ضمیر کی کہنیاں

عرض کیا گیا کہ ضمیرکہنیاں مارتا ہے ۔ اعتراض فرمایا گیا ہے کہ ضمیر کی کہنیاں ہوتی کب ہیں جو وہ صاحب ضمیر کو مارتا ہے ؟ ...ہوتی ہیں جناب ، اس کی کہنیاں ہوتی ہیں ، بشرطیکہ ضمیر چالو حالت میں ہو ۔ گاہے نیم چالو یا معذور سا ضمیر بھی ہلکی پھلکی کہنی مارنے سے گریز نہیں کرتا۔ 
ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ خواتین و حضرات نے زندگی بھر ایسی کوئی حرکت کی ہے ،نہ انشاء اللہ آئندہ کریں گے مگر تجربے کے طور پر ، فقط تجربے کے طور پر ذرا کسی یتیم بچے کے مال پر ہاتھ صاف کرنے کا سوچ کر دکھائیے ، کسی بیوہ کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کرنے کا ارادہ کیجیے ، پنشن وصول کر کے لاٹھی کے سہارے جانے والے کسی بیمار بزرگ کی جیب تراشی کا منصوبہ بنائیے یا اپنے گھر میں کام کرنے والی بے آسرا اور کمزور ملازمہ بچی کے دونوںہاتھ اپنے آہنی ہاتھوں میں جکڑ کر گرم توے پر رکھ دینے کا خیال دل میں لائیے ...ایسے گھنائونے جرائم کا سوچتے ہی یہ جو آپ نے جھرجھری سی لی ہے ، یہ ضمیر کی ماری گئی کہنی ہی تو ہے ۔ بس ضمیر کا فرض منصبی اتنا ہی ہے ، باقی وہ کوئی مولا جٹ تو ہے نہیں کہ گنڈاسہ لے کر آپ کے راستے میں کھڑ ا ہو جائے گا۔ البتہ ضمیر کی کہنی کو لائٹ نہیں لینا چاہیے ۔اگر یتیم کا حق مارنے والا سو یتیم خانے بنا کر بھی سکون نہیں پا سکتا تو مخلوق خدا کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والا بھی اپنے حق میں لاکھ بیان حلفی ہائے پیش کرے مگر ضمیر کی عدالت سے کبھی بری نہیں ہو سکتا۔ ضمیر کی کہنیاں باتھ روم کے ٹوٹے نل سے فرش پر مسلسل گرنے والے قطروں کی مثل ہیں ، جو ہمیں ساری رات جگا کر بے چین رکھتے ہیں۔ 
اللہ کے کرم سے ہم حج و عمرہ کرنے والی دنیا کی دوسری بڑی قوم ہیں ۔ دل پر مت لیجیے گا ، بات آپ جیسے کروڑوں با ضمیروں کی نہیں ، ہم ایسے چند گناہگاروں کی ہے ، جن کے ضمیر ریٹائرڈ ہوکر '' قومی دھارے‘‘ میں شامل ہو چکے ہیں ۔ ہمارا شکوہ ہے کہ حج بیت اللہ کے موقع پر بدو ہمیں کہنیاں مارتے ہیں ...ہمارا وہم ہے ، یہ کہنیاں بدوئوں کی نہیں ، ہمارے ضمیر کی ہوتی ہیں ۔ ریختہ کا بادشاہ اس حقیقت سے خوب آشناتھا ۔ اسے کسی بدو کی نہیں ، ضمیر ہی کی کہنی پڑی تھی ، جو کہا : ؎
کعبے کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی 
طواف کعبہ کے مبارک موقع پر ضمیر ہم جیسوں کو کہنی مار کے پوچھتا ہے کہ کس منہ سے آئے ہو یا اخی؟ تمہارے پڑوسی کے بچے تو بھوکے سوتے ہیں ۔ کس آمدنی سے تشریف لائے ہو یا حبیبی ؟ تم تو دودھ میں بلیچنگ پائوڈر اور یوریا کھاد سمیت بیس زہریلے کیمیکلز ملا کے بیچتے ہو ۔ کہنی مارتا ہے ، اھلاً و سہلاً یا رفیق ! مگر تمہارا تو وہاں جعلی ادویات کا کارخانہ ہے ۔ مقدس سر زمین پر آمد مبارک ہو دوست ! مگر تمہارے احرا م سے تو غریبوں کے ٹیکس کی بُو آتی ہے ۔ خالق کے حضور کس منہ سے گڑ گڑا رہے ہو اے ہمدم ؟ مخلوق خدا کو تو مردار کی انتڑیوں سے تیار شدہ کوکنگ آئل میں گدھے کا گوشت بھون کر کھلاتے ہو ۔ کہنی در کہنی ، یا حبیبی ! کیا مریضوں کو جعلی اسٹنٹ ڈالنے کی کمائی سے حج کرنا جائز ہے ؟ ذخیرہ اندوزی کے مال سے حج قبول ہو جاتا ہے ؟ رشوت اور کمیشن کی آمدنی سے خدا کے گھر حاضری سے بخشش ہو جاتی ہے ؟ کالے دھن اور کالے من والے کو مدینے کا بلاوا آ سکتا ہے ؟ چائے کی پتی میں چنوں کا برادہ ، مرچوں میں پسی اینٹیں اور گوشت میں پانی ملا تے ہو اور یہاں آ کر قبولیت کی دعائیں مانگتے ہو ؟ تم تو اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ہو پیارے ! پھر یہاں خدا کو دھوکہ دینے آئے ہو یا خود کو ؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی ...اب آپ سے کیا پردہ ، ہم ڈھٹائی سے کان لپیٹ لیتے ہیں ، ان کہنیوں کو بدوئوں کے کھاتے میں ڈال کر خود کو مطمئن کرتے ہیں اور واپس آ کر حاجی صاحب ہوجاتے ہیں ۔ خدا کا شکر ادا کریں کہ آپ نے کبھی ایسی کسی دو نمبری سے خدا کے گھر حاضری نہیں دی ، بلکہ ہمیشہ رزقِ حلال سے یہ سعادت حاصل کی ہے ۔ صد آفریں ! با ضمیر لوگوں کایہی چلن ہوتا ہے ۔ 
کہا گیا ہے کہ ضمیر جعل سازی سے حاصل کی گئی کسی کامیابی میں رکاوٹ نہیں بنتا ، البتہ اس کامیابی کا مزا ضرور کرکراکر دیتا ہے ۔ بجا ، مگر تردید فقط اتنی کہ یہ مزا ہمیشہ کرکرانہیں ہوتا۔ جب بندہ پہلی دفعہ ضمیر کو منڈی میں لاتا ہے ، غاصب حکمران کی حمایت کا پرچم بلند کرتا ہے ، دہشت گردی کے حق میں تاویل گھڑتا ہے ، ملاوٹ کا سوچتا ہے یا اس کا کوئی اخلاقی یا مالیاتی سکینڈل منظر عام پر آتا ہے تو وہ ضمیر کی کہنیوں سے کھسیانا ضرور ہوتا ہے ۔ تاہم جب وہ ضمیر کے جھانسے میں آئے بغیر ثابت قدمی سے اپنا سفر جاری رکھتا ہے تو ان کہنیوں کا عادی ہوجاتا ہے ۔ پھر آہستہ آہستہ ضمیر کی کہنیاں کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں ۔ اس کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور ایک دن ضمیر ریٹائرمنٹ لے لیتا ہے یا اس کی عدالت کو سیل کر کے جبری رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے ۔ آخر کار جب ضمیر کی روح قفسِ عنصری سے پروازکر جاتی ہے تو رہا سہا جھاکا بھی ختم ہو جاتا ہے ، شرم اتر جاتی ہے ، حیا پرواز کر جاتی ہے اور مرزوں کے لیے گلیاں سنجیاں ہو جاتی ہیں ۔ قیصر بہاروی کے اشعار ہیں : ؎
مردہ ہے خواہشات میں ڈوبا ہوا ضمیر
لعنت ہے زر کی دھوپ میں پگھلا ہوا ضمیر
تذلیل زندگی ہے خریدا ہوا ضمیر
پیمانۂ یزید ہے بیچا ہوا ضمیر 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں