ہزاروں خواہشیں ایسی… ایک ’’خطِ مستقیم‘‘

پیارے ہم نفس ! 
سلام مسنون ! دو فاسدجملے سنتے کان پک گئے کہ ''بد ترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے ‘‘ اور '' جمہوری عمل ہر حال میںجاری رہنا چاہیے ‘‘ ایسے لغو مفروضوں کی آڑ میں جب جمہوریت کے مجاور اور مغرب نواز محققین اپنی باطنی جہالت کی تسکین کے لیے اس نامعتبر نظام کے حق میں بودے دلائل دیتے ہیں تو میرا خو ن کھولنے لگتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کونسی جمہوریت اور کہاں کا جمہوری عمل ؟ نیکوکاروں کی پاک سر زمین پر کفارِ مغرب کے واہیات نظام کا کیا کام اور اصفیا کے ہاں جمہوری عمل جاری رکھنا چہ معنی دارد؟ اس اخلاق سوز نظام کی اس سے بڑھ کر اور کیا تباہی ہو گی کہ یہ اپنا جواز اجتماعی انسانی دانش کو بناتا ہے اور ان مقدس کواڑوں کو مقفل کر دیتا ہے، جہاں سے صالحین عظام ایوانوں میں دخول فرما کر رعایا پر فرمانروائی کا نیک فریضہ انجا م دیتے ہیں۔ 
وائے حسرتا ! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے... خدا مغفرت کرے، محمد علی جناح کے شوق جمہوریت اور جاہل عوام کی اندھی حمایت نے پاک سر زمین پر بھی یہ انہونی کر دکھائی۔ خدا خدا کر کے وطن لذیذ یحییٰ خان کی قیادت میں صراطِ مستقیم پر گامزن ہوا ہی تھا کہ خدا ان سے کڑا حساب لے، شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو اسی جمہوریت کے نجس در سے ہماری منزل کھوٹی کرنے کے لیے وار د ہو گئے اور ملک اور ہمارے دل دولخت ہو گئے۔ بھٹو کو تو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی کہ انہوں نے نیم خوابیدہ اور نیم خواندہ قوم میں مادر پدر آزاد جمہوریت کا ابلیسی جذبہ کوٹ 
کوٹ کر بھر دیا اور ہماری تاریخی اقدار اور اخلاقی محاسن فنا کرکے رکھ دیئے۔ وہ تو خدا غریق رحمت کرے، عزت مآب مائی باپ ضیاء الحق دام برکاتہ‘ کہ عظمت جن پر عاشق تھی۔ پیر کامل نے بد اختر قوم میں کینسر کی طرح پھیلتے اس مرض کہن کا شافی علاج کیا۔ مردِ مومن نے کمال ہنر سے جمہوریت اور آئین کو لگام دی اور اس دہلیز پر پیہم سجدہ ریزی کو اثاثۂ ایمان تصور کرنے والے مغربی ایجنٹوں کے سفلی جذبات کو بڑی محنت شاقہ سے بوساطت پھانسی گھاٹ، کوڑے اور جیلیں کنٹرول فرمایا۔ تاہم بدقسمتی سے ان کی بے وقت شہادت نے اوباشوں کو پھر سے سر اٹھانے کا موقع عطا کیا جس کا خمیازہ آج ہم تم بارِ دگر اخلاق سوز نظام حکومت کی صورت بھگت رہے ہیں اور ڈھلوان کا سفر پھر سے جاری و ساری ہے۔ اگرچہ پرویز مشرف صاحب نے بھی ازراہِ لطف و کرم ہماری کافی نصرت فرمائی مگر ان میں وہ مولوی مدن والی بات کہاں کہ ''جو رنگ رنگیا ، گوڑھا رنگیا ، مرشد والی لالی او یار‘‘۔ 
پیارے ہم نفس ! میں گہرے غوروفکر ، استدلالی چھان بین اور معروضی حقائق کے عمیق مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے عوام اپنے عدم سیاسی شعور اور جہالت کی بنا پر ہرگز اس اہل نہیں کہ انہیں اپنے لیے حکمران یا طرزِ زندگی منتخب کرنے اور معاشرت کی سمت طے کرنے جیسے نازک اور گنجلک امور کا اختیار دیا جائے۔ تم اپنے ایمان سے بتائو کہ اگر وہ اس قابل ہوتے تو آج باضمیر اصفیا کی جگہ نواز لیگ تیسری مرتبہ مملکت خداداد کے تخت پر براجمان ہوتی؟ یہ اسی کم علمی کا شاخسانہ ہے کہ لوگ زندہ و جاوید غازیان کی بجائے گڑھی خدابخش کی قبروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ تباہی ہمارا مقدر کیوں نہ ہو اور قدرتی آفات ہمارے گھر کا رستہ کیوں بھولیں کہ چمن کی نگہبانی گناہ گار عوامی نمائندوں جیسی آکاس بیلوں کے رحم و کرم پر ہے اور وطن لذیذ کی قبائے تار تار کی بخیہ گری عوام نے ایسے لوگوں کو سونپی ہے، جو فن بخیہ گری سے نابلد ہیں ۔ اسی لیے تو کہتا ہوں کہ جس کا کام، اسی کو ساجھے... یہ خالصتاً ہم برگزیدہ خواص کے اختیارات ہیں جو مغربی جمہوریت اٹھا کر گناہ گار عامۃ الناس کی جھولی میں ڈال دیتی ہے۔ تاہم یہود و نصاریٰ اور ان کے ایجنٹوں کی مکروہ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے سبب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ طوہاً و کرہاً ہی سہی مگر فی الحال فاسد جمہوریت کو تسلیم کیے بنا چارا نہیں۔ البتہ خدارا کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ ہم نے جمہوریت کو صدق دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ بس جب تک ہماری تحریک بحالی آمریت کی جہد مسلسل ثمر بار نہیں ہوتی اور ہم ریاست اور اس کے شہریوں کو غیبی طاقتوں کی مدد سے مغلوب نہیں کر لیتے، تب تک اپنے نیک عزائم چھپا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ عاقل را اشارہ کافی است۔ 
پیارے ہم نفس ! تم تو جانتے ہیں کہ جمہوریت کے حبس زدہ موسم میں نہ نیند نیناں نہ اَنگ چیناں کی کیفیت ہے ۔ فرنگی نظام کے نامہرباں موسموں کی بے توقیر ہوائوں میں دم گھٹتا ہے تو گردن گھما گھما کر مختلف اداروں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتا ہوں۔ جمہور خانہ خراب کی بے خواب راتوں اور کربناک دنوں میں دل مضطر ڈھارس پانے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ ایسے میں کہیں انقلاب کا طبلہ بجتا ہے تو دھڑکنیں بے اختیار اس کی سنگت کرنے لگتی ہیں اور کہیں تبدیلی کی بانسری دلفریب سُر بکھیرتی ہے تو دل جھوم جھوم سا جاتا ہے۔ میڈیا میں صاحبان فکر و دانش کی کہکشاں میں اپنی محرومیوں کا مداوا نظر آتا ہے۔ حکومت کے چل چلائو سے متعلق سیاسی پنڈتوں اور صحافتی نجومیوں کی پیش گوئیاں اور تیر و نشتر کی طرح دلو ں کو چیرتے جنوں خیز تجزیے دیکھتا ہوں تو ایک گونا فرحت کا احساس ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ پیش کردی ہے ۔ اگر کوئی کج فہم اس کی غیر جانبداری پر انگلی اٹھاتا ہے تو اٹھاتا رہے۔ اگر کسی کو اپنی قوتِ شامہ میں خرابی کی بنا پر کسی خیالی سازش کی بُو آتی ہے تو آتی رہے مگر میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ کرپٹ لوگوں سے نجات کے لیے ہر حکمت عملی رو ا ہے۔ سچی بات ہے کہ زرداری کا دور ہو یا نواز شریف کا ، میں تو مائنس ون جیسے فارمولوں کا کبھی قائل نہیں رہا۔ میں تو تمہاری دعا سے ہمیشہ مائنس آل کے مطالبے پر قائم رہا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کو ہم کب تک گلے سے لگائے رکھیں گے؟ آخر اس خانہ خراب کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟ اور ایسے کوڑھ زدہ نظام کی بجائے ''معتبر خلافت‘‘ کیوں ہمارا مقدر نہیں۔
پیارے ہم نفس ! تم حوصلہ رکھنا کہ امتحان کے دن تھوڑے ہیں ۔ امید واثق ہے کہ اس دفعہ حالات کا مداری فقط تماشا دکھا کر اور ہماری اُمیدیں خاک میں ملا کر رخصت نہ ہو گا، بلکہ تاریخ کا رُخ مڑ جائے گا اور کشت ویراں میں ضرور پھول کھلیں گے ۔ اللہ نے چاہا تو کامیابی کے راستے میں ایستادہ بت ایک ایک کرکے گرتے جائیں گے اور بہت جلد سفینہء غمِ ساحل مراد پر لنگر انداز ہو گا۔ ہماری جدوجہد کا ثمر گراں ظاہر ہو گا اور عشاق تبدیلی کی مرادیں بر آئیں گی۔ جمہوریت کی بے حکمت، بے ثمر اور طفلانہ مشق اپنے انجام کو پہنچے گی اور ایک صاف اور شفاف نظام چلانے کے لیے صاف ستھرے لوگ بروئے کار آئیں گے۔ کچھ عجب نہیں کہ مرد حق جیسا کوئی کامران اور اجلا فرمانروا مانند خورشید طلوع ہو اور لیلیٰء انقلاب کو محمل سے نکال کر ہماری آغوش میں ڈال دے۔ پھر تم دیکھنا کہ احیائے ماضی کے کیسے کیسے مواقع درویشوں کے ہاتھ لگتے ہیں۔ بس تم حوصلہ رکھنا میرے ہم نفس! آج تک ایسی کونسی رات ہے کہ جس کے بطن سے صبح صادق کا نور نہ پھوٹا ہو؟ ہجر کی یہ شب بھی تمام ہوئی چاہتی ہے اور وصل کی گھڑی دہلیز سے لگی بسمل ؔعظیم آبادی کے الفاظ دہرا رہی ہے :
دشوار تر بھی سہل ہے ہمت کے سامنے 
یہ ہو تو کوئی ایسی مہم ہے کہ سَر نہ ہو 
یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شب فراق 
وہ کونسی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں