جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو میری ترجیح اس کی فقط ایک صنف تک محدود رہی ہے، اور وہ ہے ''صنف نازک کی شاعری‘‘... موسیقی کی صورت سننے کی حد تک اور بات ہے مگر روبرو ''کلام شاعر، بہ زبان شاعر‘‘ کے اصول کے تحت میں نے صنف نازک کے کلام کے علاوہ کبھی کسی کی شاعری کو منہ نہیں لگایا۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے فیض ؔ، فرازؔ اور جالبؔ ٹائپ شاعر کبھی پسند نہیں رہے، جو سر بازار کسی بھی معزز آدمی کا گریباں چاک کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ ایسی چھچھوری حرکت کرتے وقت وہ یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ شریف آدمی نے اُجلی شیروانی زیب تن کر رکھی ہے، نیا سوٹ یا کلف زدہ وردی۔ میری ٹھوس رائے ہے کہ شاعری لطیف انسانی جذبات و احساسات کو الفاظ کے موتیوں میں پرونے کا نام ہے۔ دوسرے الفاظ میں شاعری پیغامِ محبت اور دردِ دل کی ترجماں ہے اور بس۔ میرے خیال میں یہ کام فقط خوش اطوار اور روشن خیال خواتین ہی کا خاصہ ہے، نام نہاد اور بدلحاظ مزاحمتی قسم کے بے ادبوں کا ہرگز نہیں۔
یادش بخیر! قصرِ صدارت کے سنہرے ایام میں کئی خوش نوا شاعرات میرے حلقہ رفاقت میں رہیں، جن کے کلام نرم و نازک سے میں نے روبرو استفادہ کیا۔ ایک شاعرہ کے کلام کی شادابیاں اور جمال کی رعنائیاں تو اس قدر ہوشربا تھیں کہ میں خود ان کی صحبت میں شاعر بننے سے بال بال بچا۔ اس حادثے کی تفصیل پھر کبھی بیان کروں گا۔ آج مجھے ان کا ایک خوبصورت شعر یاد آ رہا ہے، جو ہمیشہ سے ملکی حالات کا عکاس رہا ہے۔ شعر کچھ یوں ہے:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُتری تو میں نے دیکھا
افسوسناک امر یہ ہے کہ میں نے جب بھی کسی محفل میں ان کا یہ شعر سنایا تو مجھے فوراً جیلسی کی بو آنے لگی۔ دسترخوانی قبیلہ تو ہمیشہ خیال کی بلندی پر غش کھا گیا مگر حاسدین نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ جناب یہ تو منیر ؔنیازی کے شعر کو ذبح کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ تو ایوان صدر کے عملے نے میرے ایسے کان بھرے کہ میں خود بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا۔ تاہم خدا مغفرت کرے، جب میں نے اپنا کنفیوژن دور کرنے کی غرض سے اپنے دیرینہ رفیق ڈاکٹر شیر افگن نیازی سے منیر نیازی نامی شخص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ضلع میانوالی میں منیر نام کا کوئی نیازی سرے سے پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ شاعرہ محترمہ ہی ہیں جو کبھی ناصرؔ ‘ کبھی محسنؔ اور کبھی منیرؔ تخلص فرماتی ہیں۔ انہوں نے اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہماری تاریخ میں اس نام کا فقط ایک ہی باکمال تیراک گزرا ہے، جس نے ''نظریہ ضرورت‘‘ نامی دریا سر کرنے کی داغ بیل ڈالی مگر اس کا نامِ نامی اسمِ گرامی بھی جسٹس محمد منیر ہے، منیر نیازی نہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کسی منیر نامی شخص نے کوئی دریا عبور نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ہیریں ہی دریا بُرد اور انہیں پار کرتی آئی ہیں۔ لہٰذا حقائق و واقعات کی روشنی میں شعر کا کریڈٹ شاعرہ محترمہ ہی کو جاتا ہے۔ میں نے ان کی بات کی گہرائی میں جا کر کہا ''یو آر رائٹ ڈاکٹر‘‘۔
بات دور نکل گئی۔ میں اصل میں یہ کہہ رہا تھا کہ شاعرہ کا یہ شعر ہمیشہ سے ہمارے ملکی حالات کا ترجمان رہا ہے۔ مملکت خداداد روزِ اول ہی سے ''نازک دور‘‘ سے گزر رہی ہے۔ ملک نازک دور کی ایک دلدل سے نکلتا ہے تو سامنے ایک اور دلدل اس کا استقبال کرتی ہے۔ دور نہ جائیے، پیپلز پارٹی کی کھٹارا کشتی پانچ سال تک وطن عزیز کو نامساعد حالات کے دریا میں غوطے دیتی رہی۔ یہ دریا بمشکل سر ہوا تو ن لیگ کی چھکڑا کشتی عوام کو لاد کر ایک اور بپھرا دریا عبور کرنے چل نکلی۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ملک ایک اور نازک دور سے نبرد آزما ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ میرے برادران بزرگوار اور میں نے کوئی چار مرتبہ ملکی کشتی کو جمہوری دریا کے اس بھنور سے نکال کر استحکام کی راہ پر گامزن کیا۔ جب بھی حالات زیادہ نازک ہوئے اور کشتی ڈوبنے لگی تو ہم نے منتخب نمائندوں کا بارِ گراں اتار پھینکا اور بادبان خود سنبھال کر اسے ڈوبنے سے بچا لیا‘ مگر یہ اس ملک کے عوام کا شوقِ جمہوریت ہے جو انہیں سکون سے ترقی کرنے کی بجائے دریا پہ دریا عبور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
میں موجودہ نازک حالات میں میاں نواز شریف کو اپنی ذاتی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ قصرِ صدارت کے آخری ایام میں، میں نے بی بی سی کا ایک تجزیہ پڑھا، جس نے میرے اندر ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کر دیا۔ بی بی سی نے کہا ''پاکستان میں قائداعظم کے بعد کوئی بھی حکمران باعزت رخصت نہیں ہوا‘‘ ... بس میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ رخصت ہوں گا تو قائداعظم کی طرح عزت سے ورنہ نہیں جائوں گا۔ میں نے ببانگِ دہل اعلان کردیا کہ جس دن میں غیر مقبول ہو گیا، اقتدار چھوڑ دوںگا۔ پھر جب بدنام زمانہ ''مواخذہ فیسٹیول‘‘ شروع ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ سایہ بھی میرا ساتھ چھوڑ رہا ہے۔ دستر خوانی ٹولے کے لب و لہجے میں تبدیلی آنے لگی اور وردی پرست طائفہ مجھے مستعفی ہونے کے مشورے دینے لگا۔ مجھے عزیزی شیخ رشید کی ایک پیش گوئی یاد آئی کہ برا وقت آنے پر نیب زدگان آنکھیں پھیر لیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سب سے پہلے خود اسی نابغے نے طوطا چشمی کی۔ درویشوں کو بھی اپنے پرمٹ کہیں اور سے ایشو ہوتے نظر آئے تو ان کے فتوے بھی لوٹے کی طرح گھوم گئے۔ دیدوں کا پانی خشک ہوا تو فارورڈ بلاکیے بھی میرے خلاف بیان بازی پر اتر آئے۔ پھر ایک دن مجھے کنڈولیزا رائس کے ایک بیان کی کٹنگ پیش کی گئی۔ اس کالی جادوگرنی نے کہا ''صدر نے ایمرجنسی سمیت بہت سی غلطیاں کیں، اب ہم نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ اب میں غیر مقبول ہو گیا ہوں۔ پس میں نے کوچہئِ رسوائی میں مزید ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور اقتدار پر تین حرف بھیجتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے ملک میں حکمرانوں کے غیر مقبول ہونے کا یہی پیمانہ ہے ورنہ عوام تو مجھے بھی روکتے رہ گئے تھے۔ یہی بات میں میاں نواز شریف کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ وہ مروجہ پیمانے پر غیر مقبول ہو چکے ہیں۔ جے آئی ٹی ان کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے، دیدوں کا پانی خشک ہو رہا ہے، آنکھیں پھر رہی ہیں، فارورڈ بلاکوں کی تیاریاں ہیں، پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں اور استعفوں کے مشورے زوروں پر ہیں۔ ایسے میں وہ عوامی حمایت پر بھروسہ کرنے کی بجائے زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے میری طرح نہ صرف فوراً مستعفی ہو جائیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد میں کشتی کا بادبان رضاکارانہ طور پر کسی ''مضبوط ہاتھ‘‘ میں دے دیں۔
چونکہ پاناما کیس کا فیصلہ عدالت نے محفوظ کر لیا ہے، لہٰذا میں اس پر ہرگز کوئی بات نہیں کروں گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ میں نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے اور کبھی ا ن کے کام میں مداخلت نہیں کی۔ میں فقط اپنے کتھارسس کی خاطر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان دنوں تاریخ اور حالات و واقعات کا بار بار عمیق مشاہدہ کرکے بڑبڑاتا ہوں۔ میں خود کلامی کے انداز میں خود کو سمجھاتا ہوں کہ جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو دفنانا، سلطان راہی کا گنڈاسہ دفنانے کے مترادف ہوگا۔ مجھے اس فلم کا وہ ڈائیلاگ اچھی طرح یاد ہے جب مولا جٹ سنگین حالات سے مجبور ہو کر زمین کھودتا ہے اور اپنا دفن شدہ گنڈاسہ نکال کر گرجتا ہے ''باہر آ اوئے گنڈاسیا، تیرے بغیر جٹ اَدھا رہ گیا سی‘‘ ... خدا اس ملک پر رحم کرے، مجھے وہم سا ہو گیا ہے کہ اگر ہم نے اپنے معروف زمینی حقائق مدِنظر نہ رکھے تو ملک ایک نازک دور سے نکل کر دوسرے نازک دور میں داخل ہو جائے گا اور ہمیں اس دریا کے بعد ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ باقی اگر دوبارہ مضبوط دور میں داخل ہونے کیلئے ملک و قوم کو میری قیادت کی ضرورت ہوئی تو میں نے اس سلسلے میں کبھی بخل سے کام لیا ہے اور نہ آئندہ لوں گا۔