سیماب ؔ اکبر آبادی نے کہا تھا :
ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا
ہم بھی سیمابؔ کی طرح عجیب پارہ صفت لوگ ہیں کہ جن کی آبلہ پائی ہر دور میں کوئی نہ کوئی خار زار تلاش کر ہی لیتی ہے۔ اگر جمہوریت کا ہجر لاحق ہو تو نوحہ کناں اور وصال نصیب ہو تو شکوہ کناں ،مگر خوش کسی حال میں نہیں ۔ ناآسودہ خواہشات ہر دو صورتوں میں نا آسودہ ۔ہجر درپیش یا لطفِ دعائے سحر غارت۔ اگر وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی میں پیش نہ ہوتے اور استثنیٰ کا آئینی حق استعمال کرتے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے کہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں ۔اب جبکہ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر تین گھنٹے تک سوالوں کے جواب دیئے ہیں تو ہم راضی پھر بھی نہیں ۔ نکتہ چیں طبیعتیں نکتے اٹھا رہی ہیں کہ وزیراعظم کے پاس تو کوئی راستہ ہی نہیں تھا ، اگر وہ پیش نہ ہوتے تو کیا کرتے ؟ گویا ہم وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے پر خوش تو ہیں مگر رو بھی رہے ہیں کہ ان کے پیش نہ ہونے کی صورت میں سیاسی بصیرت کی دھول اڑانے کا جو لطف اٹھانا تھا ، وہ غارت ہو گیا ۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ جب سپریم کورٹ نے 20اپریل کو پاناما کیس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کے قیام کا حکم سنایا تو اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کو مسترد کردیا تھا ۔ ان کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے ماتحت افسران کس طرح ان سے آزادانہ تفتیش کر سکتے ہیں ۔ مطالبہ یہ کیا گیا کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں پر مشتمل ہونی چاہیے ۔ پھر جب سرکار ی اداروں کے افسران پر مشتمل موجودہ جے آئی ٹی قائم ہو گئی اور اس نے حسین نواز کو طلب کیا تو اپوزیشن اپنی ہی مسترد کردہ جے آئی ٹی کی پشت پر کھڑی ہو گئی ۔
بھلے لوگو ! بے شک نوازشریف اور شہباز شریف کو کریڈٹ نہ دو کہ وہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی اپنے ماتحت افسران کے سامنے پیش ہوئے ۔ یہ بات بھی قابل ستائش نہ سہی کہ حسن نواز اور حسین نواز نے متعدد مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوکر گھنٹوں سوالوں کے جواب دیئے ۔ آنے والے دنوں میں جو دیگر سیاستدان پیش ہونے جا رہے ہیں ، ان کے حق میں بھی کلمہ خیر کہنے کی ضرورت نہیں ۔ برسرِ اقتدار قیادت کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا قانون کی بالا دستی پر مہر بھی نہ سہی مگر کم از کم یہ تو تسلیم کرو کہ جمہوریت ہی جواب دہ نظام ہے ، جو صاحبان اقتدار کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر سکتا ہے ۔ یہ کرپٹ اور نااہل سیاستدان ہی تو ہیں جو ہماری شاندار تاریخ میں تفتیشی اور عدالتی مراحل سے گزرتے رہے ہیں اور نااہلیاں ، جلا وطنیاں اور جیلیں بھگتنے کے علاوہ شاخِ دار کو بھی آباد کرتے رہے ہیں ۔ ہمارے ایک سیاسی اور صحافتی طبقے کے ممدوح آمر حضرات تو کبھی بھی احتساب کی چھلنی سے نہیں گزرے ، حالانکہ سیاستدانوں سے زیادہ تو آئین کو روندنے کے سنگین جرائم انہوں نے کیے ۔
مان لیتے ہیں کہ آج کوئی تاریخ رقم نہیں ہوئی ، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ بھی نہیں ہوا لیکن بہتر مستقبل کی طرف ایک قدم تو بڑھا ہے کہ نہیں ؟ جس جواب دہ نظام کو ہم نے اپنے خوابوں میں بسا رکھا ہے، اس منزل کی طرف یہی راستہ تو جاتا ہے ۔ اگر جمہوریت کا تسلسل اور منتخب نمائندوں کا عدالتوں اور قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا یہی چلن برقرار رہا تو قانون کی بالا دستی کی راہ ہموار ہو گی اور وہ وقت بھی آئے گا کہ اہل اقتدار الزام لگنے پر مستعفی ہوکر تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہونگے ۔ ایسے معتبر رویوں کی حامل ہم جن قوموں کی مثالیں دیتے ہیں ، وہ بھی اسی نظام کے تسلسل کی وجہ سے خود کو مثال بنا سکے ہیں ۔ اگر ہم بھی جذباتی اور استخراجی رویوں کو چھوڑ کر صبر اور حوصلے سے جمہوری رستے پر چلتے رہے تو اسی طرح کی مثال دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے ۔ جس قوم کی آدھی تاریخ دشتِ آمریت کی سیاحی میں گزری ہو اسے جمہوری رویے پختہ کرنے میں کچھ وقت تو لگتا ہے ۔ آج اگر اس تحقیقاتی مرحلے میں حکمرانوں کا طرزِ عمل درست نہیں سمجھا جا رہا تو ریاست کے دوسرے اداروں کے غیر ذمہ دارانہ انداز پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ اگر جے آئی ٹی کو شکایت ہے کہ حکومتی اداروں کی طرف سے ریکارڈ بدلا جا رہا ہے ، تفتیش میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور تاخیر کی جا رہی ہے تو جواب میں حکومتی ارکان کی طرف سے تفتیش میں تعصب اور یکطرفہ احتساب کے علاوہ وٹس ایپ کالز کے ذریعے من پسند افسران کے جے آئی ٹی میں تقرر اور حسین نواز کی تصویر لیک کرنے جیسے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد مخصوص ایجنڈے کی فیکٹریوں اور کٹھ پتلیوں کے تماشے کی جو باتیں کی ہیں وہ بھی لمحہ فکریہ ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اگر تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے تو یہ جمہوریت کی پختہ شاہراہ کی طرف جانے والے نیم پختہ راستے کی کھائیاں ہیں اور اگر جمہوری عمل جاری رہا تو یہ کھائیاں بہت دور رہ جائیں گی۔
بارِ دگر عرض ہے کہ چلیں ہم وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو کوئی کریڈٹ نہیں دیتے ۔ ان کی طرف سے تفتیشی عمل میں شریک ہونے کو ان کا بڑا پن بھی نہیں کہتے مگر یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ آج انہوں نے جس عمل کی داغ بیل ڈالی ہے ، اس سے آئندہ کسی کو بھی اپنے آپ کو قانون سے بالا تر قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ یکطرفہ ہی سہی مگر اس احتساب کے طریقہ کار سے ایسی روایت کا آغاز ضرور ہو رہا ہے کہ جس سے آئندہ ہر کسی کو تفتیشی اداروں اور عدالتوں کے سامنے پیش ہوکر جواب دینا پڑے گا۔ اگر جے آئی ٹی کے سامنے قطری شہزادے نے اپنے خط کی تصدیق کر دی تو یقینا عدالت عظمیٰ پرویز مشرف کو بھی طلب کر کے پوچھے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے شہزادوں نے ان کے اکائونٹ میں رقم کیوں جمع کرائی تھی ؟ عمران خان کو بھی اپنی جائیدادوں اور آف شور کمپنی کے علاوہ دھرنوں سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے پر جواب دینا پڑے گا۔ ن لیگ کے علاوہ برسرِ اقتدار اور شریک اقتدار رہنے والی پارٹیوں پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، جمعیت علمائے اسلام، ق لیگ ، اے این پی اور ایم کیو ایم کے اکابرین کو بھی یقینا تفتیشی اداروں اور عدالتو ں میں پیش ہونا پڑے گا کہ ان سب پر بھی کسی نہ کسی صورت کرپشن کے الزامات اور مقدمات قائم ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب بیوروکریسی ، عدلیہ اور فوج کے جن جن عناصر پر ریاست کے وسائل یا اپنے فرائض منصبی سے انصاف نہ کرنے کے سلسلے میں شکایات پائی جاتی ہیں وہ بھی کٹہرے میں کھڑے ہوکر جواب دیں گے ۔
تاہم اگر خلافِ توقع یہ ہماری خوش فہمی نکلی اور احتساب فقط شریف خاندان کو دھو کر سو گیا تو یہ ملک کی بڑی بد قسمتی ہو گی۔ ایسے یکطرفہ احتساب کے بعد اگر عام انتخابات میں ن لیگ دوبارہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو احتساب کی کریڈیبلٹی ہمیشہ کے لیے متاثر ہو گی ۔ دوسری صورت میں دارالحکومت کے باخبر حلقے جس سازش کی بُو سونگھ رہے ہیں ، اگر وہ صحیح نکلی تو ایک دفعہ پھر منزل سے الٹی سمت کا سفر شروع ہو جائے گا۔ خوش قسمتی سے ہماری عدلیہ اور فوج کی قیادت ذمہ دار اور محبت وطن لوگو ں کے ہاتھوں میں ہے ، جو کسی بھی صورت منتخب حکومت یا وزیراعظم کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ تاہم اگر بد قسمتی سے ایسی کوئی سازش کامیاب ہو گئی اور جمہوریت کا بستر گول ہوا تو ہمارے تحریک بحالی ٔ آمریت کے اکابرین ایک دفعہ پھر نئی مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے ۔انہیں لعن طعن کرنے کے لیے عوام کے منتخب نمائندے میسر نہیں ہونگے اور وہ '' وصالِ یار ‘‘ سے سرفراز ہونگے تو سیماب ؔ اکبر آبادی پھر یاد آئے گا کہ :
ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا