایک ذر یعہ اور موقع بھی دستیاب ہو جاتا۔ ہوائی جہاز والے تنازعے میں میرے بزرگ دوست اور نامور وکیل شریف الدین پیرزادہ صاحب کو پاکستان کی جانب سے ایڈہاک جج مقرر کیا گیا تھا۔جنہوں نے 3 اور جج بھی اپنے ہمنوا بنائے۔ اسی فیصلے میں عددی اعتبار سے اقلیت میں ہونے کے باوجود شریف الدین پیرزادہ اور دیگر جج صاحبان نے پُر مغز دلائل سے بھر پور بڑا ز بردست اختلافی فیصلہ لکھا۔
ساتواں سپاٹ : نہ جانے موجودہ حکمرانوں اور قطر کے درمیان سِیف کنکشن یا پھر سَیف کنکشن ہے جس کے بچانے کے لیے کبھی قطری ہیلی کاپٹر آیا تھا۔ ابھی ابھی قطری شہزادے کا خط آیا اور ایک دفعہ پھر قطری وکیل آ گیا۔ 1997 میں نواز شریف نے سینیٹر سیف کی سربراہی میںجو احتساب الرحمن کمشن بنایا تھا۔ اس کے سربراہ نے قطر سے دنیا کی گیس کی مہنگی طرین خفیہ ڈیل کی تکمیل پر کہا 32سال سے نواز شریف کا خواب تھا جو ایل این جی ٹھیکے نے پورا کر دیا۔ بیان کے تھوڑے عرصے بعد ہی پاناما لیکس نے اس قطری خواب کی تعبیر کو طَشتِ اَز بام کر ڈالا۔ وکیلِ موصوف کی ویب سائٹ پر ان کی سب سے بڑی عدالتی کامیابی ایک پیٹرولیم کا مقدمہ لکھی ہے۔ اگلے روز خبر آئی کہ پیٹرولیم کے مقدمے میں ہمارے وکیل کچھ سال قبل بھارت کے وکیل رہ چکے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی جَوت جگانے کے لیے قطری وکیل ایسے آیا جیسے وحید مراد پنجابی فلموں میں وارد ہوئے تھے۔
سیّوں نی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا
اِنج لگدا اے جیویں رانجھن مینوں ہِیر بناون آ گیا
یہ سطور لکھتے وقت بھارتی جا سوس کلبھوشن کی سزائے موت فائنل ہو گئی ہے۔ فوجی عدالت کے قوانین کے مطابق کلبھوشن نے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف 40دن میں اپیلٹ کورٹ کے سامنے فیصلے کو اپیل کے ذریعے چیلنج کرنا تھا۔جو نہ ہوا۔لہذا اب بھارتی جاسوس کے پاس چیف آف آرمی سٹاف کے روبرو رحم کی اپیل دائر کرنے کے لیے 60 دن بچتے ہیں۔اسے بھی حسنِ اتفاق کہہ لیجیے کہ کلبھوشن کی سزائے موت اور نواز شریف کے بارے میں گارڈ فادر والا فیصلہ دونوں ایک ہی دن فائنل ہو ٹھہرے۔ حکومت اور شریف فیملی کی طرف سے مقررہ میعاد میں محترم جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب اور محترم جناب جسٹس گلزار احمد خان صاحب کا فیصلہ فائنل ہو گیا۔جس میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا نواز شریف صادق اور امین نہیں ۔قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نا اہل ہیںاور الیکشن کمیشن ان کی نا اہلی کا نو ٹیفکیشن جاری کرے۔ آج کے بعد کوئی بھی فرد یا پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی نا اہلی کا ریلیف الیکشن کمیشن سے مانگ سکتا ہے۔
اسی دن ایک اور اتفاقی حسن نے لشکارا مارا ۔ کیونکہ ایک ہی دن میں بھارتی جا سوس کلبھوشن کی سزائے موت اور وزیرِ اعظم کے بارے میں گارڈ فادر برانڈ فیصلہ اور سر تاج عزیز کی جانب سے مجرمانہ غفلت کا اعتراف اکٹھے فائنل ہوئے ۔موصوف فرماتے ہیں۔عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان کی تیاری مکمل نہ تھی۔شواہد کچھ اور بتاتے ہیں اور وہ یہ کہ ''تیاری ‘‘ مکمل تھی اسی لیے قطری وکیل کوصرف فارن آفس کی پریس ریلیز تھما دی گئی۔ بھلا ہو آزاد میڈیا اور سوشل میڈیا کاجنہوں نے اس فکسڈ سپاٹ کا پردہ بھی چاک کیا۔
شہرِاقتدار کے ستم گر نے مزید پردہ اُٹھاتے ہوئے اردو کا ایک قدیم محاورہ تک بدل ڈالا۔محاورہ تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ذہنِ رسا نے اس محاورے کو اُلٹ کر کہا 3دفعہ کا ذکر ہے۔آپ خود پڑھ لیجیے۔
۱:ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔امریکہ کو مطلوب میر ایمل کانسی کی حوالگی کا مطالبہ آیا۔ حکومت کے مزاج کو سمجھتے ہوئے ڈالر سنگھائے گئے۔میر ایمل کانسی اغوا کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔جس پر امریکی اٹارنی جنرل نے مشہور جملہ بولا تھا''پاکستانی (حکمران)پیسے کے لیے اپنی ۔۔۔۔۔ بھی بیچ دیتے ہیںــ‘‘
2:دوسری دفعہ کا ذکر ہے ریمنڈ ڈیوس نے دن دیہاڑے معصوم پاکستانی مارے۔ لوگو ں نے پکڑ کر پولیس کو دیا۔جان کیری شہباز شریف سے ملا پنجاب حکومت نے معاملہ ''حلــ‘‘کر کے ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ رخصت کیا۔۔۔!
3:تیسری دفعہ کا ذکر ہے ان گنت معصوم پا کستا نیوں کو دہشت گردی میں قتل کرنے کا اعتراف کرنے والے بھارتی جاسوس کو پھانسی کی سزا ہوئی‘یک دم ''پاپا کا پرانا بھارتی دوست‘‘بغیر ویزا کے مری گیا۔۔عالمی عدالت کو خفیہ خط لکھا گیااور پھانسی روک دی گئی۔۔۔!
انتظار فر مائیے ۔چوتھی دفعہ کا ذکر کب آتا ہے۔ اگر ریاض کے شاہی دربارمیں اعلیٰ حضرت علامہ ڈی جے ٹرمپ نے عصرِ حاضر کے بہادر ِثانی کی حاضری قبول فرما لی تو پھر شکیل آفریدی۔؟