جناب مستنصر حسین تارڑ کا قول زریں ہے ''وزارتیں اور سفارتیں ایک ہی مقام پر ڈٹے رہنے سے نہیں، ہمیشہ لڑھکتے رہنے سے ملتی ہیں‘‘۔ انعام درانی نے اس خیرالعمل کو یوں بیان کیا ہے:
یہ طے پایا اصولوں پر یقیں اپنا نہ محکم کر
بدلتے وقت کے سانچے میں ڈھل کر تقلیدِ موسم کر
خودی کا فلسفہ اقبال کے شعروں میں رہنے دے
کمر میں کر لچک پیدا، سر شوریدہ کو خم کر
چند عاقبت نااندیشوں کو چھوڑ کر ہمارے اکثر سیاسی رہنمائوں نے اسی اصول کے Neck Lock سے ''قومی مفاد‘‘ کو قابو کیا ہوا ہے۔ ان کی ثابت قدمی کا یہ عالم ہے کہ درجنوں پارٹیاں بدلنے کے باوجود اس قومی مفاد کی گردن پر کبھی ان کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی۔ اِدھر حکومت ڈانواں ڈول ہوئی، ادھر یہ ملکی مفاد کی خاطر ذہنی اور جسمانی غسل سے گزر کر نئی سرکاری پارٹی کے ماتھے کا جھومر ہو گئے۔ آمریت جلوہ افروز ہوئی تو اس کے قصیدہ خواں اور انتخابات آئے تو جمہوریت کے قوال ہو گئے۔ غالبؔ شاہ کی قصیدہ گوئی نہ کرے تو کیا کرے کہ قومی مفاد کا تحفظ ہی ان کا اثاثہ ایمان ہے، چاہے وہ آمریت کی دہلیز پر سجدہ ریزی میں پنہاں ہو یا جمہوریت کی چوکھٹ پر۔ ان کی سیاست اصولوں کی پابندیوں سے پاک مگر شفاف اور دوٹوک ہوتی ہے کہ:
اس شہر میں کون نہیں رسوا
لیکن شرمندہ کوئی نہیں
قطع نظر اس کے کہ عوام میں کون سی پارٹی مقبول ہے، سیاسی زعما کے طبقہ مذکور کے نزدیک ہر دور میں جو پارٹی فیورٹ رہی ہے، وہ سرکاری پارٹی ہے، چاہے وہ مسلم لیگ ہو، کنونشن لیگ ہو، کونسل مسلم لیگ ہو، جونیجو لیگ ہو، ن لیگ ہو، ق لیگ ہو، چٹھہ لیگ ہو، اظہر گروپ ہو یا پیپلز پارٹی۔ اس صاف اور شفاف سیاست کی داغ بیل تو آمر اول ایوب خان نے ڈال دی تھی، تاہم ضیاء الحق نے جس طرح اسے جلا بخشی، وہ ہماری تاریخ کا اہم ترین موڑ ہے۔ ملک و قوم کے لیے ان کی دیگر گراں قدر خدمات سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم موضوع پر ہی رہیں گے کہ دنیا میں پارلیمانی نظام حکومت میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی حکومت بناتی ہے مگر قبلہ نے غیر جماعتی انتخابات کا عجوبہ متعارف کرا کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں عوامی نمائندوں کا انتخاب پہلے ہوا اور اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بعد میں بنی۔ اس طرح قومی خدمت سے سرشار نمائندوں کی اکثریت کو پارٹی بدلنے کی زحمت ہی نہیں کرنا پڑی بلکہ وہ براہِ راست سرکاری دھارے میں شامل ہو گئے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مردِ حق کے ساتھ شامل باجا ہو گئے۔ اس رسم نے ایسا فروغ پایا کہ بعد کے انتخابات میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ یعنی جس کی حکومت بھی بنی، نمائندوں کی معقول تعداد اسی طرف لڑھکتی رہی اور من کی مراد پاتی رہی۔ آئی جے آئی کی بنیاد رکھی گئی تو جوق در جوق اس میں وارد ہو گئے اور 2002ء کے انتخابات میں گروہ در گروہ مشرف بہ مشرف ہو کر ق لیگ قائم کر لی۔ کئی فاضل ارکان ن لیگ کو چھوڑ کر ق کے سایۂ دیوار آ بیٹھے اور کئی پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پیٹریاٹس بن گئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد قلیل مدت میں سیاسی وفاداریاں بدل کر ارکان اسمبلی نے نئی تاریخ رقم کی۔ صرف ابتدائی دو ماہ میں 80 کے قریب ارکان اسمبلی فارورڈ بلاک کی صورت یا جماعتی وابستگی سے آزاد ہو کر سرکاری بینچوں پر آ بیٹھے۔ حتیٰ کہ بلوچستان کے تمام اراکین صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے بھی ق لیگ کے ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا دی۔ مختصر کریں کہ یہ کارِ خیر آ ج بھی اسی طرح جاری و ساری ہے کہ:
لوٹ آتے ہیں درختوں پہ ثمر آتے ہی
رُت بدلنے کی پرندوں کو خبر رہتی ہے
یہاں پر کسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے ایک وضاحت ضروری ہے کہ لوٹے لیڈروں کی اس تاریخ سے محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا ہرگز کوئی تعلق نہیں جو حال ہی میں پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ جیسی دبنگ خاتون کا خالصتاً قومی مفادکی خاطر پارٹی بدلنے جیسا کوئی بھی قدم ان کے سیاسی مقام کو زک نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے یہ مقام اپنی انتھک جدوجہد، دور اندیشی، بہادری اور بے لوث عوامی خدمت کے طفیل حاصل کیا۔ وہ پرویز مشرف کے مایہ ناز 33 فیصد اصول کے تحت سیاسی اُفق پر نمودار ہوئیں اور جلد ہی چھا گئیں۔ اس وقت اچانک آسمانِ سیاست پر اور بھی بہت سے ستارے جگمگائے تھے اور ہماری قومی سیاست نئی نئی جہات سے روشناس ہوئی تھی۔ اگرچہ فردوس عاشق اعوان خواتین کی مخصوص نشستوں پر کامیاب ہوئی تھیں مگر انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے جلد ہی ملکی سیاست اور اپنے آبائی حلقے سیالکوٹ میں وہ مقام بنا لیا کہ ان کے براہِ راست الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ تاہم چونکہ اس حلقے سے چوہدری امیر حسین کے مقابلے میں انہیں ٹکٹ ملنے کا امکان نہیں تھا، لہٰذا ق لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئیں اور انتخابات جیت کر اور زرداری دور میں وزیرِ اطلاعات بن کر بارِ دگر اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا
منوایا۔ اب اگر انہوں نے تحریک انصاف کے پرچم کی چادر اوڑھی ہے تو یہ بھی کسی مفاداتی سیاست کے نہیں بلکہ اپنی گراں مایہ صلاحیتوں کے اظہار کے لیے اٹھایا گیا انقلابی قدم ہے، جو تحریک انصاف کو نئی نئی جہات سے روشناس کرائے گا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایک کھری، بے باک اور نڈر سیاستدان ہیں۔ بلاشبہ ان کی صاف ستھری سیاست اور شائستہ لب و لہجہ تحریک انصاف کی سیاست کو جلا بخشے گا کہ انہیں قومی مسائل پر مدلل اور مشکبو گفتگو کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔ ہم آج بھی یو ٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک ٹاک شو میں اپنی ہم عصر کشمالہ طارق کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں کسی کے بیڈ روم کے ذریعے نہیں، بلکہ الیکشن لڑ کر سیاست میں آئی ہوں۔ بلاشبہ آج تحریک انصاف کا ایک بڑا خلا پُر ہو گیا ہے اور اب اسے کسی نازک قومی موقع پر شیریں گفتاری کے لیے فرزند راولپنڈی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
خیر! محترمہ فردوس عاشق اعوان جیسی با اصول رہنما کا ذکر تو ویسے ہی بیچ میں آ گیا۔ اصل میں ہم مفاداتی رہنمائوں کی بات کر رہے تھے، جو پارٹیاں ایسے بدلتے ہیں، جیسے امیر عورتیں ساڑھیاں۔ کچھ لوگ ان کے اس فعل کو جمہوریت کی روح کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کو پارٹی بدلنے کی روح سمجھانے کے لیے ایک شعر کافی ہے، جس میں ''قیمت‘‘ بڑا قیمتی لفظ ہے۔
وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
جو تجھے ہر دفعہ ساڑھی نہ بدل کہتے ہیں