امن کی پیامبر کے نام

بہادر بیٹی ملالہ !
امن کے نوبل انعام کے بعد اقوام متحدہ کی کم عمر ترین امن کی سفیر مقرر ہونے پر مبارکباد قبول کرو۔ بلاشبہ دنیا کی طرف سے بے شمار اعزازات کے بعد کینیڈا کی اعزاز ی شہریت اور ان کے ہائوس آف کامن سے خطاب بھی تمہاری عظمت کا عالمی اعتراف ہے ۔ ہم نے وطن عزیز کی شہرت کو چار نہیں ، کئی چاند لگائے ہیں۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے ان میں سے کچھ چاند تو کم کیے ۔ اس پرمسرت موقع پر تمہاری دل آزاری مقصود نہیں لیکن معاف کرنا بیٹی ، ہمارے نیک دلوں میں ان اعزازات پر کچھ تحفظات ہیں ۔ پیارے وطن میں عظمت کے قطب مینار سمجھتے ہیں کہ یہ انعامات نہیں ، ہمارے منہ پر یہودوہنود کے طمانچے ہیں۔شاید ان کا خیال ہے کہ یہ اعزازات اس طرف اشارہ ہیں کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کی شوقین اپنی بچیوں پر علم کے دروازے نہیں ، بندوقوں کے دہانے کھولتے ہیں ۔ اور امن سے تو ویسے ہی ہمیں چِڑ ہے ۔ اوپر سے غیروں نے تمہیں امن کا عالمی پیامبر بنا کر ہماری قومی غیرت پر جو تازیانہ برسایا ہے ، اس پر تو ہم بل کھا کر رہ گئے ہیں۔ 
پیاری بیٹی ! یہ دنیا عجیب تضادات کا مجموعہ ہے ۔ قدر ت نے بہت سے انسانوں کو طاقت بخشی ۔ کچھ نے اسے کھوپڑیوں کے مینار بنانے پر صرف کیا اور کچھ نے بے کس انسانوں کے دفاع پر ۔ رب نے بے شمار لوگوں کو اقتدار بخشا۔ کچھ نے رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے ، ریاست کے وسائل کو لوٹا‘ اولادوں ، رشتہ داروں اور حواریوں کو نوازا جبکہ کچھ نے حق داروں کو ان کا حق دلایا اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے ۔ ہے نا ں عجیب تضاد کہ ان میں سے کچھ روٹ لگوا کر موٹروں کے جلو میں کروفر سے نکلتے ہیں جبکہ کچھ سائیکلوں پر ہی دفتروں کو چل دیتے ہیں ۔ خدا نے لا تعداد انسانوں کو عدل و انصاف کے مناصب بخشے ۔ کچھ نے ہر حال میں جرأت و بہادر ی سے انصاف کا پرچم بلند رکھا اور کئیوں نے تو انصاف کی لٹیا ہی ڈبو دی ۔ 
بہت سے لوگوں کو دولت بخشی گئی ۔ کچھ نے محلات کی چین بنائی اور طوائفوں پر زر لٹانے کے علاوہ دنیا کے مہنگے ترین کسینو میں راتوں رات لاکھوں پائونڈ جوئے میں ہارنے کی محیرالعقو ل مثالیں قائم کیں۔ کچھ نے وہی دولت غریب ملکوں میں خوراک، تعلیم اور صحت کے منصوبوں پر خرچ کی ۔ یہاں سب کو دماغ عطا ہوئے ۔ کوئی اسے ایٹم بم ایجاد کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے اور کوئی زندگی بچانے والی ادویات بنانے پر ۔ کہیں عوام کو گھاس کھلا کر ایٹم بم بنایا جاتا ہے اور کہیں من و سلویٰ کھلا کر۔ کہیں سمندر قزاقی کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کہیں تجارت کے لیے ۔ کہیں پہاڑوں پر دہشت گردی کے اڈے قائم کیے جاتے ہیں اور کہیں ان پر جدید سہولیات مہیا کر کے سیاحت کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ کسی ملک میں سیاحوں کو بذریعہ ٹھگی ، لوٹ مار اور اغواء کر کے دولت کمائی جاتی ہے جبکہ کسی معمورے میں سیاحوں کو پر کشش سہولتیں دے کر زرِ مبادلہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ 
ہر معاشرے کے اپنے اپنے رسم و رواج اور اقدا رہوتی ہیں میری بچی ! دنیا میں کہیں کوئی معمولی سا اخلاقی الزام لگنے پر مستعفی ہو جاتا ہے اور کہیں کوئی ڈھیٹ ڈگری جعلی ثابت ہونے پر بھی گردن اکڑا کر کہتا ہے کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے ، چاہے اصلی ہو یا نقلی ۔ کہیں مجرموں کو پناہ نہیں ملتی اور کہیں پولیس کو مطلوب پولیس میں بھرتی ہو جاتے ہیں ۔ کوئی سوچ کی آزادی کے لیے کام کرتا ہے تو کوئی اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کرنے کی سعی کرتا ہے ۔ کسی کی سوچ تعمیری ہوتی ہے اور کسی کی تکفیری ۔ کسی قوم کی پہچان علم ، جستجو اور ایجادات ٹھہرتی ہیں اور کسی کی ثقہ بند جہالت ۔ کہیں یونیورسٹیوں میں تحقیق ہوتی ہے تو کہیں دانش گاہوں میں تشدد اور قتل و غارت ۔ کہیں اہل علم کی جوتیاں سیدھی کرنے کا رواج ہوتا ہے تو کہیں انہیں چرا کر بھاگ جانے کا ۔ کہیں سائنسدانوں کا سکہ چلتا ہے اور کہیں ملا ملوانوں کا ۔ کہیں صدیوں پہلے پاپائیت کا بدبودار نظام اپنے انجام کو پہنچتا ہے اور عورتوں پر مظالم کی سفاک روش ختم ہوتی ہے جبکہ کہیں آج بھی جہالت راج کرتی ہے اور اپنی ملالہ یوسفزئیوں کو قتل اور وَنی کیا جاتا ہے۔ کوئی قوم اپنے ہیروز کو نوبل انعام ملنے پر سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور کوئی قوم انہیں سی آئی اے کا ایجنٹ قرار دیتی ہے ۔ کوئی تمہیں قوم کا ہیرو سمجھتا ہے اور کوئی عافیہ صدیقی کو ۔ قدرت نے اپنے بندوں کو بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ کچھ فلاحی تنظیمیں بناتے ہیں اور کچھ ہتھیار بند اور بم بردار جتھے ۔ کوئی مسلح گروہ اسلحے کے زو رپر علم کے رستے میں مضبوط دیوار اٹھاتا ہے اور کبھی تمہاری ایسی کوئی نہتی بچی اس دیوار کو اپنے خون کی طاقت سے گرا کر نام کماتی ہے۔ 
پیاری گڑیا ! اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری تمہاری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ دہشت گرد سب سے زیادہ ایک ایسی لڑکی سے خوفزدہ ہیں جس کے ہاتھ میں کتاب ہے ۔ تمہارے سامنے اسی بات کی وضاحت کرنا ہے کہ تمہارے ہاتھ میں کتاب ہے اور یہاں دہشت گردہی نہیں ، ہم سب کتاب سے خوفزدہ ہیں ۔ ہماری گل مکئیوں اور مشال خانوں کو یہی خوفزدگی ہی تو نشانہ بناتی ہے ۔ تم نہیں جانتیں بیٹا کہ ہمارا برگزیدہ و سنجیدہ معاشرہ ایسے بچوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، جن کے ہاتھ میں کتاب ہو ۔ ناراض نہ ہونا بچے ! اس معاملے میں ہم سب سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ ہمیں ایسے بچے چاہئیںجو ان پڑھ ، گونگے اور بہرے ہوں ۔ جن کے دماغ اور ہاتھ خالی ہوں اور ہم ان میں اپنی مرضی کے نظریات ، بندوقیں ، جھنڈے ، ڈنڈے اور پتھر دے کر انہیں اپنے اپنے ایجنڈوں اور مفادات کا ایندھن بنا سکیں ۔ اگر ان بچوں کے ہاتھ کتاب لگ گئی تو ان کے باشعوراورسوچ کی لَت میں مبتلا ہونے کے شدیدخدشات لاحق ہو جائیںگے۔ ایسے میں ہماری اندھی تقلید کون کرے گا ، ہمیں ووٹ کون دے گا، آوے ہی آوے کے نعرے کون لگائے گا، ہمارے دھرنوں میں کون آئے گا اور خود کش بمبار کہاں سے آئیں گے ؟ معاف کرنا بیٹی، تم تو علم کی شمع جلا کر ہماری دانشوری کے ٹھوٹھے پر بھی ڈانگ مارنے کی متمنی ہو۔ 
بس شہزادی ! یہی چند معروضات تمہیں پیش کرنی تھیں ۔ امید ہے کہ تم سمجھ گئی ہو گی کہ ہم ذرا وکھری ٹائپ کی قوم ہیں اور ہمارے ہاں کتاب ،حق اظہار ،سوچ کی آزادی اور سوال اٹھانے جیسی خرافات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ ہم نے دنیا پر غلبہ پانا ہے مگر کتاب کی وساطت سے نہیں ، تلوار کے زور پر۔ پس ہم چاہتے ہیں کہ تم ملک سے باہر ہی رہو اور اغیار کے بچوں کی تعلیم کے لیے بے شک سب کچھ کرو مگر ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کتاب دے کر اسلام کے اس قلعے میں دراڑ مت ڈالو ۔ تم اطمینان رکھو ، یہاں سب ٹھیک چل رہا ہے ۔ قائداعظم کا پاکستان دن دوگنی ، رات چوگنی ترقی کر رہا ہے اور اقبال کا شاہین بھی پھَر پھَر اُڑ رہا ہے ۔ ہم نیا پاکستان بنانے میں جتے ہوئے ہیں اور اب تو خیر سے طالبان اور القاعدہ کے بعد داعش بھی یہاں قدم جما رہی ہے ۔ مشال خان کے لیے دعائے مغفرت کرنا ۔یقینا تم سمجھ گئی ہو گی کہ تمہیں مارنے کے ناکام تجربے کے بعد اب ہم مقاصد کے حصول کے لیے کوئی کچا کام نہیں کرتے ۔ 
فقط: تمہارا ہم وطن

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں