یہاں اب کوئل نہیں کوکتی

حافظے کا پنچھی 70ء کی دہائی تک اڑ کر جاتا ہے اور شکستہ پروں سے واپس آ جاتا ہے ۔ تب یہ گائو ں سے باہر ایک ڈھوک تھی ، ہماری برادری کے چند کچے گھروں پر مشتمل ڈھوک ، جھوک رانجھن جیسی ، جھوک سیال کی طرح... مگر اب کمرشل علاقہ بن گیا ہے ۔ یہاں اب کوئل نہیں کوکتی ،گاڑیوں کے پریشر ہارن سماعتوں کا امتحان لیتے ہیں ۔ اب ادھر فاختائیں میٹھے گیت نہیں گاتیں ، مارکیٹوں میں ہجوم ، مشینیں اور میوزک شور ڈالتے ہیں۔ 
ہو سکتا ہے کہ اب بھی یہاں طلوعِ سحر کی گھڑیوں میں چڑیاں چہچہاتی ہوں اور فاختائیں امن کے سریلے گیت چھیڑتی ہوں مگر وہ چنگھاڑتے لائوڈ سپیکروں اور ٹریفک کے بے ہنگم شور میں دب جاتے ہوں۔ اگر کبھی وہ دلفریب سناٹا میسر آئے تو معلوم ہو کہ کوئلیں ابھی یہاں نغمہ سرا ہوتی ہیں یا ماحول کی آلودگی سے گھبرا کر کوچ کر گئی ہیں؟ کبھی یہاں کے خاموش اور پُرسکون ماحول میں چاروں طرف لہلہاتے کھیتوں کے اس پار آسمان جھک کر زمین سے گلے ملتا تھا مگر اب تو آبادی کا یہ عالم ہے کہ دور گلے ملنے کا یہ دلفریب منظر تو کجا ، گرمیوں کی شکر دوپہروں میں نزدیک کے ڈھوک ڈھلوں اور زمینوں پر سراب کا نظارہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سڑک کے دونوں اطراف گھنے اشجار کٹ کر ان پیٹوں کا ایندھن بن چکے ہیں جو کبھی بھرتے ہی نہیں۔ کبھی چاند ہمارے کچے صحنوں میں حسن و نور کے رنگ بکھیرتا تھا مگر اب تو ہم چاند کے حسن کا نظارہ کرنے آبادی سے دور بھی چلے جائیں تو اس کی آلودہ چاندنی میں دلوں کے تار چھیڑنے والی ٹھنڈک ہے، نہ چاند ہم سے ہمکلام ہوتا ہے۔ کبھی ساون کی بارش سے ہماری صاف کچی مٹی ہر طرف سوندھی خوشبو بکھیرتی تھی مگر اب یہ خوشبو ذہن کے نہاں خانوں ہی میں رہ گئی ہے ۔ ہم نے بھی جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب کھیتوں میں گھنے پیڑوں کے سائے میں زمین پر بیٹھ کر لسی اور مکھن کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے بلکہ گھروں میں پرہیزی لنچ کرتے ہیں تاکہ جراثیموں سے محفوظ رہ سکیں اور کولیسٹرول بھی کنٹرول میں رہے ۔ اب تو ہل ،پنجالی ،درانتی ،چکی ،چرخہ ، کانس، گہی ، گرمالہ ، ویلنا ، ڈھیرنا اور نجانے کتنے ہی دیسی آلات جو ہم چھوٹے زمینداروں کی سادہ سی زندگی کا جز لاینفک تھے، خواب خیال ہوئے۔ خوشا کہ ہم نے بچپن میں ہر صبح چرخے کی آواز پر آنکھ کھولی مگر اپنے بچوں کو چرخہ دکھانے لوک ورثہ میوزیم لے جانا پڑا۔ آج اپنا گائوں دیکھ کر باقی ؔ صدیقی کا کرب یاد آتا ہے کہ :
نہ او پینگاں، نہ او جھُوٹے 
نہ او گھمرے گھمرے بُوٹے 
نہ او گُوڑی چھاں 
اے نئیں مینڈا گِراں 
آپ بے شک اسے ہمارے اندر کا پینڈو پن کہہ لیں مگر ایک حسین سا خواب لگتا ہے۔ خدا معلوم وہ بچپن کی معصومیت تھی یا مہر و وفا اور اخلاق و محبت کی فراوانی مگر عید کی خوشیاں اس طرح مصنوعی اور کمرشل ہرگز نہ تھیں ۔ تب عید نیک اور خالص جذبوں سے مزین ایسا تہوار تھا جس میں بچے ،بڑے سب حقیقی خوشیا ں سمیٹتے تھے۔ زندگی بجلی سمیت بہت سی بنیادی ضرورتوں سے یکسر محروم مگر اخلاقی قدروں سے منور تھی۔ سردیوں میں کچی بیٹھک کے اندر آگ کے الائو میں وارث شاہ کا کلام اور گرمیوں میں بیٹھک کے صحن میں چاند کی دل آویز روشنی میں سیف الملوک کے اشعار۔ اکثر لوگوں کو یہ عارفانہ کلام ان پڑھ ہونے کے باوجود اَزبر تھے، جو وہ میلے ٹھیلوں میں لوک فنکاروں کو سن کر یاد کرتے تھے۔ ہمیں بچپن کی کوئی ایسی شام یاد نہیں جب ہمارے ڈیرے پر مہمان نہ ہوں۔ ان میں ذاتی مہمانوں کے علاوہ غریب پھیری والوں سے لے کر مویشیوں کے بیوپاری اور دوسرے اجنبی مسافر تک شامل ہوتے تھے۔ وسائل محدود مگر دل کشادہ۔ ہم نے کبھی مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے اپنے سفید پوش بزرگوں کے ماتھے پر بل نہ دیکھے۔ روپے پیسے کا عمل دخل ہم دیہاتیو ں کی زندگی میں کم ہی تھا۔ گندم کی فصل اٹھاتے ہی دستکاروں کو ان کا حصہ بقدر جثہ دے دیا جاتا اور سب کی زندگی کی گاڑی اسی سے چلتی۔ حتیٰ کہ دکان سے سودا سلف بھی جو فقط گڑ، پتی اور صابن پر مشتمل ہوتا ، اسی گندم کے عوض خریدا جاتا۔ تب سارا گائوں بلا تفریق دوسروں کے غم اور خوشی میں شریک ہوتا تھا۔ سادگی، شرافت اور قناعت اس محدود سی آبادی کی پہچان تھے۔ بخدا ان کے سوا ہم نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا۔ پتہ نہیں وہ خوش نصیب تھے یا ہم ، مگر ہمارے کتنے ہی آباء اور ان کے آباء ایسی آسودہ زندگی کے بعد اس قبرستان میں اس حالت میں آسودہ خاک ہوئے کہ انہیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی تھی۔
یہ قدریں اور وضع داریاں نسل در نسل منتقل ہوتی آ رہی تھیں ۔ پھر نجانے کیا ہوا؟ کب اور کس نے حالات کی سنگینی کا بیج بویا؟ خواہشات اور دولت کے لیے ہونے والی ''میراتھن‘‘ نے ہماری سانسوں میں چنگاریاں بھر دیں ۔ اخلاقی قدریں ہلنا شروع ہوئیں تو زمین بوس ہو کر ہی رہیں۔ جو باہمی محبتیں کچے گھروں کا خاصہ تھیں ، وہ پختہ مکانوں میں آ کر ناپید ہو گئیں ۔ نفس فربہ ہوئے تو دل سکڑنے لگے ۔ جن چہروں پر اطمینان اور قناعت کی خنک چاندنی بکھری تھی ، ان پر حرص و ہوس کی چمگادڑیں لٹکنے لگیں۔ ہم نے عارضی لمحاتی فوائد کی تاک میں اپنی بے مثال رواداری کچل ڈالی۔ شرافت و وضع داری کی جگہ دھن دولت وجہء عز و شرف اور رواداری کی جگہ فرقہ وارانہ جہالت ہماری پہچان بن گئی۔ محبتوں کے نصابوں کی جگہ دشنہ و خنجر جیسی زبانوں نے لے لی۔ گھنے درختوں کی مہرباں چھائوں کیا روٹھی کہ حرام و حلال کی تمیز بھی جاتی رہی ۔ آپ سے کیا چھپانا کہ اب ہم زر، زمین اور اَنا کی خاطر دوسروں کو توکیا خو د اپنے بھائی بہنوں کو بھی بخشنے کو تیار نہیں۔ اب ہمارے روزے بھی ریاکاری سے لبریز ہیں اور عیدیں بھی منافقت اور شو بازی سے بھرپور۔ خدا معلوم کہ ہمارے آباء بد نصیب تھے، جنہیں دنیا کی ہوا بھی نہیں لگی تھی یا ہم کہ دنیا جن کی انگلی کی ایک جنبش کے فاصلے پر ہے ؟ 
پیارے ہم وطنو! کبھی یہ ملک بھی تو اس گائوں جیسا تھا ، جھوک رانجھن کی مانند، جھوک سیال کی طرح... مگر اب یہاں بھی چڑیوں کے ٹھکانوں پر حرص و ہوس کی چمگادڑیں لٹکتی ہیں۔ فاختائوں کے امن کے سریلے گیت کانوں میں رس نہیں گھولتے ، بم دھماکوں سے دل دہلتے ہیں ۔ اب محبتوں اور دلیلوں سے نہیں وحشت و بربریت سے اپنی بات منوائی جاتی ہے۔ کچی مٹی کی سوندھی خوشبو کی جگہ بارود کی زہریلی بُو ہماری سانسوں میں رچ گئی ہے۔ اب یہاں کوئل نہیں کوکتی ، وہ مائیں کوکتی ہیں جن کے بچے خود کش دھماکوں اور جہالت کی نذر ہوتے ہیں ۔ ہمارے اندر کے دشمن اپنے مذموم مقاصد کی خاطر کوئٹہ، کراچی اور پارا چنار میں دہشت گردی سے ہماری عید لہو رنگ کر دیتے ہیں ۔ خود ہم احمد پور شرقیہ جیسے شرمناک واقعات میں ایک بوتل پٹرول کے لالچ میں ملک بھر کی عید انسانی اجسام کے جلنے کی بُو سے بوجھل کر دیتے ہیں۔ ہم اپنے ہی ملک کے شہریوں کو مردار کھلاتے ہیں۔ رمضان میں ان کو جی بھر کے لوٹتے ہیں۔ پھر اسی کمائی سے دکھاوے کے عمرے اور نمائشی عیدیں مناتے ہیں۔
وائے حسرتا! قناعت، صبر، سادگی، شرافت، رواداری، محبت اور باہمی احترام جیسے اثاثوں سے تہی ہوئے برسوں بیت گئے مگر بشیرؔ بدر کی طرح ہاتھ کیا آیا؟ 
سر سے چادر، بدن سے قبا لے گئی 
زندگی ہم فقیروں سے کیا لے گئی 
میری مٹھی میں سوکھے ہوئے پھول ہیں 
خوشبوئوں کو اڑا کر ہوا لے گئی 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں