میں جائوں تو کدھر جائوں؟ میں کروں تو کیا کروں؟ 70 سال کا ہو چکا ہوں، کئی بار سمجھایا مگر بڑے بیٹے سیاست خان اور چھوٹے بیٹے عسکری خان کی لڑائی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ میری عقل اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ نہ ''یہ‘‘ ٹھیک ہے اور نہ ''وہ‘‘ ٹھیک ہے۔ یہ ضدی ہے تو وہ بھی ہر معاملے میں بالاتر رہنا چاہتا ہے، یہ جمہوری ہے مگر پارلیمان کو اہمیت نہیں دیتا، وہ آئین کا حلف اٹھا کر بھی اسے توڑتا رہتا ہے۔ یہ کرپشن اور بد انتظامی کا تاثر دور کرنے میں ناکام رہا ہے تو دوسرا سقوط ڈھاکہ‘ سیاچن اور کارگل جیسی لڑائیوں میں پسپا ہوا ہے۔ میں آپ کو صاف بتا رہا ہوں کہ نہ ''یہ‘‘ ٹھیک ہے اور نہ ''وہ‘‘ ٹھیک ہے۔ 70 سال پہلے جب میں اس دنیا میں آیا تو جذبے جوان تھے بابائے قوم محمد علی جناح بالغ النظر اور سچے انسان تھے، ریاضت نے انہیں سکھا دیا تھا کہ جب قوم کسی دوراہے پر آ جائے تو ہمیں کس طرح درست راستے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ وہ اپنی زندگی میں ہی اقتدار اور اختیار سیاست خان کے سپرد کر گئے اور کہہ گئے کہ عسکری خان اپنا کام کرے اور سیاست خان اپنا۔ مگر یہ دونوں افراط و تفریط کا شکار ہیں ان میں جذباتی توازن ہے اور نہ اختیاراتی حدود۔ دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھتا ہے اور اسے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ملک کے مسائل کا حل صرف اور صرف اسی کے پاس ہے، باقی سب کرپٹ اور جاہل ہیں حالانکہ یہ انہی کی غلطی تھی کہ میرے دنیا میں آنے کے 24 سال بعد ہی میرا بازو کٹ گیا مگر اس کے باوجود نہ ''یہ‘‘ شرمندہ ہے اور نہ ''وہ‘‘ اپنی اصلاح پر تیار ہے۔ اسی لیے آج اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں رکھ رہا ہوں کہ کاش کوئی میرے بیٹوں کو سمجھائے، جو آپ اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ جب یہ اور وہ آپس میں لڑیں گے تو ظاہر ہے باہر کی قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ آپ کچھ بھی کہیں میرے یہ دونوں بیٹے کچھ سنتے ہی نہیں۔
میرا نام پاکستان ہے اور میں اگر آپ کو اپنی تاریخ بتائوں تو آپ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ میرا بیٹا سیاست خان پہلے 9 سال تو آئین ہی نہ بنا سکا اور جب 1956ء میں اتفاقِ رائے ہوا تو دو سال بعد ہی عسکری خان نے اس کا تیاپانچا کر دیا اور اگلے 10 سال مارشل لا نافذ کیے رکھا۔ بس اس کے بعد تو میرے دونوں بیٹوں میں اقتدار کی کش مکش ہی شروع ہو گئی۔ عسکری خان طاقتور زیادہ تھا، سیاست خان ہوشیار زیادہ مگر جب بھی دونوں کی لڑائی ہوئی طاقتور ہی جیتا حالانکہ بدلتی دنیا میں اب طاقت کا توازن طاقت کی بجائے ذہانت، بہادری کی بجائے تخلیق، زور آوری کی بجائے محنت، وحشیانہ قوت کی بجائے دماغی صلاحیت، تلوار و تفنگ کی بجائے جدید ٹیکنالوجی اور سپاہ کی بجائے ڈرون کی طرف ہو چکا ہے مگر میرے لکیر کے فقیر بیٹے یہ سمجھنے کو تیار نہیں۔ اب تو جمہوریت کا زمانہ ہے، مل جل کر چلنے کا زمانہ ہے، اب اداروں میں مناقشت نہیں مفاہمت ہوتی ہے۔ اب پہلوان بڑے نہیں ہوتے، اب آئی ٹی کے ماہر بڑے ہوتے ہیں۔ سیاست خان اور عسکری خان کو مگر کون سمجھائے؟ قائد اعظم نے تو دوراہے پر آ کر صحیح راستے کا انتخاب کر لیا مگر اس کے بعد جتنی بھی بار دوراہا آیا میرے بیٹوں نے غلط راستے کا انتخاب کیا۔ روس اور امریکہ کی سرد جنگ زوروں پر تھی تو امریکہ کی گود میں جا بیٹھے۔ امریکہ سے بجائے تعلیم و ترقی اور ٹیکنالوجی کے یہ ''ڈالر اور اسلحہ، ٹینک اور توپیں‘‘ لیتے رہے۔ افغانستان میں روس نے مداخلت کی تو سینہ ٹھونک کر روس کا گرم پانیوں تک راستہ روکنے کے لیے تیار ہو گئے‘ مگر اب دونوں بیٹے سیاست خان اور عسکری خان مل کر روس اور چین دونوں کو خود گرم پانیوں تک راستے کی دعوتیں دے رہے ہیں اور معاہدے کرنے کو مرے جا رہے ہیں، حالانکہ پہلے یہی دونوں انہیں روکنے کی خاطر مرے جا رہے تھے، واہ کیا کھلا تضاد ہے؟ افغانستان کی جنگ کا صلہ یہ ملا ہے کہ اب سیاست خان اور عسکری خان دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار پڑھتے ہیں مگر افسوس کہ اپنی پالیسیوں کا انجام دیکھنے کے باوجود سٹریٹیجک گہرائی کا نظریہ چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں، میں اپنے بیٹوں کو کہتا رہا ہوں کہ سیاست خان، سکندر مرزا تھا یا غلام محمد، خواجہ ناظم الدین تھا یا حسین شہید سہروردی سب ہی کارکردگی میں ناکام ٹھہرے اور اپنا سیاسی ادارہ بنانے اور اس کی ساکھ اچھی رکھنے میں ناکام ہوئے۔ دوسری طرف عسکری خان کی آل اولاد نے بھی غلطیوں کے جھنڈے گاڑ دیے۔ ایوب خان 1965ء کی جنگ جیتے بغیر فیلڈ مارشل بن گئے اور صدر کے عہدے کو لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا دیا۔ یحییٰ خان آئے تو دائیں بازو کی ایک جماعت نے انہیں ''خلیفہ‘‘ قرار دے دیا۔ وہ گئے تو انہیں بلا نوش اور سقوط ڈھاکہ کا مجرم بنا دیا گیا، جنرل ضیاء الحق کو میاں طفیل محمد نے صلاح الدین ایوبی کا خطاب دے دیا مگر اب انہیں ریاست پاکستان کے دکھوں کا اصل ملزم گردانا جاتا ہے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ سٹریٹیجک امور پر مہارت کا دعویٰ رکھتے تھے‘ مگر پیش گوئی یہ کرتے رہے کہ امریکہ عراق میں جنگ ہار جائے گا اور صدام حسین جیت جائیں گے۔ افسوس کہ ان کی پیش گوئی الٹی پڑ گئی، جنرل حمید گل عظیم دانش ور کے طور پر جانے پہچانے جاتے رہے ہیں‘ مگر جرنیلی کے میدان میں ''فاتحِ جلال آباد‘‘ جیسے طعنے کے علاوہ انہیں کوئی تمغہ نہیں مل سکا، جنرل آصف نواز اتاترک ثانی بننا چاہتے تھے مگر افسوس
انہیں زندگی نے مہلت نہ دی، جہانگیر کرامت پڑھے لکھے جرنیل تھے مگر انہیں نیشنل سکیورٹی کونسل کا بخار رخصت کر گیا۔ جنرل مشرف اصلاحات کرنے آئے مگر 9 سال کے اقتدار کے باوجود ایجنڈا نامکمل چھوڑ گئے۔ اسی لیے دوبارہ آنا چاہتے ہیں کہ ایجنڈا مکمل ہو سکے، البتہ وحید کاکڑ مختلف تھے‘ اسی لیے پروفیشنل ہی رہے۔ سگریٹ نوش فلاسفر جنرل کیانی آئے اور 12 صفحات کا نسخہ کیمیا صدر اوباما کے حوالے کر آئے۔ افسوس کہ اوباما نے اس پر عمل نہ کیا ورنہ آج دنیا کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔ جنرل راحیل شریف آئے اور چھا گئے، ہاں البتہ باقی سب کو گہنا دیا۔ وزیر اعظم تک پس منظر میں چلے گئے۔ اصولاً بڑا بھائی تو سیاست خان ہے، عسکری خان کو یہ تو خیال رکھنا چاہیے تھا کہ بڑے بھائی کا رتبہ کیا ہے۔ دوسری طرف سیاست خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا، سکندر مرزا کی چالاکیاں، غلام محمد کی تجربہ کاری، چودھری محمد علی کی قانونی موشگافیاں، سر فیروز خان نون کی سفارت، ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست، بے نظیر بھٹو کی عوامیت اور نواز شریف کی تعمیر و ترقی ان کے کام نہیں آئی۔ سبھی کو بادل نخواستہ اقتدار سے جانا پڑا۔ اس سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کہیں نہ کہیں سیاست خان میں بھی خرابی ہے۔ کاش میرے بیٹے سیاست خان اور عسکری خان ملک کے حالات پر رحم کھائیں اور سچ تو یہ ہے، نہ ''یہ‘‘ ٹھیک ہے اور نہ ''وہ‘‘ ٹھیک ہے۔
میرا نام پاکستان ہے اور میں اگر آپ کو اپنی تاریخ بتائوں تو آپ سن کر حیران رہ جائیں گے کہ میرا بیٹا سیاست خان پہلے 9 سال تو آئین ہی نہ بنا سکا اور جب 1956ء میں اتفاقِ رائے ہوا تو دو سال بعد ہی عسکری خان نے اس کا تیاپانچا کر دیا اور اگلے 10 سال مارشل لا نافذ کیے رکھا۔ بس اس کے بعد تو میرے دونوں بیٹوں میں اقتدار کی کش مکش ہی شروع ہو گئی۔