معلوم نہیں، پروفیسر وارث میر مرحوم کو خوشامدی قبیلے سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا‘شاید اسی لیے ان کے محنتی اور بہادر صاحبزادے عامر میر والد کے خیالات کو کتاب'' فلسفۂ خوشامد‘‘پاکستان کی درباری سیاست و صحافت کی شکل میں سامنے لے آئے ہیں۔ حالانکہ کسی سے بھی پوچھ لیں پرانے لطیفے کے مصداق ہم خوشامدی کسی کا کیا نقصان کرتے ہیں‘ بس ایک کونے میں بیٹھے دہی کھاتے رہتے ہیں۔ آئیے میں آپ کو اپنے خاندان، خیالات اور کارناموں سے آگاہ کروں پھر آپ خود فیصلہ کریں کہ خوشامد کی خوبیاں اور اس پر الزامات کی حقیقت کیا ہے ؟
جس طرح پہلوانی ایک فن ہے ‘بالکل اسی طرح خوشامد، چرب زبانی اور جی حضوری اعلیٰ ترین آرٹ ہے، جس کا بہترین استعمال سرکار، دربار اور سیاست وصحافت میں ہوتا ہے جو جتنا بڑا درباری ہے وُہ اتنا بڑا ٹوڈی ہے اور جو زیادہ دم بازی کر سکتا ہے وہ بڑا صحافی ہے۔
جس طرح حکمرانوں کی رگوں میں شاہی خون دوڑتا ہے ، میری رگوں میں جی حضوری کا خون گردش کرتا ہے۔ میرا نام خوشامدی خان ولد قصیدہ خان ہے ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ہرحکمران اور سیاست خان کا مشیر خاص ہوتا ہوں جبکہ میرا دوسرا بھائی چاپلوس خان، تضادستان کے بڑے عسکری خان کا حواری ہوتا ہے ہم دونوں اپنے فرائض منصبی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ، انتہائی خلوص سے اپنے اپنے آقا کی خوشنودی کے لیے دلائل کا انبار ڈھونڈ کر لاتے ہیں ،دنیا کے دانش مند ترین لوگوں کی طرح دلائل کو ترتیب دیتے ہیں تعظیم و آداب کا اس قدر خیال رکھتے ہیں کہ باس ہمارے اخلاق عالیہ کے قائل ہو جاتے ہیں اور یوں ہم ان کی قربت میں بیٹھ کر ملک کی تقدیر سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آج کل میرے آقا سیاست خان ہیں جو پاناما میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ''دی پارٹی از اوور‘‘ لیکن میں نے انہیں بتایا کہ ایسے لوگوں کی سوچ میں گہرائی نہیں ہے ، وہ ریاست کے مختلف اداروں کی ورکنگ کو نہیں جانتے ۔ میں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ منتخب وزیراعظم کو ایسے نہیں ہٹایا جا سکتا جے آئی ٹی کی کیا مجال؟ آپ کو کچھ ہوا تو ملک وقوم کا کیا بنے گا ؟
دوسری طرف میرا بھائی چاپلوس خان بھی پورے خلوص سے اپنے کام پر لگا ہوا ہے وہ گیٹ نمبر4 سے آبپارہ کے قریب عمارت میں جاتا ہے وہ بالکل سچے دل سے سمجھتا ہے کہ عسکری خان، عالم اسلام کے عظیم ترین ادارہ کا نمائندہ ہے جس سے ہمارا دشمن بھارت بہت ڈرتا ہے کیونکہ موجودہ عسکری خان نے کشمیر کے محاذ پر اسے ماضی میں چنے چبوا رکھے ہیں ۔ میرا بھائی مبالغہ نہیں کرتا وہ حقیقت میں یہ سمجھتا ہے کہ آئین کاغذوں کا ایک پلندہ ہے یہ عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتا ۔ عسکری خان کے سامنے آہ وزاری کر کے یہ کہتا ہے کہ سیاستدانوں کی چیرہ دستیاں بہت بڑھ چکی ہیں، لوگ کرپشن سے تنگ آ چکے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ بحران میں بھرپور کردار ادا کیاجائے ،جواباً عسکری خان انتہائی دیانت سے کہتا ہے کہ ہمارا تضادستان کی سیاست سے کیا تعلق؟ اس جواب پر میرے پر خلوص بھائی چاپلوس خان کے آنسو ٹپ ٹپ گرنا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ حب الوطنی کا واسطہ دے کر میجر (ر)شید وڑائچ کے گھر پر لکھا یہ مصرعہ دہراتا ہے ''مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کر و گے‘‘ اس پر ہر محب وطن کی طرح عسکری خان کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔
میرا بھائی پراپیگنڈہ خان، ملک کے ''واحد‘‘ ایماندار لیڈر عمران خان کا دست راست ہے ،یاد رہے ہمارا خاندان مکمل طور پر مشرقی ہے مگر والد قصیدہ خان نے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات دیکھ کر تیسرے بیٹے کا نام انگریزی میں یعنی پراپیگنڈہ خان رکھا تاکہ عصری تقاضوں کے مطابق خاندانی روایات کو آگے بڑھایا جا سکے۔ پراپیگنڈہ خان، ہم دو بھائیوں سے کہیں زیادہ اپنے فن میں طاق اور ماڈرن ہے اسے فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کا استعمال ہم سے کہیں زیادہ آتا ہے اس نے ''دی خان ‘‘ کو پوری طرح اپنے شیشے میں اتار رکھا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اقتدار کا تاج آپ کی جھولی میں پڑا ہے ، آپ نے اسے اٹھا کر صرف اپنے سر پر سجانا ہے بس یہ کام ذرا احتیاط سے کریں کیونکہ اقتدار کا تاج بڑا چکنا ہوتا ہے کوئی اسے درمیان سے اچک نہ لے۔
ہمارے والد مرحوم قصیدہ خان فرمایا کرتے تھے ہمارے فن کے بہت دشمن ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ حکمرانوں اور آقائوں کے سامنے تلخ سچ بولا جائے ،حقائق کو ننگا کیا جائے ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم بے روزگار ہو جائیں اورصدیوں سے جاری ہمارے فن کو سچ کی ننگی تلوار کاٹ لے۔ پروفیسر وارث میر کا شمار بھی فنِ خوشامد کے بڑے نقادوں میں ہوتا ہے۔ وارث میر نے کتاب خوشامد میں لکھا ''آج کا صحافی حکومتوں کے قصدے گاتا ہے وہ حاکم وقت سے لڑائی مول نہیں لیتا آج کا اخبار نویس، صحافی نہیں رہا بلکہ پبلک ریلیشنز آفیسر بن گیا ہے‘‘ ایک اور جگہ ہمارے فن پر حملہ آور ہوتے ہوئے لکھا ''جو مصاحبین آج عنانِ اقتدار سنبھالے بیٹھے ہیں ان کو اپنے چاروں طرف ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے اوروہ بستی سے باہر لوگوں کو حکومت کی فرزندی میں زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ اپنی آنکھیں رکھنے والے بھی چیزوںکو اسی زاویے سے دیکھیں جس زاویے سے بختاوروں کی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ بلکہ صرف انہی چیزوں کی طرف نگاہ اٹھائیں جنہیں وہ دکھانا چاہتے ہیں۔ (خوشامدی ادب‘ سیاست اور صحافت)
وارث میر ضمیر کے قیدی تھے جبکہ ہم خوشامدی قبیلے کے لوگ ضمیر کی قید سے آزاد ہو چکے ہیں‘ ضمیر تو پھانسیوں اور کوڑوں کی طرف لے جاتا ہے جبکہ خوشامد مراعات دلواتی ہے‘ عہدے مل جاتے ہیں‘ زندگی اچھی اور شاہانہ گزرتی ہے۔ وارث میر چاہتے تھے کہ ہمارا نام تاریخ میں زندہ رہے اور اس کے لیے زندگی بھر تکلیفیں جھیلیں لیکن خوشامدی قبیلہ لمحہ موجود میں عیاشی کرتا ہے‘ تاریخ میں اس کا نام میر جعفر‘ میر صادق یا گوئبلز کے ساتھ لکھا جاتا ہے تو اس سے آخر کیا فرق پڑتا ہے؟
میرے والد بزرگوار قصیدہ خان سنایا کرتے تھے کہ ہمارا فن انسانی جبلت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں جسے خوشامد اچھی نہ لگتی ہو‘ اس لیے بادشاہ باقاعدہ قصیدہ خواں رکھتے تھے تاکہ اپنی بڑائی دوسروں تک پہنچا سکیں اور آج کے زمانے کے خوشامدی حکمرانوں اور اداروں کے مشورہ بین اور مشیر ہوتے ہیں‘ میرے محترم اور دانا بزرگ دوست چیف جسٹس (ر) گلگت بلتستان رانا محمد ارشد اپنے ضلع ساہیوال کا ایک قصہ سناتے ہیں کہ وہاں ایک نیا جج تعینات ہوا تو اس نے وکیلوں کی طرف سے پیش کی جانے والی ضمانت کی تمام درخواستیں مسترد کرنی شروع کردیں۔ وکیلوں نے پریشانی میں سب سے تجربہ کار بوڑھے وکیل سے مشورہ کیا اور اسے بتایا کہ ہم وکیلوں کی روزی روٹی کا زیادہ انحصار ضمانت کی انہی درخواستوں پر ہوتا ہے‘ معمول یہی ہوتا ہے کہ وکیل جا کر جج کی ٹائی اور سوٹ کی تعریف کرتا ہے‘ اس کی رحم دلی کا ذکر کرتا ہے‘ انسانی جبلت کے تحت اپنی تعریف سن کر جج صاحب ضمانت لے لیتے ہیں۔ وکیلوں نے بوڑھے وکیل کے سامنے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیا جج خوشامد کے خلاف ہے‘ اس کی تعریف شروع کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کام کی بات کریں اور پھر ضمانت مسترد کر دی جاتی ہے ۔ بوڑھے وکیل نے کہا کہ کل میں خود جج صاحب کے پاس پیش ہوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ کیسے میری خوشامد پر توجہ نہیں دیتے۔ دوسرے دِن کمرہ عدالت وکیلوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جو یہ دیکھنے آئے تھے کہ آج بوڑھے وکیل اور جج کا میچ کیسا رہے گا؟ بوڑھے وکیل کمرہ عدالت میں آئے تو جج صاحب کا چہرہ ماحول سے لاتعلق اور ناراض ناراض لگ رہا تھا‘ وکیل صاحب نے آتے ہی کہا کہ جناب آپ ساہیوال کے پہلے جج ہیں جو خوشامد کو نہیں مانتے صرف اصول پر چلتے ہیں‘ آپ کی اصول پسندی نے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ جج کے تنے ہوئے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی اور اس نے بوڑھے وکیل کی طرف سے دائر کردہ درخواست ضمانت منظور کرلی۔ شام کو سارے وکیل دوبارہ سے بوڑھے وکیل کے گھر مبارکباد دینے پہنچے تو انہوں نے یہ سنہرے الفاظ کہے ''کون ہے جسے خوشامد اچھی نہ لگتی ہو؟ ہاں دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کونسی خوشامد کس شخص کے لیے کارگر ہوگی۔‘‘ اس پر ایک قہقہہ بلند ہوا اور محفل برخاست ہوگئی۔
آخر میں‘ میں یہ وعدہ دھرانا چاہتا ہوں کہ جب تک میں خوشامدی خان ، میرے بھائی چاپلوس خان اور پراپیگنڈا خان زندہ ہیں ہم اداروں کی لڑائی کراتے رہیں گے کیونکہ ہم اپنے آقائوں کے ساتھ پرخلوص ہیں‘ جب تک کوئی وارث میر کا ماننے والا آ کر اس دائرے کو نہیں توڑتا ،ہمیں ناکام نہیں بناتا‘ ہم اپنے مفادات کے لیے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ خوشامد ایک فن ہے جناب فن......