بِگ برادر!
السلامُ علَیکم۔ احترام‘ خوف اور رُعب کے جذبات کے ساتھ آپ سے براہ راست مخاطب ہونے کی جرأت کر رہا ہوں، امید ہے آپ میری اس کوشش کو ایک بزدل کا مذاق سمجھ کر نظرانداز کر دیں گے۔ یہ نامہ لکھتے ہوئے میری انگلیاں لرز رہی ہیں‘ ہاتھ کپکپا رہے ہیں اور ٹانگیں کانپ رہی ہیں، یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ریاست کے سب سے ''طاقتور‘‘ سے معاشرے کا سب سے زیادہ کمزور اور بزدل محو کلام ہے۔
بڑے بھائی!
آپ ہمارے ہی ہیں کسی کے بیٹے‘ کسی کے بھائی‘ کسی کے کزن یا چچا یا ماموں مگر آپ ہمیں اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان سنایا کرتے تھے کہ ہم اپنے کڑیل جوان بیٹے بھتیجے کو فوج میں بھیجتے ہیں جو ہمیں بابا ،چاچا کہتے ہیں ،جھک کر گھٹنوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ ٹریننگ کے دوران بھی وہ احتراماً گھٹنوں کو چھو کر اپنی محبت اور عزت کا اظہار جاری رکھتے ہیں مگر جونہی انہیں کمشن مل جاتا ہے وہ ہماری عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور ہمیں ''بلڈی سویلین‘‘ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔مذاق سے ہٹ کر اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ معاشرے کے دوسرے تمام طبقات نے اپنے معیار اور نظم و ضبط کو اس قدر مثالی نہیں بنایا جس قدر عساکر پاکستان نے بنایا ہے۔ آپ کو کریڈٹ جاتا ہے کہ آپ تیسری دنیا کی کمزور معیشت اور کمزور خارجہ پالیسی کی ریاست پاکستان کی طاقتور ترین فوج بن چکے ہیں ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عساکرِ پاکستان‘ دنیا کی چھٹی بہترین مضبوط اور منظم فوج ہے‘ آپ ہی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ آپ نے دفاع پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بننے میں آپ کا اہم ترین کردار رہا ہے۔ مجھے آپ کی صلاحیتوں پر فخر ہے، آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کا نظام اس قدر شاندار ہے کہ سیاچن کی برف پوش چوٹیوں پر بیٹھے ہوئے افسر اور سپاہی کو بھی وہی کھانا ملتا ہے جو کراچی کے کسی میس میں۔ آپ گوادر میں بیٹھے سپاہی کا بھی ویسا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا جی ایچ کیو کے محافظوں کا اور تو اور آپ اپنے ریٹائر ہونے والے ساتھیوں کا بھی اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ ان کے علاج معالجہ‘ روزگار حتیٰ کہ ان کے لیے رہائش کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ اس حُسنِ انتظام و انصرام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
قابلِ احترام برادرِ بزرگ!!
ہزاروں سال پہلے جب ریاست کی تشکیل کا عمل شروع ہوا تو اس کا واحد مقصد کمزوروں‘ لاچاروں اور بزدلوں کو احساس تحفظ دلانا تھا۔ طاقتور‘ زور آور اور بہادر تو قبائلی معاشرے میں بڑی آن بان سے جی لیتے تھے۔ ریاست اسی لیے قائم ہوئی تھی کہ کمزوروں کو بھی جینے کا حق دیا جائے۔ بابل‘ نینوا کی تہذیب ہو یا موہنجوڈارو یا مصر کی تہذیب‘ ہر جگہ پر معاشرے کے پسّے ہوئے طبقات کے تحفظ کا کچھ نہ کچھ بندوبست کیا گیا تھا۔ ریاست پاکستان بھی اسی لیے بنی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت سے مسلم اقلیت کو کس طرح مذہبی اور معاشی آزادی دلائی جا سکتی ہے۔ کمزور اور بزدل کو بھی بات کہنے کی آزادی ہو۔
جناب والا!!
مجھے علم ہے کہ فوج کے بغیر کسی ملک میں جمہوریت آ ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ جب تک کسی خطّہ پر آرڈر نہیں آتا وہاں انارکی رہتی ہے۔ انارکی کو آرڈر میں بدلنے کے لیے فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور جب کہیں آرڈر یا امن آ جاتا ہے وہیں جمہوریت آتی ہے، انارکی سے جمہوریت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ گویا فوج جمہوری نظام کا لازمی اور اہم ترین جزو ہے۔ فوج جب چاہے جمہوریت کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ فوج کے اس کردار کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی دنیا کے حقائق کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ آج ہم ایک جمہوری عہد اور زمانے میں زندہ ہیں۔ 1900ء میں دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں تھا جہاں آج کے معروف معنوں میں جمہوریت رائج ہو یعنی ایک سو 17 سال پہلے تک دنیا میں کہیں بھی ہر شہری کو ووٹ ڈالنے کا حق اور پھر الیکشن کے ذریعے حکومت بنانے کا حق نہیں تھا لیکن صرف ایک صدی کے اندر دنیا کے 120 ممالک جمہوری ہو چکے ہیں یوں دنیا کے 62 فیصد ممالک میں جمہوریت رائج ہو چکی۔ سو زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان کا مستقبل بھی باقی دنیا کی طرح صرف اور صرف جمہوریت میں پنہاں ہے۔
بِگ برادر!!
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے بریگیڈیئر سے اوپر کے تمام افسر بہت پڑھتے ہیں‘ محنت کرتے ہیں‘ پیپر لکھتے ہیں‘ واقعاتِ عالم پر بحث کرتے ہیں اور یوں وہ بجا طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کی سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کو نالائق سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ مگر یہ بات بھی تاریخی طور پر درست ہے کہ 4 مارشل لاء اور عسکری خان کا اصلاحاتی ایجنڈا پاکستان کو بہتر کرنے کی بجائے خراب کر گیا۔ کنونشن لیگ‘ قیوم لیگ‘ جونیجو مسلم لیگ‘ آئی جے آئی‘ مسلم لیگ ن اور اب دھرنے میں پی ٹی آئی کی سرپرستی سے سیاست خراب ہوئی۔ ریاست کو نقصان پہنچا‘ مگر بار بار وہی ناکام تجربات دہرائے جا رہے ہیں۔
بگ برادر!!
کیا کبھی یہ سوچا گیا ہے کہ آخر عسکری خان نے بھٹو کو اتارنے اور پھانسی دینے میں کردار کیوں ادا کیا۔ بھٹو تو ایٹم بم کا خالق مضبوط فوج کا حامی‘ بھارت سے ہزار سال جنگ کا نعرہ لگانے والا تھا۔ کیا کبھی اس پر غور کیا گیا کہ بے نظیر بھٹو کو بعض سابق عسکری خان علی الاعلان سکیورٹی رسک کہتے رہے مگر جب وہ شہید کی گئی تو عسکری خان کے تینوں چیفس نے ان کی قبر پر پھول چڑھانے کے لیے بھیجے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھٹو ٹھیک تھا یا جنرل ضیاء۔ بے نظیر ٹھیک تھی یا اسے سکیورٹی رسک کہنے والے‘ قوم اور عسکری خان دونوں اس ابہام سے نہیں نکل پائے، آخر اس حوالے سے کوئی عسکری بیانیہ تو سامنے آنا چاہیے۔ اب پھر وہی مرحلہ درپیش ہے۔ نوازشریف کو سکیورٹی رسک کہا جا رہا ہے‘ کیا اس کے ثبوت کے لیے سجن جندال سے ملاقات کافی ہے،نواز شریف نے جو ایٹمی دھماکے کیے وہ کس کھاتے میں جائیں گے؟ نہیں جناب اگر واقعی ایسا ہے تو پھر وزیراعظم کو اقتدار میں رہنے کا حق نہیں۔ لیکن کہیں ایسا تو نہیں کہ بھٹو‘ جونیجو‘ بے نظیر‘ نوازشریف سب کا جرم صرف سیاست تھا۔ اسی لیے وہ سکیورٹی رسک بن گئے تھے؟
میرے بارعب بھائی!
جان کی امان پائوں تو عرض کروں کہ 1979ء سے پاکستان کی خارجہ پالیسی سیاست خان کی بجائے عسکری خان چلا رہا ہے۔ افغان پالیسی‘ انڈیا پالیسی‘ امریکہ پالیسی اور حتیٰ کہ اب سعودی پالیسی بھی عسکری خان کے ذمہ ہے ،مگر ان محاذوں پر جہاں ناکامی ہوتی ہے، ذمہ دار سیاست خان ٹھہرتا ہے‘ وہ اس پالیسی کو بدلنا چاہے تو غدار کہلاتا ہے۔ سکیورٹی رسک بن جاتا ہے۔ میری عاجزانہ درخواست یہی ہے کہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور چھٹی طاقتور ترین فوج کو اپنی ماضی کی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے اور مستقبل میں صرف اور صرف دفاع پاکستان پرتوجہ دینی چاہیے‘ اگر اس بار کوئی مہم جوئی ہوئی تو امریکی تھنک ٹینک جس طرح سے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور The Wrong Enemy اور Warrior state جیسی کتابیں لکھ رہے ہیں۔ ہمارے عسکری بھائی کو احتیاط سے چلنا چاہیے وہی ہم میں سے سیانا اور طاقتور ہے۔ فیصلہ بھی اسے ہی کرنا ہے۔
دعاگو ...
بزدل خان
از: خوف نگر