حسین نوازشریف اور کافکاکا ’’مقدمہ‘‘

کہاں سیدھا سادا اور بے حد جذباتی حسین نوازشریف اور کہاں مبہم اور پیچیدہ مصنف کافکا۔ مگر جہاں ''مقدمہ‘‘ کا ذکر آئے گا وہاں کافکا تو یاد آئے گا۔ کافکا کون تھا؟
فرانزکافکا (1883 تا 1924) بیسویں صدی کا مشہور اور بااثر ترین مصنف سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اہم ترین تصنیف ''مقدمہ‘‘ میں بھی اس کی پیچیدگیاں‘ گہرا غم‘ رستے زخم‘ تنہائیاں‘ دکھ درد اور نہ ختم ہونے والی تکلیفیں ہیں۔ ''مقدمہ‘‘ 1913ء اور 1914ء کی پہلی جنگِ عظیم کے دوران لکھا گیا ناول ہے جو کافکا کی وفات کے بعد 1924ء میں شائع ہوا۔
ناول ''مقدمہ‘‘ کے بدقسمت ہیرو جوزف ''کے‘‘ کی زندگی بالکل ٹھیک جا رہی ہوتی ہے‘ مگر بدقسمتی اور تکلیفیں پوچھ کر تھوڑا آتی ہیں۔ ایک روز ''کے‘‘ صبح سو کر اٹھا تو اسے معلوم ہوا کہ اسے نامعلوم وجوہات کی بناء پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سارے ناول میں ''K‘‘ خفیہ اور ظالمانہ عدالتی نظام کے خلاف ناکام جدوجہد کرتا ہے مگر بالآخر ''K‘‘ کے دل میں چھری مار کر اسے ختم کر دیا جاتا ہے۔
حسین نوازشریف کو اگر کافکا کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ''H‘‘ یا ایچ کہا جائے تو K اور H کا تقابل آسان ہو جائے گا۔ حسین نوازشریف اپنے والد نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت (1997ء تا 1999ئ) کے دوران زیادہ تر لاہورمیں رہے۔ وہ شاید ہی کبھی اسلام آباد جاتے ہوں مگر اقتدار کے آخری دنوں میں وہ والد کے سب سے قریبی مشورہ بین ہو گئے۔ آخری ہفتہ میں تو جہاں بھی ان کے والد جاتے تھے ''ایچ‘‘ ان کے ساتھ ہوتے تھے۔ صاف لگنے لگا تھا کہ نوازشریف کے جانشین‘ حسین ہوںگے مگر تکلیفیں اور بدقسمتی منہ کھولے کھڑی تھیں۔ کافکا کے ''K‘‘ کی طرح شریف خاندان کے ''ایچ‘‘ بھی اپنی چھ‘ سات دنوں کی متحرک سیاست کے سزاوار ٹھہرے۔ وزیراعظم ہائوس سے گرفتار ہوئے۔ قید ِ تنہائی کاٹی۔ اپنے پرائے سب کی بے اعتنائی دیکھی اور بالآخر رہائی تبھی ہوئی جب سعودی عرب حکومت کی مداخلت سے شریف خاندان جلا وطن ہوا۔
اس سے بھی ذرا پیچھے چلیں‘ ''ایچ‘‘ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کر کے آیا تو شریف خاندان کی کاروباری سلطنت کا انچارج بنا دیا گیا۔ دادا میاں شریف کا سب سے تابعدار پوتا‘ اور گھر کی سب سے بارسوخ خاتون کلثوم نوازشریف کا بڑا صاحبزادہ کاروبار چلا رہا تھا کہ ایک دوسرا ''ایچ‘‘ حمزہ شہبازشریف بھی باہر سے پڑھ کر واپس آ گیا۔ دونوں دادا کے دلارے تھے۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر دادا کی خدمت کرتے تھے۔ دادا کی تعریف و توصیف ‘ میں مقابلے میں مضامین شائع کرواتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ''K‘‘ کی قسمت کی طرح حسین کے مقدر میں ایک پھیر آیا اور دادا نے کاروباری معاملات حمزہ کے سپرد کر کے حسین کو شریف سٹی ہسپتال کا انچارج بنا دیا۔ یہ پسپائی تھی مگر ''ایچ‘‘ مایوس نہ ہوا اور محنت جاری رکھی۔ جدّہ جلاوطنی ہوئی تو ایچ نے دادا کے ساتھ مل کر دن رات ایک کر کے وہاں سٹیل مل لگا لی اور یوں جدّہ اور لندن میں ایک نئی کاروباری سلطنت کا بانی بنا۔
کافکا کے اقوال بڑے ہی دلچسپ اور عجیب ہیں ناامیدی‘ مایوسی‘ مجبوری اور تکلیف کو اس شدت سے شاید ہی کسی نے بیان کیا ہو گا‘ جیسے کافکا نے کیا۔ 
کافکا کا قول ہے ''میں ایک پنجرہ ہوں اور پرندے (شکار) کی تلاش میں ہوں‘‘ ''کے‘‘ بھی دکھوں‘ تکلیفوں اور آلام کی تلاش میں رہتا ہے اور جبریت کے قائل ‘ ناول نگار و شاعر تھامس ہارڈی کی Fatalism،جس میں انسان مجبورِ محض کی طرح تقدیر کے جبر کا شکار ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ''ایچ‘‘ کے ساتھ بھی ہوا۔ نوازشریف عاقل ہیں‘ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں حسین اور حسن نوازشریف کو پاکستان سے دور رکھا‘ انہیں بزنس کا ٹاسک دیا اور سیاست کی گرم ہواتک نہیں لگنے دی مگر وہی کافکا والا قول کہ پنجرہ شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ تقدیر کا جبر‘ مجبورِ محض ''ایچ‘‘ کو کہاںچین لینے دیتا ہے۔ بس پانامہ کیا آیا کہ ''کے‘‘ کی طرح ''ایچ‘‘ بھی گرفتارِ مصیبت ہوا۔ ''ایچ‘‘ کے کئی حامی چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں سرگرم ہو‘ پاکستان آ کر الیکشن لڑے اور باپ کے شانہ بشانہ کام کرے۔ کچھ لوگ ''ایچ‘‘ کو یہ مشورے بھی دیتے تھے کہ مشکل ترین وقت تو آپ نے دیکھا‘ گرفتاری آپ نے کاٹی مگر جب اقتدار کا وقت آیا‘ ملک کو کچھ دینے کا وقت آیا تو اپنوں ہی نے ''بن باس‘‘ دے دیا۔ مگر اب لگتا ہے کہ تقدیر کی وہی جبریت ''ایچ‘‘ کو غیر سیاسی سے سیاسی بنانے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ پیشیاں بھگتنے والا‘ انکوائریوں کا سامنا کرنے والا اور تفتیشوں میں پیش ہونے والا مظلوم بن جاتا ہے ۔ ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کا ہر ہیرو پہلے مظلوم بنتا ہے اورپھر مقبول۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جے آئی ٹی کی آڑ میں ''ایچ‘‘ کو لیڈر بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ ہرگز نہیں یہ صرف تقدیر کی جبریت ہے اور کچھ بھی نہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں ایک روز جلاوطن وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ جدّہ کے سرور پیلس میں ''عربی گہوہ‘‘ اور کافی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ ''ایچ‘‘ کمرے میں آ گئے۔ دعا سلام کے بعد سیاسی گفتگو شروع ہوئی تو ایچ نے کہا کہ جتنے ظلم پیپلز پارٹی نے شریف خاندان پر کئے ہیں ان کا کوئی شمار ہی نہیں اور پھر جذباتی انداز میں کہا کہ پہلے ''جوناتھن‘‘ جہاز روک کر ہماری معاشی کمر توڑی گئی اور پھر ہمارے بوڑھے دادا میاں شریف کو زبردستی گرفتار کر کے اسلام آباد لے جایا گیا۔ ایچ کا کہنا تھا کہ یہ سب ناقابلِ معافی ہے۔ میں نے جواباً کہا کہ مجھے آپ کے انصاف کے معیار سے اتفاق نہیں ‘اگر آصف زرداری کی سالوں کی جیل اور بے نظیر بھٹو کے کئی ماہ تک عدالتوں میں دھکّے‘ آپ کے خلاف کئے گئے اقدامات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ میرے جواب پر ''ایچ‘‘ نے مزید جذباتی ہو کر جواب دینا چاہا تو میاں نوازشریف نے نوجوان بیٹے کو اشارے سے اٹھا دیا کہ ان دنوں میثاق جمہوریت پر ابتدائی بات چیت شروع تھی۔
کافکا کا ''کے‘‘ اور پاکستان کا ''ایچ‘‘ دونوں تندمزاج ہیں مگر ''کے‘‘ تقدیر کی جبریت سے مایوس ہو کر سوچتا تھا کہ میرے مسائل تب ہی حل ہوں گے جب وہ مسائل مجھے کھا جائیں گے جبکہ ''ایچ‘‘ تنہا نہیں‘ جوان بیٹے زکریا کے باپ ہیں‘ خاندان انہیں مکمل حمایت دیتا ہے اور وہ عام طور پر پرامید رہتے ہیں۔ مسائل سے نکلنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں اور جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ مذہبی حوالے سے موحدّ‘ پسند ناپسند میں غیر مبہم‘ بے لاگ اور اکل کھرے مگر کیا سیاست کے میدان میں یہ سب کچھ ہضم ہو گا؟ مشکل لگتا ہے۔
''ایچ‘‘ کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان شروع ہو چکا۔ اگر تو وہ جے آئی ٹی سے سرخرو نکلتے ہیں‘ اپنے جذبات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے مدلل بات کرتے ہیں، وہ دستاویزات جو چاہئیں وہ پیش کر لیتے ہیںتو خاندان کے ''ہیرو‘‘ ہوں گے اور اگر جے آئی ٹی مطمئن نہیں ہوتی تو پھر ''ایچ‘‘ کو شریف خاندان کے سفینۂ سیاست اور تجارت دونوں کے نقصان کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
کافکا کا ہیرو ''کے‘‘ جس مقدمے میں گرفتار ہوا وہ نامعلوم افراد کی طرف سے نامعلوم وجہ سے تھا۔ پاکستان کے اکثر مقدمے بھی نامعلوم وجوہات سے چلتے ہیں۔ کچھ طبقات فرشتے ہیں ‘وہ صرف مقدمات چلاتے ہیں ‘کبھی بھگتتے نہیں ۔وہ انصاف کو دوسروں پر تھوپتے ہیں ‘ خود انصاف کا سامنا نہیں کرتے۔ اب بھی کچھ نہیں بدلا‘ اب بھی نامعلوم افراد وٹس ایپ کر رہے ہیں‘ بظاہر ''ایچ ‘‘ بالادست طبقے کا پہلا فرد ہے جو یوں انکوائری میں پیش ہو رہا ہے مگر یاد کیجئے پہلے بھی اہلِ سیاست ‘سہروردی سے لے کر بھٹو تک اور بے نظیر بھٹو سے لے کر جونیجو تک سب مقدمات‘ ٹریبونل ‘انکوائریاں اور جے آئی ٹی بھگتتے رہے ہیں ۔سیاست خان کا احتساب تو بہت ہو چکا ۔وہ وقت کب آئے گا جب عدالت خان اور عسکری خان کا بھی احتساب ہو گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں