آج ہمارے ہاتھ لگنے والا جنرل نالج کا تیسرا پرچہ ملاحظہ فرمائیے۔
سوال: قلم سے جھوٹ لکھنے اور قلم سے ازار بند ڈالنے میں فرق بیان کریں۔
جواب: ہر دو افعال کے درمیان فرق کو ہم اس طرح واضح کر سکتے ہیں:
1۔ قلم سے جھوٹ لکھنا ایک مالیاتی جبکہ ازار بند ڈالنا غیر مالیاتی سرگرمی ہے، دوسرے الفاظ میں اول الذکر منافع بخش اور موخر الذکر غیر منافع بخش فعل ہے۔
2۔ قلم سے جھوٹ لکھنے کے لیے ضمیر سے چھٹکارا پانا لازمی ہے، جبکہ ازار بند ڈالنے کے لیے ایسی کوئی قدغن نہیں، یعنی زندہ ضمیر کے ساتھ بھی قلم سے ازار بند ڈالا جا سکتا ہے۔
3۔ جھوٹ لکھنے والا قلم معروف ہوتا ہے اور سامنے آ کر واردات کرتا ہے جبکہ ازار بند ڈالنے والا قلم غیر معروف اور نیفے (جہاں سے پولیس چرس برآمد کرتی ہے) میں چھپ کر اپنا کام دکھاتا ہے۔
4۔ قلم سے جھوٹ لکھنے کے لیے قلم کا من سیاہ ہونا ضروری ہے، یعنی اس کے اندر سیاہی کا ہونا لازمی ہے ، جبکہ ازار بند خالی قلم سے بھی ڈالا جا سکتا ہے ، جیسے وزارتیں خالی دماغ سے بھی چلائی جا سکتی ہیں۔
5۔ مروجہ معاشرتی اقدار کے مطابق جھوٹ لکھنے والا قلم معتبر اور قابل فروخت جبکہ دوسرا غیر معتبر ہے اور اسے کوئی نہیں خریدتا۔
6۔ قلم سے کمزور قسم کا ازار بند ڈالا جائے‘ یا اسے صحیح طریقے سے نہ ڈالا جائے تو صاحب لباس بھری محفل میں برہنہ ہو کر شرمندہ ہو سکتا ہے جبکہ قلم سے جھوٹ لکھنے والا پہلے ہی سب کے سامنے ننگا اور شرم پروف ہوتا ہے۔
نوٹ: کئی ممالک میں قلم کا تیسرا استعمال بھی رائج ہے ، یعنی اس سے سچ لکھنا۔ تاہم چونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں سچ لکھنے والے قلم کی کوئی وقعت نہیں ، لہٰذا نہ سوال میں اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے اور نہ ہی جواب میں پرچے کے صفحات اور وقت ضائع کیا گیا ہے ۔ ویسے بھی یہاں سچ لکھ کر کب کوئی امتحان پاس کیا جا سکتا ہے یا اس کے دام ملتے ہیں۔
سوال: مفکرین کی آرا کی روشنی میں شعور و آگہی کے فوائد بیان کریں؟
جواب: میری نظر سے آج تک شعور و آگہی کا ایک فائدہ بھی نہیں گزرا؛ البتہ نقصانات بہت دیکھے ہیں۔ مفکرین نے بھی شعور و آگہی کے مہلک اثرات پر ہی اپنے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جیسے :
پروین شاکر کا قول ہے ''آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا‘‘ حسن نثار صاحب نے کہا ''سوچنے والا صلیب پر ہوتا ہے اور جسے حالات کی سنگینی کا ادراک ہے ، اس کا جینا حرام ہے‘‘۔ ایک اور مفکر کا قولِ زر ہے '' آنکھیں اور کان نہ ہوں تو دماغ آسودہ رہتا ہے اور دماغ کو زیادہ کام کرنا پڑے تو جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے‘‘۔ صوفیہ بیدار کے مطابق ''شعور بڑھنے کا نقصان یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کے مدار سے غم دوراں کی طرف جا نکلتا ہے اور یہ مدار اتنا بڑا ہے کہ ذات کے دکھ کہیں دور رہ جاتے ہیں‘‘۔ مرد مومن ضیاء الحق نے آگہی کی وبا کے تباہ کن اثرات کو سیم و تھور سے تشبیہ دیتے ہوئے باقاعدہ دھمکی دی ''میں خود پسند دانشوروں کی طرف سے ملک کی نظریاتی سر زمین میں کسی قسم کی سیم و تھور برداشت نہ کروں گا‘‘ کسی مفکر کی یہ دلیل بھی بڑی مضبوط ہے ''دولے شاہ کے چوہے عقل مندوں کے مقابلے میں توانا تن و توش کے مالک ہوتے ہیں ‘‘ جناب عطاء الحق قاسمی کا قول ہے ''گھوڑا اس لیے طاقتور ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی لعنت سے پاک ہوتا
ہے‘‘۔ بہت سے دانشوروں کا مشترکہ فرمان ہے ''ہمیں مشاہیر اور مشائخ کی ضرورت ہے، سائنسدانوں کی نہیں‘‘ پس مفکرین کی آرا کی روشنی میں ثابت ہوا کہ ''عقل نہ ہووے ، تے موجاں ای موجاں ‘‘ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ :
آگہی کا نصاب رہنے دو
زندگی محو خواب رہنے دو
سوال: کھانے کے آداب پر مختصر نوٹ لکھیں ؟
جواب:کھانے کے آداب یہ ہیں کہ کھانا ہاتھ دھو کر کھانا چاہیے ۔ کچھ لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ ''کھانے‘‘ کے پیچھے ''ہاتھ دھو کر ‘‘ پڑ جانا چاہیے۔ کھانے کے درمیان میں پانی پینا بھی ضروری ہے ۔ ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ ''کھانے‘‘ کے درمیان میں وقفہ کرکے حج و عمرہ بھی کرنا چاہیے تاکہ پچھلے گناہ بخشوائے جا سکیں اور واپس آ کر کھانے کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جا سکے جہاں سے ٹوٹا تھا ۔ کھانے کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھی اس کے آداب میں شامل ہے ۔ کچھ لوگوں کو کھاتا دیکھ کر خیال آتا ہے کہ انہیں ''کھانے‘‘ کے اختتام پر استغفار بھی پڑھنا چاہیے ، شاید کہ بخشش ہو جائے۔
سوال: ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی کرنے، جعلی ادویات بنانے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کو آپ کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟ نیز مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا فارمولا بھی لکھیں۔
جواب: ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، جعلی ادویات اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے جیسے ''افعال کبیرہ‘‘ کو ہم جس زاویے سے بھی دیکھیں ، یہ ہماری زندگیوں کا جزو لاینفک نظر آتے ہیں ۔ ایک خاص زاویے سے تماشہ کریں تو یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ ضمیر چاہے کتنا ہی لاغر کیوں نہ ہو، اس کی موجودگی میں ایسے امور بجا لانا کارِ فرہاد سے بڑھ کر ہے ۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو افعال ہذا کے فاعل بظاہر نیک ، شریف اور خدا ترس نظر آتے ہیں تاکہ ''مفعولوں‘‘ کا اعتماد حاصل کیا جا سکے ۔ اگر فاعل حاجی صاحب ہو تو نہلے پہ دہلا ہے ۔ تاہم دودھ میں پانی ملانے کے لیے یہ شرائط لازمی نہیں ، فاعل کا گوالا یا گجر ہونا کافی ہے ۔ لکڑی کے برادے کا چائے اور اینٹوں کا پسنے کے بعد مرچوں میں شامل ہو کر اپنی گراں قدر خدمات انجام دینا اور ذائقوں کو نت نئی جہات سے روشناس کرانا ان افعال جمیلہ کی ادنیٰ ترین مثالیں ہیں ۔ کسی نامعلوم دانشور نے افعال متذکرہ کو ذرا مختلف زاویے سے دیکھتے ہوئے واصف علی واصف کے قول ''یتیم کا مال کھانے والا ہزاروں یتیم خانے بنا کر بھی سکون نہیں پائے گا ‘‘ کی زمین میں کہا ہے کہ ''ملاوٹ و ذخیرہ اندوزی کرنے، جعلی ادویات بنانے اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والا چاہے سو حج بھی کر لے... (اس سے آگے ٹیسٹ پیپر کا صفحہ پھٹا ہوا ہے ۔ گمان اغلب ہے کہ آگے مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے کوکنگ آئل بنانے کا فارمولا لکھا ہوا تھا ، جسے کسی نے پھاڑ کر محفوظ کر لیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔ کم بخت جلد بازی میں نامعلوم دانشور کا آدھا قول بھی پھاڑ کر لے گیا)۔
سوال: اس شعر کی تشریح کریں۔
ہمار ے پائوں ہی الٹے تھے، فقط چلنے سے کیا ہوتا ہے
بہت آگے گئے لیکن، بہت پیچھے نکل آئے
جواب: اس قسم کے واہیات اشعار کی تشریح سے امیدوار امتحان میں فیل ہو سکتا ہے ۔ لہٰذا معذرت۔
سوال: کھانے کے آداب پر مختصر نوٹ لکھیں ؟
جواب:کھانے کے آداب یہ ہیں کہ کھانا ہاتھ دھو کر کھانا چاہیے ۔ کچھ لوگوں نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ ''کھانے‘‘ کے پیچھے ''ہاتھ دھو کر ‘‘ پڑ جانا چاہیے۔ کھانے کے درمیان میں پانی پینا بھی ضروری ہے ۔ ایک مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ ''کھانے‘‘ کے درمیان میں وقفہ کرکے حج و عمرہ بھی کرنا چاہیے تاکہ پچھلے گناہ بخشوائے جا سکیں اور واپس آ کر کھانے کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جا سکے جہاں سے ٹوٹا تھا ۔ کھانے کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا بھی اس کے آداب میں شامل ہے ۔ کچھ لوگوں کو کھاتا دیکھ کر خیال آتا ہے کہ انہیں ''کھانے‘‘ کے اختتام پر استغفار بھی پڑھنا چاہیے ، شاید کہ بخشش ہو جائے۔