وہی شام ِغم، وہی چشمِ نم

ہمیں زندگی کے پہلے کنفیوژن سے اس وقت واسطہ پڑا جب ہم اسکول جانے کی عمر کو پہنچے۔ تب ہم والدین کے پُرزور اصرار پر گائوں کے واحد سرکاری پرائمری سکول میں پہلی جماعت میں داخل ہوئے تھے۔ ہمیں خوب یاد ہے کہ بدون بجلی کے اس دور میں گورے کے چاند پر پہنچنے کا بڑا غلغلہ تھا۔ ہم دیہاتی اس معاملے پر سنی سنائی باتوں سے کنفیوژن کا شکار تھے کہ آخر توے کے حجم جتنے چاند پر انسان کیسے اُتر سکتے ہیں؟ 
اہل دیہہ کا یہ کنفیوژن اس وقت دور ہوا جب ایک مولانا نے ہمارے گائوں آ کر اس نازک اور حساس معاملے پر خطاب کیا۔ انہوں نے جہلا کے مجمعے کو بتایا کہ چاند مبارک پر کوئی انسان قدم نہیں رکھ سکتا اور بلا تخصیص مردوزن جس نے بھی اغیار کے اس دعوے کو تسلیم کیا، اس کا نکاح ٹوٹ چکا ہے۔ ہم نے دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ ہمارا ابھی نکاح نہیں ہوا تھا ورنہ ہم تو اسکول ماسٹر صاحب کی لچھے دار باتوں میں آ کر غیروں کے چاند پر پہنچنے کی بے سروپا بات کو حقیقت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ اسی تلخ تجربے کا شاخسانہ ہے کہ آج جب ہم '' نکاح زدگان‘‘ میں شامل ہیں تو ناسا جیسے مغربی نام نہاد خلائی اداروں کی طرف سے مریخ اور پلوٹو پر کمندیں ڈالنے کی خبریں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں اور ایسی لغو باتوں کے متعلق سوچنے پر وقت ضائع نہیں کرتے۔ ویسے بھی بقول استاذی عطاء الحق قاسمی ''میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں، جس نے گزشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی‘‘... یہ کئی جہات سے احسن فعل ہے۔ مثلاً اگر سوچنے سمجھنے کی لعنت سے پاک رہا جائے تو جسمانی صحت بھی اچھی رہتی ہے، بندہ آشوب آگہی کے مہلک اثرات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نکاح بھی نہیں ٹوٹتا۔ 
دوسرے کنفیوژن نے ہمیں اس وقت آ گھیرا جب ہم کالج میں پہنچے۔ تب بِکنی کا غوغا سنائی دیا۔ کراچی کی انیتا ایوب نے کسی انڈین فلم میں بِکنی پہنی تو حسب معمول ہماری ملی غیرت کا جنازہ نکل گیا۔ اس نازک موقع پر ہم دیہاتی بھی شہریوں کے شانہ بشانہ اس ''جنازے‘‘ کے خلاف احتجاج اور انیتا کو پھانسی دینے کے مطالبات میں پیش پیش تھے؛ تاہم یہ تاریک دور تھا اور دیہاتوں میں انٹرنیٹ تو کجا، وی سی آر بھی نہیں تھے۔ ہم مضافاتی ابھی بِکنی کی زیارت سے محروم تھے اور سوچتے تھے کہ آخر اس نامراد نے ایسا کونسا ظالم لباس پہنا ہے کہ جس نے ہمارے جذبات آتش ناک بنا دیئے ہیں؟ اس وقت بھی استاذی مذکور قوم کی رہنمائی کے لیے آگے آئے اور کالم میں لکھا کہ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بکنی کیا ہوتی ہے؟ میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ بکنی کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اس جامع وضاحت سے جہاں ہمارا کنفیوژن دور ہوا، وہاں ہم نے ایک مرتبہ پھر دل ہی دل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ جس نے ہماری گناہ گار آنکھوں کو بکنی دیکھنے سے محفوظ رکھا اور ہمارا ایمان سلامت رہا۔ 
تیسرے کنفیوژن کا ہمیں آج سامنا ہے، جب ہم جب سیاسیات اور قانون کی ڈگریوں پر ہاتھ صاف کر کے عملی زندگی میں ہیں۔ ہمارے اعلیٰ حضرت ملک کے بہترین اور مہنگے ترین ہسپتالوں کی خاک چھانتے اور ٹیسٹ کرواتے تنگ آ گئے مگر بیماری کی صحیح تشخیص نہ ہو سکی۔ جتنے ڈاکٹر، اتنی بیماریاں اور جتنی لیبارٹریاں، اتنے رزلٹ۔ آپ مایوس ہوکر ملکی سرحدوں سے نکلے تو پھر مقام راہ میں کوئی جچا ہی نہیں۔ رائٹ برادرز کی ایجاد کی جدید شکل ایک مغربی ایئرلائن کے طیارے میں سوار ہوئے اور سیدھے امریکہ جا کرجدید طبی سہولتوں سے آراستہ ایک ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ دو سال قبل جب ان کی داڑھ کا درد شتر بے مہار ہو گیا تھا تب بھی آپ مقامی ڈاکٹروں سے ناراض ہوکر برطانیہ تشریف لے گئے تھے اور اللہ کے کرم سے تندرست ہو کر واپس آئے تھے۔ 
نیو یارک کے غیر مسلم ڈاکٹروں نے حضرت کا بڑی محبت اور توجہ سے مکمل میڈیکل چیک اپ کیا۔ غیر محرم نرسوں نے اپنے دودھیا ہاتھوں سے ان کے غیرت مند خون کے متعدد نمونے لیے اور اغیار کی جدید کمپیوٹرائزڈ سائنسی مشینوں نے بتایا کہ ہمارے قبلہ کئی سالوں سے پسی ہوئی اینٹیں ملی مرچیں، کپڑے رنگنے والے رنگ ملی ہلدی، کیمیکلز اور چھپڑوں کا پانی ملا دودھ، مردار کی انتڑیوں سے تیار شدہ آئل، گدھے کے گوشت کی کڑاہی اور لکڑی کا برادہ ملی کیڑے زدہ گندم کی روٹی نوش جاں فرما رہے ہیں۔ جعلی ادویات کی کثرت اور وزن اور کولیسٹرول کی زیادتی نے آپ کے جسمانی عناصر کے ظہور ترتیب کو درہم برہم کر رکھا ہے۔ نیز ملاوٹی خوراک نے معدے کے السر کو جنم دیا ہے اور زائد چربی نے خون کی شریانوں پر دبائو بھی بڑھا رکھا ہے۔ اگرچہ زہر ان کے جسم میں سرایت کر چکا تھا مگر قریباً ایک ماہ تک شافی علاج کے بعد اللہ نے ان پرکرم کیا۔ معدے کا ایک عدد آپریشن بھی کیا گیا جس کے دوران عیسائیوں کی ایک فلاحی تنظیم نے آپ کے لیے چار بوتل خون کا بندوبست کیا۔ اثنائے علاج حضرت کے صاحبزادے کفار کی جدید سروس وٹس ایپ پر آڈیو اور ویڈیو کالز کے ذریعے عزیز و اقارب اور مریدین سے مسلسل رابطے میں رہے اور ہم سب ان کی خیریت سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ ہوتے رہے۔ اللہ کے فضل سے انہیں شفا نصیب ہوئی اور ایک یہودی ڈاکٹر نے آپ کو صحت یابی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے روزانہ ورزش اور کم خوراکی کا مشورہ دیا؛ تاہم ابھی ادویات کی ضرورت تھی جو انہیں وہیں سے مہیا کی گئیں اور وطن عزیز کی دوائوں سے پرہیز کا مشورہ بھی دیا گیا۔ آپ تندرست ہوکر اسی ایئرلائن کے طیارے میں واپس آئے اور جلوس کی شکل میں بابائے موبیل ہنری فورڈ کی ایجاد کی موجودہ شکل ایک جاپانی لگژری گاڑی میں اپنے دولت خانے پر لائے گئے۔ 
کل ہم انہیں صحت یابی کی مبارکباد دینے گئے تو حضرت تھامس ایڈیسن کے ایجاد کردہ برقی قمقموں سے منور اور ولِز کیریئر کے ہنر کے شاہکار ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں نیم دراز امریکی انجینئر مارٹن کوپر کی ذہانت کی عطا اپنے قیمتی موبائل فون پر جرمنی میں بسلسلہ کاروبار مقیم اپنے دوسرے صاحبزادے کو اپنے شاندار علاج کی تفصیلات بتا رہے تھے۔ ساتھ ہی ریمورٹ ہاتھ میں پکڑے جرمنی کے ڈش انٹینا کی مدد سے ٹی وی کے موجد سکارٹ لینڈ کے الیکٹریکل انجینئر John Logie کی سائنس بروئے کار لا کر مختلف ملکوں کے نیوز چینلز ملاحظہ فرماتے جا رہے تھے۔ بخدا ان کے چہرے پر نور برس رہا تھا۔ملازم نے فریڈ ڈبلیو ایف کی ایجاد ریفریجریٹر سے یہودی ڈاکٹر کی دی ہوئی امپورٹڈ دوائیں نکال کر دیں۔ حضرت نے فرانس کے جوسر سے تیار شدہ تازہ پھلوں کے جوس سے ادویات نگلیں اور پھر ہم عقیدت مندوں کو مخاطب کرکے ایمان افروز گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا ''میرے بچو! مغربی قومیں اخلاق باختہ اور اندر سے کھوکھلی ہو چکی ہیں، تم لوگ یہود و نصاریٰ کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دو‘‘۔
ہم نے فوراً اپنا آئی فون بند کرکے جیب میں رکھا اور دل ہی د ل میں کثرت سے توبہ استغفار پڑھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہم لوگوں کو شعور کی نعمت سے محروم رکھا، ورنہ زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ ؎
وہی شامِ غم، وہی چشم نم 
وہی تم کے تم، وہی ہم کے ہم 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں