ایک تحفظاتی خیر مقدم

پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنے تمام تر باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معتبر اصفیائے کرام ، دیانتدار سیاسی رہنمائوں ،معزز قانون دانوں ، معتبر دانشوروں، مستند صحافیوں اورمعروف اینکروں کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا۔ اجلاس کے پہلے سیشن میں عدالت کے حکم کی تشریح پر ایک طویل اور دھواں دھار بحث ہوئی ۔اس دوران متعدد مرتبہ باہم دست و گریبان ہونے کی نوبت بھی آئی ۔ بحث ہذا کی دھول بیٹھنے پر فاضل شرکائے اجلاس روایتی انداز میں پہلے با جماعت روئے اور پھر باہم مل کر ہنسے ۔ تاریخ کی روشنی میں یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ اکابرین اجلاس کا رونا اس کرب کا اظہار ہے کہ ان کے بعد نیم خواندہ قوم کو عدالتی فیصلوں کی تشریح کون کر کے دے گا اور ہنسنے کا مطلب بھی صاف ہے کہ خود معزز شرکاء کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں یہ ہاتھ پڑا کس طرف سے ہے ؟
اجلاس کے دوسرے سیشن میں دوبارہ فیصلے کا عمیق جائزہ لیا گیا اور آخر کار اسے ملک سے بد عنوانی کے خاتمے اور روشن مستقبل کے لیے مشروط سنگِ میل قرار دیا گیا ۔ معزز شرکائے اجلاس نے عدالت عظمیٰ کو صدیوں یاد رکھے جانے کے قابل فیصلہ سنانے پر خراج تحسین پیش کیا مگر اس پر اپنے چند تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ یوں یہ ایک تحفظاتی خیر مقدم قرار پایا۔ اجلاس کے آخر میں اس تحفظاتی خیر مقدم کی وضاحت اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے ایک متفقہ قرار داد بھی منظور کی گئی ، جو ذیل ہے ۔
''آئین کی شق نمبر62اور63پر پورا اترنے والے کنفرم صادق اور امین خواتین و حضرات کا یہ عظیم الشان اجتماع بدعنوانی اور قومی وسائل چرانے کے بد نام زمانہ پانامہ کیس میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی فاضل بینچ کے عوامی امنگوں سے جزوی ہم آہنگ فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے ۔ فاضل جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کی عظمت کو سلام جبکہ جسٹس اعجا ز افضل ،جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن کو صرف سلا م پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ ایک وضاحت ضروری ہے کہ جہاں تک اکابرین ملت کی جانب سے اس پر مسرت موقع پر مٹھائیاں بانٹنے اور کھانے کا تعلق ہے تو اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ فیصلے کو کُلی طور پر عوامی امنگوں کا ترجمان نہ پا کر اپنی خفت مٹانے کے لیے مٹھائیاں تقسیم کی گئیں کیونکہ فاضل اکابرین اجلاس اپنی اپنی عدالتوں میں اس مقدمے کے کہیں بہتر فیصلے لکھ کر سنا بھی چکے تھے ۔ دوسری اور فوری وجہ یہ بنی کہ گرمی کے موسم میں مٹھائی خراب ہونے کا اندیشہ تھا اور ویسے بھی لڈوئوں اور گلاب جامنوں سے منہ موڑ کر انہیں دوسروں کے کھانے کے لیے نہیں چھوڑا جا سکتا تھا ۔ پس انہی تاریخی قومی روایات کی پاسداری میں یہ خیرالعمل انجام دیا گیا کہ حالات کے تناظر میں عدالتی فیصلوں پر کبھی حلوے اور مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں اور کبھی احتجاجی سُر نکالے جاتے ہیں۔ 
ہم وزیراعظم میاں نوا ز شریف اور ان کے عزیز واقارب کے خلاف صادق اور امین تین اکابرین اجلاس کی درخواستوں پر فاضل بینچ کے حکم پر ہر گز ہر گزکوئی تنقید نہیں کرنا چاہتے ۔ تاہم یہ اجتماع برادر بزرگ المعروف کینیڈوی سرکار کے اس ایمان افروز فرمان کی طرف قوم کی توجہ ضرور دلانا چاہتا ہے کہ اب طہارت کے سرٹیفکیٹ کی کالک جے آئی ٹی کے منہ پر ملی جائے گی ۔ یاد رہے کہ سرکار کی دور اندیش طبیعت نے بہت پہلے حالات بھانپ کر ''انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھ دیا تھا جبکہ حالیہ فیصلے کے بعد فرمایا کہ پانامہ کی باضابطہ تدفین ہو گئی ہے ۔ صد افسوس کہ آپ کی اقتداء میں '' مبارک ہو ، مبارک ہو ‘‘ کی فلک شگاف صدائیں بلند کرنے کی بے کراں حسرت کتنے ہی دلوں میں بل کھاتی رہ گئی ۔ اجتماع ہذا ایک اورمستند صادق اور امین درخواست گزار المعروف فرزندِ راولپنڈی کی اس پیشگوئی کو بھی اشارتاً کوٹ کرنا چاہتا ہے کہ عدالت سے قانون کا تابوت نکلے گا یا نون کا ۔ 
یہ عظیم اجتماع صدق دل سے سمجھتا ہے کہ فیصلہ ہذا جزوی کی بجائے کلی طور پر عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا تو اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کا سبب بنتا۔ جب پانچوں جج صاحبان سماعت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وزیراعظم اور ان کے
خاندان کی دولت پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں ملا تو عوامی امنگوں کا حقیقی تقاضا یہ تھا کہ متفقہ طور پر وزیراعظم کو فوری طور پر معزول و گرفتار کر کے اس عہدے پر کسی صالح رہنما کو بدون انتخابات و دیگر خرافات ، بروئے حکم عدالت متمکن و فروکش فرما دیا جاتا ۔ اس طرح ملک میں کسی آئینی یا سیاسی بحران کا خطرہ بھی ٹل جاتا اور قومی خزانے پر کسی الیکشن یا اِن ہائوس تبدیلی کے اخراجات کا بوجھ بھی نہ پڑتا۔ تاہم ہم اب بھی پوری نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ اگر موجودہ فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے ہماری دو میں سے کوئی ایک تجویز مان لی جائے تو یہی فیصلہ عوام کے دھرنا جاتی مفاد کے حصول کا ذریعہ بن کر کلی طور پر عوامی امنگوں کی آسودگی کا سبب بن سکتا ہے ۔ پہلی تجویز یہ ہے کہ جے آئی ٹی نااہل سرکاری افسران کی بجائے تینوں درخواست گزاروں عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید کے علاوہ آصف زرداری اور علامہ طاہرالقادری پر مشتمل ہو،تاکہ میرٹ پروزیراعظم کا کڑا احتساب کیا جا سکے ۔ اگر یہ تجویز ناقابل قبول ہو تو پھر جے آئی ٹی کے سامنے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی طرف سے ان کی بجائے تیرہ سوالات کے جوابات دینے کا اختیار اسی پانچ رکنی ٹیم کو دیا جائے تاکہ کما حقہ ‘ حقیقی انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ 
اس موقع پر اس طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ ملک خداداد میں انصاف کا بابِ فضیلت کھلا ہے تو مخصوص ایجنڈا رکھنے والے مٹھی بھر شرپسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس فیصلے کی آڑ میں کچھ ''ذاتی و گروہی مخاصمتوں‘‘ کو بد عنوانی کے زمرے میں لا کر ان کے خلاف بھی ایسے ہی احکامات جاری کرنے کے مطالبات سر اٹھا رہے ہیں۔مثلاً آئین کے آرٹیکل چھ کے گناہ گاروں کے خلاف کارروائی ، آئی جے آئی اور ایم ایم اے جیسے اتحادوں پر قومی خزانے سے خرچ کی گئی رقوم کے حساب ، بھٹو کے عدالتی قتل کی تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف مقدمات، جہاد افغانستان کے پیسے سے بنائی گئی جائیدادوں کی تحقیقات ، بذریعہ این آر او اور پیٹریاٹ بن کر پرویز مشرف سے ختم کرائے گئے کرپشن کے مقدمات اور منی لانڈرنگ کے کچھ بے بنیاد الزامات کی انکوائری وغیرہ وغیرہ۔ ہم پوری نیک نیتی سے سمجھتے ہیں کہ جہاں ایسے گڑے مردے اکھاڑنے سے ہمارے قومی اخلاقی محاسن فنا ہوںگے ، وہاں عدالتوں کا قیمتی وقت اور ملک و قوم کا پیسہ برباد کرنے کے موجب بھی بنیں گے ۔ لہذا ایسے لغو مطالبات پر کان نہ دھرنا ہی قرین انصاف ہے ۔ 
دریں حالات صادق اور امین راہنمائوں کا یہ بیکراں ہجوم عدالت عظمیٰ کے فاضل بینچ کے فیصلے کا تحفظاتی خیر مقدم کرتے ہوئے صدق دل سے سمجھتا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔ لہذا ان کی جانب سے اخلاقی بنیادوں پر فوری استعفے اور عدالت کی طرف سے بذریعہ نظر ثانی شرکائے اجلاس کے مطالبات اور تجاویز پر سنجیدگی سے غو رکرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے تاکہ دنیا میں ہمارا ایک کرپشن دشمن اور مہذب قوم کے طور پر تشخص بحال ہو سکے ‘‘۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں