آخر وہ یہ سوچ کر ایک عطائی کے پاس چلی گئی کہ ڈاکٹر تو ڈاکٹر ہوتا ہے، چاہے عطائی ہو یا قصائی۔ ایسا نہیں کہ وہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانے سے گریز کر رہی تھی۔ مصیبت یہ تھی کہ اس کے پاس فیس اور دوا کے پیسے نہیں تھے۔ اوپر سے کمبخت کو بچوں کی خاطر ہی سہی مگر نیلام ہونا بھی پسند نہیں تھا‘ ورنہ نیکوکار معاشروں میں اس عمر کی بیوائوں کو ہمدرد تو مل ہی جاتے ہیں۔
اس کا خاوند شہرکی کسی فیکٹری کا ورکر تھا، جو ایک سال قبل فیکٹری کے اندر بجلی کا کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گیا تھا۔ تاہم دنیا سے منہ موڑنے سے قبل وہ اپنی زوجہ کو چھ بچوں کی سوغات دے گیا تھا، جن میں سے ایک بچہ ذہنی ابنارمل بھی تھا۔ فیکٹری کے مالک شیخ صاحب ایک نیک، ہمدرد اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے۔ وہ اپنے فیکٹری ورکر کی نماز جنازہ میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے اور چند ہزار روپے نقد بیوہ کے ہاتھ پر بھی رکھ گئے تھے۔ اس غمناک موقع پر انہوں نے بیوہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر نہ صرف اسے حوصلہ دیا بلکہ اس کے خاوند کی ملازمت کے قانونی واجبات بھی جلد از جلد ادا کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم بعد میں بیوہ نے فیکٹری کے رستے میں بڑی جوتیاں گھسائیں مگر بدقسمتی سے یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ شیخ صاحب تو ہر حال میں بیوہ کو اس کا حق دینا چاہتے تھے مگر بقول فیکٹری فنانس ڈائریکٹر، مسئلہ یہ درپیش تھا کہ واجبات کے کاغذات کی تیاری میں بڑی پیچیدگیاں اور رکاوٹیں حائل تھیں۔ آخر جب ایک دن اس پر فیکٹری کے دروازے بند کر دیئے گئے تو اس نے کسی کے مشورے پر لیبر قوانین کے تحت کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو درخواستیں بھجوانا شروع کر دیں مگر اس کی کہیں شنوائی نہ ہو سکی۔ نیم خواندہ بیوہ کو علم نہیں تھا کہ بڑے بڑے سرکاری ادارے چلانے کا بارِ گراں اٹھانے والوں کے پاس ایسی چھوٹی موٹی درخواستوں پر غور کرنے کے لیے وقت نہیں ہوتا۔
اب جو شیخ صاحب کے دیئے پیسے ختم ہو گئے اور رشتہ داروں نے بھی منہ موڑ لیا تو غم جاں اور غم جاناں کے عجیب امتزاج کے ساتھ بیوہ پر ایک نئی مگر خوفناک زندگی آشکار ہوئی۔ تاہم اس نے ہمت نہ ہاری اور لوگوں کے گھروں کا کام کاج کرکے بمشکل بچوں کو پالنا شروع کر دیا۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کا آغاز ہوا تو رنگ و نور کا سیلاب اُمڈ آیا۔ اہل محلہ نے خیرات اور افطار پارٹیوں کے ذریعے دونوں ہاتھوں سے ثواب دارین سمیٹا، البتہ بیوہ نے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلایا، نہ کسی کو اس کا خیال آیا۔ اگرچہ متقی حضرات پر مشتمل زکوٰۃ کمیٹی بھی موجود تھی مگر مانگنے سے شرمانے کی عادت نے اس کے بچوں کی زندگی مشکل ہی بنائے رکھی۔ اسی ماہِ صیام کا ایک گرم اور لمبا دن سر کرکے شام کو جب افطاری کے لیے گھر میں کچھ نہ تھا تو اس نے بسم اللہ پڑھ کر گھڑے کے پانی سے روزہ افطار کیا۔ وہ پیاس کی شدت سے بہت سا پانی چڑھا گئی اور بیمار ہو گئی۔ پے در پے قے سے حالت غیر ہوئی تو اس نے ہمت کرکے دوپٹے کے کونے سے اپنی آخری پونجی پچاس پچاس روپے کے دو نوٹے باندھے اور کسی طرح عطائی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ عطائی نے اسے ایسا انجکشن گھونپا کہ بے چاری اگلے حال سے بھی گئی۔ اگلے دن شام تک وہ نیم جاں ہو چکی تھی۔ رات کو وہ چپکے سے دیوار کا سہارا لیتے بمشکل پڑوسن کے ہاں پہنچی اور پہلی دفعہ رازداری سے بچی کھچی روٹی کی خیرات کی درخواست کرتے ہوئے اسے بتایا کہ میں نے بچوں کو بہلانے کی خاطر ہنڈیا میں سادہ پانی ڈال کر چولہے پر چڑھا دیا کہ کھانا پک رہا ہے۔ باقی تو کھانے کے انتظار میں ایک ایک کرکے سو گئے لیکن پاگل نہیں سو رہا اور اس نے بھوک سے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے، کیا کروں ''جھلا‘‘ جو ہوا۔ اسی شب سحری سے قبل ہی اس کے جسم میں پانی ختم ہو گیا۔ بیوہ نے ٹوٹی چارپائی پر لیٹے لیٹے زیرِ لب اپنا تکیہ کلام ''واہ مالک! تیری شان‘‘ دہرایا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ محلے کی فضا سوگوار ہو گئی۔ اہل محلہ نے دکھی دل کے ساتھ اس کے کفن دفن کا انتظام کیا، اس کے روح کے ایصال ثواب کے لیے مشترکہ طور پر پورے محلے کے لیے افطاری کا بندوبست کیا اور اس کے بچوں کو یتیم خانے پہنچا کر اپنے اخلاقی فرائض سے بطریق احسن سبکدوش ہو گئے۔
یاد پڑتا ہے کہ ایسا ہی ایک بیمار، لاچار اور معذور بڑھیا کا واقعہ بھی کبھی قلمبند کیا تھا۔ اس حرماں نصیب کا خدا کے سوا کوئی نہیں تھا اور بھوک و افلاس اس کی جھونپڑی کے مستقل مہمان تھے۔ گائوں کے لوگ ترس کھا کر اسے کھانے کو کچھ دے دیتے تو کھا لیتی۔ اگر انہیں اپنی گوناگوں مصروفیات کی بنا پر یاد نہ رہتا تو کئی کئی دن تک فاقے سے پڑی رہتی مگر خود اٹھ کر کہیں جانے سے قاصر تھی۔ ایک دفعہ رمضان المبارک کا چاند نظر آیا تو ایک نیک اور پرہیزگار حاجی صاحب اسے مبارکباد دینے اس کی جھونپڑی میں جا پہنچے اور خوشخبری سنائی ''خالہ ! روزے آ گئے ہیں‘‘ نحیف بڑھیا کی نقاہت بھری آواز جیسے دور کسی گہرے کنوئیں سے آئی ''بیٹا ! روزے گئے کب تھے؟‘‘... اس بڑھیا کو بھی اسی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا تھا۔
ان مثالوں کی وساطت سے عرض یہ کرنا ہے کہ ہمارے ارد گرد ایسے کئی لوگ زندگی سے نبرد آزما ہیں جن کے روزے کبھی نہیں جاتے اور نہ کبھی ان کی عید آتی ہے۔ ایسے گھروں کی فضا بدستور اداس اور آنگن مستقل اشکبار رہتے ہیں۔ ہمارا رمضان آرڈیننس بابرکت مہینے کے تقدس کا محافظ ضرور ہے مگر بھوکوں کا نہیں۔ سو اگر ہم ماہِ صیام میں روزوں، نمازوں، عمروں اور پُرتکلف افطاریوں سے نیکیاں کمانے کی بے پناہ مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر ایسے مفلوک الحال ہم وطنوں پر بھی نگاہ ڈال لیا کریں تو یقینا ہمارے ثواب میں کمی نہ ہو گی۔ مراد بالکل یہ نہیں کہ خدانخواستہ ایسے غریبوں کے حقوق ہم پارسائوں نے غصب کر رکھے ہیں بلکہ ہم تو انہیں اپنے رزق میں حصہ دار بنانے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ آخر اخبارات میں غربا کے درمیان اشیائے خور و نوش تقسیم کرتے ہمارے فوٹو کس بات کا ثبوت ہیں؟ بس کیا ہے کہ رمضان کی دینی اور کاروباری مصروفیات کی بدولت کبھی کبھار ہم سے تھوڑی بہت غفلت ضرور ہو جاتی ہے ورنہ ہم حقوق العباد سے صرف نظر کرنے والے کب ہیں؟
دریں حالات غربا اور مساکین سے بھی درخواست ہے کہ براہِ کرم ہماری طرف سے بد گمان نہ ہوا کریں۔ ویسے بھی یہ دنیا فانی ہے اور سب کچھ یہاں ہی تو رہ جانا ہے۔ پھر ایسی فانی چیزوں کا لالچ کیا کرنا؟ زیادہ کھا کر بھی بندے نے رزق خاک ہونا ہے اور کم کھا کر بھی۔ اصل زندگی تو بعد الموت کی ہے اور اسی کی خاطر ہم عبادات اور اچھائیوں میں غرق ہیں۔ ایسے میں اگر غربا کو کبھی کھانے، پہننے یا علاج معالجہ وغیرہ کے لیے کچھ میسر نہ آ سکے تو وہ بھی شکوہ کرنے کی بجائے ہماری طرح آخرت کی فکر کیا کریں۔ تاہم آپ کی تسلی کی خاطر بارِ دگر عرض ہے کہ ہماری مصروفیاتِ متذکرہ کی بنا پر اگر آپ کے حقوق سے رمضان شریف کے دوران ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی بھی ہے تو انشاء اللہ عیدالفطر کے پُر مسرت موقع پر ہم ساری کسر نکال دیں گے۔ ہم جھوٹا وعدہ نہیں کرتے کہ اپنے پاک صاف دستر خوانوں پر ناپاک کپڑوں والوں کو مرغن غذائوں میں اپنے ساتھ شامل کر لیں گے۔ البتہ بچی کچھی اشیائے خور و نوش اور پرانے کپڑوں پر آپ لوگو ں کا حق ہے اور یہ حق ہم آپ کو دے کر رہیں گے۔ دوسرے یہ کہ ہمیں اپنی فرشتہ سیرتی پر ہرگز کوئی غرور نہیں‘ لیکن یہ بھی تو دیکھئے کہ ہم آپ جیسے کسی بے آسرا کی موت پر کتنے اعزاز سے تجہیز و تدفین کے مراحل طے کرکے آپ لوگو ں کی زندگی میں ہونے والی اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہیں۔ آپ کم از کم اس معاملے سے تو بے فکر ہو جائیں اور اپنی موت سے متعلق ایسے فرضی اندیشوں سے جان چھڑا لیں کہ:
صحنِ غربت میں سد ا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر