ہمارا میزبان دوست مسکرا رہا تھا مگر اس زہر خندہ مسکراہٹ کے پیچھے شرمندگی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔ ہمارے استفسار پر اس نے تاسف سے کہا کہ کوئی بچہ ہمارے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ گیا ہے۔ اس مکافاتِ عمل پر محفل میں قہقہہ گونجا اور اپنے ماضی کی ایسی شرارتوں کا ذکر چل نکلا تو تادیر رکنے میں نہیں آیا مگر سچی بات ہے کہ اس دوران ہمارے اندر ایک بے نام سی خجالت کا احساس نمایاں رہا۔ ممکن ہے کہ کل ہم دوسروں کے گھروں کی گھنٹیاں نہ بجاتے تو آج خود ہمارے ساتھ بھی یہ حرکت نہ ہوتی۔
آج ہمیں اپنی پرانی شرارتیں موجودہ بین الاقوامی اور ملکی حالات دیکھ کر یاد آئی ہیں۔ امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے تناظر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان پر حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر اس نے ا ن دہشتگردوں کو پناہ دے رکھی ہے، جن کے خلاف امریکہ کی جنگ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستا ن نے رویہ نہ بدلا تو اس کی امداد کم اور نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر سکتے ہیں۔ نیز طالبان پر قابو نہ پایا گیا تو پاکستان کی حکومت کو بھی خطرہ ہو گا... آفریں ہے اس ''بین الاقوامی پُراسرار بابے‘‘ پر جس کی گرانقدر تربیت اور اربوں ڈالر کے ''انعامات‘‘ کے لالچ میں ہم نے کیسے کیسے ملکوں کی گھنٹیاں بجائیں اور مکافاتِ عمل کے اصول کے تحت اپنے گھر کو بھی تباہ کر لیا مگر بابا اب بھی ہم سے مطمئن نہیں۔ فراز ؔ کے دو شعر یاد آئے ہیں:
رفاقتوں میں پشیمانیاں تو ہوتی ہیں
کہ دوستوں سے بھی نادانیاں تو ہوتی ہیں
بس اس سبب سے کہ تجھ پر بہت بھروسہ تھا
گِلے نہ ہوں بھی تو حیرانیاں تو ہوتی ہیں
بد لحاظ تاریخ جو مرضی کہے مگر ہم نے سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوتے وقت کہا تھا کہ یہ اتحاد کمیونسٹ چین اور سوویت یونین کے گھروں کی گھنٹیاں بجانے کے لیے نہیں بنایا گیا۔ بڈبیر کا اڈہ امریکیوں کے حوالے کرتے وقت بھی ہمارا یہی موقف تھا۔ ''بابا جی‘‘ کی قیادت میں ہماری امن کی کوششوں کی تاریخ ایک کالم میں کیا سمائے گی بھلا؟ ہمارے مردِ مومن نے افغانستان میں لڑی جانے والی دو سپر طاقتوں کے مفادات کی جنگ میں ہمیں بابے کی شہ پر دھکیل دیا۔ ہم نے روس کی گھنٹی تو بجا دی مگر مکافاتِ عمل کے طور پر اپنے دامن میں چنگاریاں بھی بھر لیں۔ مردِ حق نے بابے کی قیادت اور ہدایات کی روشنی میں ملک میں جہادی کلچر کو فروغ دینا شروع کیا تو دور اندیش اصحابِِ درد چیخ اٹھے کہ یہ کلچر ہمارے گھر کی گھنٹیاں بجا دے گا مگر سوچ تبدیل نہ کی گئی اور آج ہم ناجائز اسلحے اور منشیات میں خود کفیل ہونے کے علاوہ انتہا پسندی، لاقانونیت اور قتل و غارت کی پُر خار راہوں کے مسافر ہیں۔ بعد ازاں آمرِ چہارم پرویز مشرف نے 9/11 کے بعد بابے کے ایسے ہی انعامات اور ہدایات کے تحت افغان حکومت کی گھنٹی بجانے پر کمر کس لی۔ ہم بابے کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ بن گئے اور جواباً اب تک اپنے ستر ہزار ہم وطنوں کی قربانی دے چکے ہیں‘ جبکہ اربوں روپے کی املاک کا نقصان الگ ہے۔ آج ہم بین الاقوامی بابے کے پے در پے احکامات کی تعمیل میں اس ''منزل‘‘ پر پہنچے ہیں کہ گلوبل ولیج کے نزدیک ہمارا معاشرہ فکر و دانش کی قلت ہی نہیں بلکہ مثبت ثقافتی و سماجی اقدار کے بحران کا بھی شکار ہے۔ ''صاحبِ کشف بزرگوار‘‘ نے ہمیں ایسی بے فیض مسافت کا مسافر بنا دیا ہے، جس میں پائوں ہی نہیں دل بھی تھکتا ہے۔
حیرت ہے کہ بابا ہم سے راضی پھر بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں طاقت و اختیار کی اس جنگ میں بابا خود سب سے بڑا فسادی ہے‘ جو اپنے مفادات کی خاطر ہمیں دوسروں کے گھروں کی گھنٹیاں بجانے کی ترغیب دیتا ہے تو دوسروں کو بھی ہمارے بارے میں ایسا ہی سبق دیتا ہے۔ آج ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے امریکی صدر کو بھرپور جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی۔ کاش ہم پہلے دن سے ایسا فیصلہ کر لیتے۔ تاہم اب ہمیں دنیا کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قربانیوں کو تسلیم کرانے سے زیادہ وہ وجوہات دور کرنے کی ضرورت ہے، جن کی بنا پر کبھی بھارت، کبھی ایران اور کبھی امریکہ ہمارے خلاف کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ تاریخ کی گلیو ں کے کئی دروازے متقاضی ہیں کہ ہمیں ان کے پاس رُک کر بہت کچھ سوچنا چاہیے۔
دوسری طرف اندرون ملک اپنے حالات پر نظر کریں تو آج نواز شریف ایک عدالتی فیصلے کے بعد وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو کر گھر بیٹھے ہیں۔ ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ ہو سکتا ہے‘ انہیں بھی ماضی کی اپنی کچھ ''شرارتوں‘‘ پر پشیمانی ہوتی ہو۔ نابالغ پن عمر کا ہو یا سیاسی، بلوغت کی سرحد پر پہنچ کر اپنی بچگانہ وارداتوں کا احساسِ زیاں تو ہوتا ہی ہے۔ سیاسی بلوغت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ سیاستدان سیاسی عمل کو باہم مل کر مضبوط کریں اور ایک دوسرے کی منتخب حکومتوں کی ٹانگیں نہ کھینچیں۔ جب 1990ء میں غلام اسحاق خان نے بے نظیر حکومت کی گھنٹی بجائی تھی تو انہیں دوسری طاقتوں کے علاوہ نواز شریف کی شہ بھی حاصل تھی۔ یہی عمل جب 1993ء میں نواز شریف کے ساتھ کیا گیا تو اسے بھی بے نظیر بھٹو کی حمایت حاصل تھی۔ بے نظیر کی دوسری حکومت کی گھنٹی فاروق لغاری نے بجائی تب بھی میاں صاحب ان کے ساتھ تھے۔ 1999ء میں نواز حکومت کو پرویز مشرف نے ختم کیا تو بھی جملہ سیاستدان اس خلافِ آئین اقدام کے خلاف متحد ہونے کی بجائے انتشار کا شکار تھے۔ حتیٰ کہ سیاستدانوں میں سیاسی بلوغت کا سفر شروع ہوا اور میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے مگر حقیقی پختگی ابھی بہت دور تھی۔ آج نواز شریف کو جس عدالت نے نااہل قرار دیا ہے کل وہ اسی عدالت میں آصف زرداری حکومت کے خلاف کالا کوٹ پہن کر پیش ہوئے تھے۔
ہم سوچتے ہیں کہ تاریخ کے ایسے دروازوں کے پاس سے گزرتے ہوئے میاں صاحب کے قدم ضرور رک جاتے ہوں گے۔ انہیں خیال آتا ہو گا کہ ''صاحبِ کشف اور کامل بابوں‘‘ کا آلہ کار بننے کی بجائے اگر سیاستدان ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تو آج جمہوری عمل کچے رستوں پر ڈگمگانے کی بجائے پختہ سڑک پر رواں ہوتا۔ اب میاں نواز شریف تو تاریخ سے سبق حاصل کر کے سیاسی بلوغت کے سفر پر چل پڑے ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ باقی سیاسی قیادت بشمول عمران خان اور آصف زرداری اس مسافت میں ان کا ہم سفر بننے پر تیار نہیں اور وہ بدستور ایک دوسرے کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے کے چلن پر کمر بستہ ہیں۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جس دن ہماری سیاسی قیادت سنجیدہ ہو گئی اور ایک ٹھوس متفقہ لائحہ عمل اختیار کرتے ہوئے جمہوریت کے در کی گھنٹی بجانے سے باز آ گئی، یہاں ایک خوشحال اور معتبر مملکت کی جانب سفر شروع ہو جائے گا۔
پس تمام سیاسی قیادت کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ کم از کم ایک دروازے کو معاف کر دیں اور جمہوریت کے در کی گھنٹی بجانے سے باز آ جائیں ورنہ ان کے ساتھ بھی ہمارے جیسا سلوک ہوتا رہے گا کہ جو بھی قصرِ اقتدار میں پہنچے گا، دوسرے انہی کی طرح اس کی گھنٹیاں بجاتے رہیں گے۔ پراسرار بابوں کا کاروبار چلتا رہے گا‘ اور سیاستدان باری باری دوسروں کی گھنٹیاں بجنے پر مٹھائیاں بانٹنے اور اپنے ساتھ ہاتھ ہونے پر ہاتھ ملتے رہیں گے۔ ملک بدستور عدم سیاسی شعور اور مثبت ثقافتی و سماجی اقدار کے بحران کا شکار رہے گا اور تاریخ اپنے ہی گھر کی گھنٹیاں بجا کر بھاگنے والوں پر ہنستی رہے گی (براہِ کرم اسے تھوکتی رہے گی نہ پڑھا جائے )۔