پانامہ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو۔ یہ اخلاقی سوال بہرحال ضرور اُٹھے گاکہ ملک پر حکمرانی کرنے والے فوجی اور سول حکمرانوں اور ان کی اولاد وںکو بیرون ملک اثاثے رکھنے کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں؟ اگر عوامی دبائو قائم رہا تو ہر اہل اقتدار کو اپنے بیرون ملک اثاثے بیچ کر پاکستان واپس لانے ہوں گے اگر کسی نے ملک میں سیاست کرنی ہے تو اس کے بیرون ملک اثاثوں کا جواز کیا ہے؟؟
مثال سے بات واضح ہو جائے گی...
زیادہ دیر کی بات نہیں یہی بس تین عشرے پہلے کینیڈا کے فرانسیسی بولنے والے صوبے کیوبک کے حالات بھی پاکستان جیسے تھے۔ سیاست دانوں کے بارے میں کرپٹ اور نااہل ہونے کا تصّور عام تھا۔ سیاسی جانشینی کی وجہ سے صوبے کے لوگ سیاست اور جمہوریت سے بیزار ہوتے جا رہے تھے حد تو یہ کہ کینیڈا کی انگریزی بولنے والی اکثریت کا کردار اسٹیبلشمنٹ کا سا تھا اور وہ کیوبک صوبے کے فرانسیسی سیاست دانوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے تھے مرضی کی حکومتیں بنواتے اور تڑواتے تھے۔ کرپٹ سیاست دان اپنا اقتدار بچانے اور کرپشن چھپانے کے لیے غلط سلط احکامات پر عمل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ عوام کی بے زاری بڑھتی گئی اور نتیجے کے طور پر ردّ عمل پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ مڈل کلاس کی پڑھی لکھی یوتھ نے ان بدنام سیاست دانوں سے راستہ الگ کر لیا اور اپنی پارٹیاں چھوڑے بغیر کرپشن کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہر ایک نے اپنے اثاثوں کا اعلان کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ اگر ان کے اثاثوں میں غلطی کی نشاندہی ہوئی تو وہ سیاست کو خیرباد کہہ دیں گے۔ معاشرہ کرپٹ تھا اس لیے کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں سے کچھ کرپٹ نکلے مگر عوامی دبائو اتنا بڑھ چکا تھا کہ انہیں سیاست کا میدان خالی کرنا پڑا اور دو دہائیوں کے دوران ہی کینیڈا کا فرانسیسی بولنے والا صوبہ گرگ باراں دیدہ بالکل بدل چکا ہے۔ سو فیصد کرپشن فری نہ سہی مگر وہ کینیڈا کے انگریزی بولنے والے صوبوں کی طرح پاک صاف سمجھا جانے لگا ہے۔ پاکستان کیوبک صوبے کی طرح کیوں نہیں کر سکتا؟ مڈل کلاس جاگتی رہی تو یہ ہو کر رہے گا۔
مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو سے لندن میں ان کے فلیٹ پر ہونے والی ایک ملاقات یاد آ رہی ہے ۔ محترمہ نے مجھے ظہرانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ سوئس مقدمات اور سوئس اکائونٹس پر بات ہوئی۔ میں نے برجستہ کہا کہ میرا آئیڈیل لیڈر تو وہ ہے جس کا بیرون ملک کوئی اکائونٹ نہ ہو۔ محترمہ نے جواب الجواب کہا کہ اگر آپ کے لیڈر کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑے‘ اس کا کوئی غیر ملکی اکائونٹ بھی نہ ہو تو پھر وہ کیا بھیک مانگ کر گزارہ کرے گا۔ میں تھوڑا سا جھینپ گیا مگر کہا کہ غیر ملکی اثاثے اور اکائونٹس سے خیرات بہتر ہے‘ آج تک عوام نے کسی لیڈر کو اس کی غربت کی وجہ سے مسترد نہیں کیا بلکہ ہمیشہ پیار کیا ہے‘ ہاں دولت مندوں اور غیر ملکی اکائونٹس کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کرتے ہیں۔ معاملہ تلخ ہوا تو محفل میں موجود افراد نے بات بدل دی تاکہ ظہرانے کی فضا خوش گوار رہے۔
پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی آئے یہ بات بہرحال طے ہے کہ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے بارے میں قانون سازی کرنی ہو گی۔ اوّل تو یہ طے ہونا چاہیے کہ جس سیاست دان یا اس کی اولاد نے بیرون ملک اثاثے رکھنے ہیں وہ سیاست میں حصّہ لینا چھوڑ دے۔ ثانیاً اگر سیاست دان یہ کہیں کہ مارشل لاء نافذ ہو جائے تو انہیں جلا وطنی اختیار کرنی پڑتی ہے‘ ایسے میں وہ کہاں جائیں؟ بیرون ملک جائیداد ضروری ہے تو پھر قانونی حد مقرر کی جائے اور یہ طے کیا جائے کہ کوئی بھی حاضر یا ریٹائرڈ سول سرونٹ‘ فوجی جرنیل یا سیاست دان بیرون ملک جائیداد لینے سے پہلے اجازت لے اور پھر ان اثاثوں کو باقاعدہ طور پر ڈیکلیئر کیا جائے۔
ماضی قریب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو میثاق جمہوریت میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور محمد نواز شریف نے متفقہ طور پر طے کیا تھا کہ وہ احتساب کے نئے قوانین بنائیں لیکن گزشتہ 9 سالوں میں اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی۔ آخر اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ آج اگر سیاست دانوں کا تاثر ٹھیک نہیں تو اس کی وجہ ان کا اپنے احتساب کے لیے نظام تیار نہ کرنا بھی ہے۔
پانامہ کیس کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آئے یا خلاف۔ انہیں ایک بڑا فیصلہ کرنا ہو گا اور وہ ہے بیرون ملک سے اپنے اثاثے بیچ کر انہیں واپس لانا تاکہ وہ سرخرو ہو کر کہہ سکیں کہ نامساعد حالات میں انہوں نے بیرون ملک اثاثے بنا لیے لیکن اب جمہوریت ہے اس لیے اب وہ جائیداد بیچ کر واپس لا رہے ہیں یہی کام آصف زرداری‘ بلاول بھٹو اور تحریک انصاف کے رہنمائوں کو بھی کرنا ہو گا۔ جو جو یہ کام کرے گا تاریخ میں اس کا نام اونچا ہو گا اور جو پراپرٹی بچائے گا‘ مفادات کا خیال کرے گا‘ سیاسی میدان میں اس کا اخلاقی مقام نیچے گرتا جائے گا۔ فرض کریں کہ نواز شریف یہ فیصلہ کر لیں اور اپنے بچوں کو قائل کریں کہ وہ پاکستان آ کر ہی بزنس کریں اور یہیں جائیداد بنائیں اور بیرون ملک جائیداد کو فروخت کر کے پیسے واپس لے آئیں تو اپنے حامیوں کی نظر میں وہ سیاسی اخلاقیات کے اعلیٰ ترین
درجے پر فائز ہو جائیں گے۔ آئندہ الیکشن جیتنے اور اپنی اولاد کو سیاسی وارث بنانے کے حوالے سے بھی ان کی راہیں کھل جائیں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو قانونی فیصلہ جو بھی آئے‘ اخلاقی سوال بہرحال اٹھتے رہیں گے۔ بلاول بھٹو‘ اپنی والدہ اور نانا کی طرح عوامی سیاست کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ نانا کی طرح غریب کے ساتھ کھڑے ہوں مگر اس ساتھ کے لیے انہیں بھی اپنے اثاثوں کی شفافیت سامنے لانی ہو گی۔ تحریک انصاف کے وہ رہنما جن کی آف شور کمپنیاں ہیں وہ کرپشن کے خلاف نعروں کے دھویں میں چھپ نہیں سکتے۔ یاد رکھیں اگر اہل سیاست نے اپنے تاثر کو بہتر کرنا ہے تو سب کو بیرون ملک سے اپنے اثاثے واپس لانے ہوں گے اور احتساب کا ایسا نظام تیار کرنا ہو گا جس پر سب کو اعتماد ہو۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو پھر داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں...
پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی آئے یہ بات بہرحال طے ہے کہ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے بارے میں قانون سازی کرنی ہو گی۔ اوّل تو یہ طے ہونا چاہیے کہ جس سیاست دان یا اس کی اولاد نے بیرون ملک اثاثے رکھنے ہیں وہ سیاست میں حصّہ لینا چھوڑ دے۔ ثانیاً اگر سیاست دان یہ کہیں کہ مارشل لاء نافذ ہو جائے تو انہیں جلا وطنی اختیار کرنی پڑتی ہے‘ ایسے میں وہ کہاں جائیں؟ بیرون ملک جائیداد ضروری ہے تو پھر قانونی حد مقرر کی جائے۔