غالب ؔبنام خاتونِ اوّل

عزیزی! سلامت رہو!!
کلثوم بیٹی! تم اردو ادب کی طالبہ رہی ہو اسی لئے براہ راست تمہیں مخاطب کر رہا ہوں۔ آج کل عالمِ بالا کے محلہ شعراء میں پاکستان کے حالات پر بہت گفتگو ہو رہی ہے۔ میرے شاگرد منشی ہرگوپال تفتہ کا خیال ہے کہ تمہارے شوہر نواز شریف نے ہمارے بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کا جو شعر پڑھا ہے‘ ظاہر ہے وہ تم نے ہی اسے سنایا ہو گا۔ ظفرؔ کا شعر کہ
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
دراصل یہ شعر بتاتا ہے کہ تمہارا شوہر حالات کی پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے۔ خاندانِ مغلیہ کے زوال اور تختِ دِلّی کے ختم ہونے کے بعد سے عالمِ بالا کی تمام تر روحوں کی نظر پاکستان پر رہتی ہے۔ کل اقبال ؔاور فیض ؔمیری حویلی، کوچہ بلی ماراں میں (دِلّی والا پرانا نام یہاں بھی چل رہا ہے) آئے تھے۔ دیر تک شعر و شاعری پر بات ہوئی مگر زیادہ ذکر پانامہ لیکس، ڈان لیکس اور پاکستان کے سول ملٹری تعلقات کا رہا۔ عزیزی اقبالؔ بہت فکرمند تھا کہ جس پاکستان کا خواب میں نے دیکھا تھا‘ یہ وہ تو نہیں‘ میں تو اسے ملّتِ اسلامیہ کا ماڈل بنانا چاہتا تھا‘ جس میں روحانی جمہوریت ہو اور منتخب پارلیمان عوامی خواہشات اور اسلامی اصولوں کے مطابق ملک کو چلائے۔ فیض‘ جو عالمِ بالا میں اقبال کے ساتھ ساتھ رہتا ہے‘ کہنے لگا: پاکستان میں جو کچھ چل رہا ہے۔ اس پر یہ شعر حسبِ حال ہے۔ 
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
کل ہی '' فسانہ عجائب‘‘ والا مرزا رجب علی بیگ سرور ؔ ملنے آیا تھا۔ کہنے لگا: کلثوم تو اپنی خاص شاگرد ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ارے مرزا، وہ کیسے؟ تو کہنے لگا: کلثوم وہی تو ہے جس نے ''رجب علی بیگ سرور ؔ کی خدمات‘‘ پر تھیسس لکھا تھا۔ اس لیے عالم بالا میں تمہیں قلم قبیلے میں شامل کیا جاتا ہے۔ اقبال نے بطورِ بزرگ میری ڈیوٹی بھی لگائی کہ کلثوم کو میری تشویش پہنچانا کہ اپنے شوہر کو کہے کہ ملک کو انہی خوابوںکے مطابق چلائے جو اقبال نے دیکھے اور جنہیں جناح نے عملی جامہ پہنایا تھا۔ اقبال نے یہ بھی کہا کہ کلثوم کو کہنا: اس کے خاندان پر جو مالی اور اخلاقی سوال اٹھے ہیں‘ وہ حکمران کے شایانِ شان نہیں۔ کلثوم کو کہنا کہ اپنے بیٹوں کو قائل کرے کہ لندن کے اثاثے بیچ کر پاکستان لے آویں۔ فیض نے کہا: کمیونسٹ فلاسفی کہتی ہے کہ کارخانہ دار، زمین دار سے بہتر حکمران ہوتا ہے‘ اس لئے نواز شریف کو طرزِ حکمرانی بہتر کرنا چاہیے۔
قلم قبیلہ کی بیٹی!!!
تم کو علم ہے کہ میں آداب و القاب کا قائل نہیں۔ اردو نثر میں یہ سلسلہ میں نے ہی شروع کیا تھا۔ سرورؔ نے بتایا کہ تم آداب و القاب کی قائل ہو، حفظ ِمراتب کا بہت خیال رکھتی ہو۔ اپنے سسر میاں محمد شریف کو اتنی عزت دی‘ جتنی دلّی میں بیٹے والد کو دیا کرتے تھے۔ اسی لیے میاں شریف نے خاندانی روایات کے برعکس تمہیں سیاست کے میدان میں اترنے کی اجازت دی۔ تم شریف خاندان کی پہلی خاتون تھیں‘ جو آمرانہ دور میں مردانہ وار لڑیں اور تم نے ایسی تحریک چلائی کہ سارے خاندان کو رہا کروا کے جدّہ لے گئیں۔ ہاں‘ یاد آیا وہ کرکٹ والا عمران ہے ناں۔ نگوڑی کرکٹ ہمارے زمانے میں تو ہوتی نہیں تھی‘ مگر اب عالمِ بالا میں بھی اس کی دھوم ہے۔ عمران کے والد امان اللہ نیازی اور والدہ شوکت خانم محلّہ انجینئراں سے محلہ شعراء آئے تھے۔ سرِ راہ تعارف ہوا‘ تو وہ بھی تمہاری جدوجہد کی تعریف کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ عمران، مخالفت کے باوجود کلثوم کو سراہتا ہے۔ ایسے میں تمہاری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے کہ ملکی بحران کے حل میں اپنا کردار ادا کرو۔
ادب کی بیٹی!!
سنو، تمہیں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ مطالعہ نہ کرو تو تمہیں نیند نہیں آتی، شوہر کو اچھے شعر سناتی رہتی ہو۔ مریم بھی تمہاری بہت سنتی ہے بلکہ وہ تم سے بہت سیکھتی ہے۔ مریم کو تو میں نے یہ کہتے بھی سنا ہے کہ میری ماں بہت دور اندیش ہے‘ وہ جو اندازہ لگاتی ہے‘ درست ثابت ہوتا ہے۔ تمہارے خاندان کے لوگ کہتے ہیں: کلثوم کا خاندان پر مکمل ''ہولڈ‘‘ ہے۔ وہ سب گھر والوں پر مکمل اثر رکھتی ہے۔ وہ جو چاہتی ہے‘ سب گھر والے اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔
سنو!!!
سیاست میرا میدان تو نہیں مگر عالمِ بالا میں سب کہتے ہیں کہ غالبؔ ''غدّر‘‘ کا عینی شاہد ہے۔ اس نے دلّی کو تباہ ہوتے دیکھا ہے۔ کل ہی میرا شاگرد آیا تھا۔ مجھے دلّی کی تباہی پر میرا ہی خط سنانے لگا ''ایسے لگتا ہے کہ پورے دلّی کو گرایا جا رہا ہے۔ سب سے بڑے اور مشہور بازار، اردو بازار اور خانم بازار کو گرایا جا رہا ہے، اب ان بازاروں کا نام و نشان تک نہیں بچا۔ یہاں دلّی میں کھانا مہنگا اور موت سستی ہے۔ گندم کا ایک ایک دانہ اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ یوں لگتا ہے‘ ایک ایک دانہ پھل کی قیمت میں فروخت ہو رہا ہے‘‘۔ میں نے خط سن کر کہا کہ اگر پاکستان میں ادارے آپس میں دِلّی دربار کی طرح لڑتے رہے تو پھر سے کہیں غدّر نہ ہو جائے۔ پھر کہیں وہی حال نہ ہو جو 1857ء میں مسلمانوں کا ہوا تھا۔ استاد ابراہیم ذوقؔ نے میری بات سنی تو اپنے سیاہ انگرکھے کے بٹن کھول کر کہا ''درویش کی بات سن لو‘ پاکستان خدا کا تحفہ ہے‘ یہ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے‘‘۔ فیضؔ نے سگریٹ کے دھویں کا مرغولہ بناتے ہوئے کہا کہ حقائق سے آنکھیں نہ چرائیں، دنیا پاکستان کی دشمن بن چکی ہے‘ میں کہتا رہا تھا کہ روس سے دوستی کر لو مگر مجھے قید کیا جاتا رہا‘ اب خود روس سے دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ میں کہتا تھا: افغانستان میں مداخلت نہ کرو مگر میری کسی نے نہ مانی۔ بات بڑھنے لگی تو میں نے فیضؔ کو اپنا یہ شعر سنا دیا۔
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں 
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی 
کیوں بیٹی، یہ استادی شاگردی، سب پر پانی نہ پھیر دینا، اردو کی راہ کی تم سالک ہو، گویا اس زبان کی مالک ہو، تمہارا استاد ڈاکٹر آغا سہیل (ایف سی کالج والا) آیا تھا۔ کہتا تھا کہ کلثوم کا ادبی ذوق بہت اچھا ہے اور یہ بھی کہ اگر غالب کچھ سمجھائے گا تو کلثوم ضرور اس پر غور کرے گی بلکہ اس پر عمل کر ڈالے گی۔ دیکھنا مجھے عالمِ بالا میں شرمندہ نہ کرنا...
آخری بات کہے دیتا ہوں۔ تین مواقع مجھے کبھی نہیں بھولتے‘ جب میرے جیسے مصاحب کے شاہ، بہادر شاہ ظفر کی وفات ہوئی، میں زار و قطار رویا۔ اس سے پہلے اپنے لے پالک بیٹے زین العابدین کی ناگہانی موت نے بھی بہت رلایا تھا۔ محمد علی جناح نے وفات پائی تو بھی سخت آزردہ ہوا تھا کہ اب نوزائیدہ پاکستان کا کیا بنے گا؟
صاحبزادی!!
میری نصیحت یہ ہے کہ حسین اور حسن کو کہو کہ مریم کے راستے کے کانٹے صاف کریں۔ وہ اکیلی ہے۔ فوراً اپنے اثاثے واپس لائیں تاکہ اخلاقی ساکھ بہتر ہو۔ دیکھو! بچوں کے چچا شہباز شریف کا پانامہ میں ذکر تک نہیں۔ اب آپ کو خود اپنا دفاع زور سے کرنا ہو گا‘ وگرنہ اخلاقی ساکھ کا سوال سیاسی ساکھ کو کھا جائے گا۔ جلدی کرو، کہیں دیر نہ ہو جائے!!!

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں