خدا غریق رحمت کرے، ہمارے خاندان کا شجرہ نسب بتاتا ہے کہ ڈیڑھ صدی قبل اس نسل میں ایک ''اولوالعزم‘‘ ہستی ہو گزری ہے۔ ہمیں ان کی قبر کا تو معلوم نہیں، البتہ قبلہ کی حیات و خدمات کی تاریخ بلاتعطل سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی آ رہی ہیں۔ آپ اپنے بوسیدہ خیالات، بے لچک اور جھگڑالو طبیعت، انتہا پسندی، ہٹ دھرمی اور دوسروں کو شک کی نظروں سے دیکھنے جیسی بے شمار خصوصیات کی بنا پر گائوں میں ''یکڑی‘‘ کے لقب سے سرفراز کیے گئے ۔ ہماری مقامی پنجابی میں یکڑی کا لفظ انتہائی ضدی اور بے وقوف کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اختلافِ رائے برداشت کرنا یکڑی کی سرشت میں نہیں تھا۔ انہیں یہ وہم بھی تھا کہ پورا گائوں ان کا دشمن ہے۔ آپ کی مضبوط شناخت یہ تھی کہ آپ کی کوئی مثبت شناخت نہیں تھی۔
بابا یکڑی کی عادات و خصائل اور افکار کا ایک کالم میں احاطہ ممکن نہیں۔ ہم ان کی زندگی کے فقط دو سبق آموز واقعات سنا کر آپ سے اجازت چاہیں گے۔ دیہات کے کچے گھروں میں واحد نیم پختہ کمرہ ''ماہل‘‘ (محل) کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی حیثیت کسی مقدس دربار جیسی ہے۔ اس میں داخل ہوکر بچے دھما چوکڑی مچا سکتے ہیں، نہ ہر ایرا غیرا منہ اٹھائے گھس سکتا ہے۔ ماہل میں سفید چادروں سے مزین رنگین پایوں والے پلنگ، پیتل کے منقش برتنوں اور پردیسیوں اور رفتگان کی تصویروں سے سجی کانس اور برآمدے کی شکل میں لکڑی سے بنائی گئی پڑچھتی یا گھڑونچی نصب ہوتی ہے، جس کے اندر لوہے کے بکسے اور اس کے اوپر بستر رکھتے جاتے ہیں۔
اب یہ ثقافت متروک ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جو آپ اہلِ شہر‘ پرانے کاریگروں کے ہاتھوں خوبصورت نقش و نگار بنے لکڑی کے بھاری دروازے مہنگے داموں خرید کر اپنے لگژری گھروں کی رونق بڑھاتے ہیں، یہ انہی ماہلوں سے اتارے گئے ہوتے ہیں۔ البتہ یہ دروازے سیمنٹ اور خوبصورت ٹائلوں کے درمیان نصب ہوکر خود کو ''مِس فٹ‘‘ سا محسوس کرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ وہ شہروں میں جا کر اپنے فطری مقام یعنی گرمالے کے ذریعے‘ کچی مٹی سے لیپ کیے گئے فرش اور دیواروں کی خوشبو اور ماہل کی منڈیر پر بیٹھے کوئوں کی آوازوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تاہم ہماری کچی مٹی، دیواروں، دروازوں، کانسوں اور گھڑونچیوں کی زبان اور محسوسات کو سمجھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ہم دیہاتیوں اور ہماری پرانی ثقافت کی ان اشیاء کے درمیان جذباتی تعلق سمجھنا بھی آسان نہیں۔ آپ ہم پینڈوئوں کی غیر ترقی پسند سوچ کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آج بھی دور دراز کسی پسماندہ گائوں میں ہم ماہل کی کانس سے پیتل کی منقش پلیٹ اترتی دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ امجد اسلام امجد کی معشوق کی طرح‘ دل میں اتر رہی ہے۔
آمدم برسرِ مطلب، خدا بخشے کبھی بابا یکڑی نے ماہل میں تشریف فرما ہوکر مونگ پھلی تناول فرمائی اور چھلکے فرش پر پھینکتے گئے۔ بیگم صاحبہ نے دیکھا تو ماہل کی اس بے حرمتی پر سخت برہم ہوئیں اور اپنے مجازی خدا کو بے نقط سنا ڈالیں۔ باجرے کی رُت تھی، باجرے کے سٹے کھلیانوں میں کھِلار کر ان کے اوپر جانوروں کو چلایا جاتا اور اس اسلوب سے دانے الگ کیے جاتے تھے۔ برہمی ہٰذا سے بابا یکڑی کی عزت نفس کو شدید ٹھیس پہنچی۔ آپ نے باجرے کے سٹے ماہل کے فرش پر پھیلائے اور کسی طرح دو عدد ڈنگروں کے ساتھ خود بھی اندر گھس گئے۔ جب ''گاہ‘‘ مکمل ہوا تو آپ فصل کو اسی حالت میں فرش پر چھوڑ کر باہر آئے اور اہلیہ محترمہ کو مخاطب کر کے کہا کہ لو اب تمہارا ماہل صاف ہو گیا ہے۔
سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی تاریخ میں ایک اور واقعہ کچھ یوں ملتا ہے کہ ایک دفعہ بدقسمتی سے بابا یکڑی کا فرزندِ ارجمند چراگاہ میں سوئی دھاگا ساتھ لے گیا۔ تب ہر کسی کے پاس دھوتی اور کرتے پر مشتمل ایک ہی جوڑا ہوتا تھا، جو گھر کی خواتین سوئی دھاگے کی مدد سے ہاتھوںسے سیتی تھیں۔ یاد آیا، ہمارے بچپن میں جیا جی (تایا جان) نے نزدیکی گائوں سے بھینس خریدی۔ نئے مالک کے گھر لا کر بھینس کو دوہنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر اس نے دودھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے سابقہ مالک کو بلایا گیا تو اس نے کافی سوچ بچار کے بعد کہا کہ میرے پاس سالہا سال سے کالے رنگ کا یہی ایک کرتا ہے، شاید بھینس اس سے مانوس ہو گئی ہے۔ جاٹ نے اپنا کرتا اتار کر تایا جان کو دیا کہ یہ پہن کر ٹرائی کرو۔ کالا کرتا دیکھتے ہی بھینس رام ہو گئی اور اس نے فوراً دودھ دے دیا۔ کیا وضع دار لوگ تھے کہ جاٹ نے کرتا ہمیں عطیہ کیا اور فقط ایک دھوتی میں ملبوس پیدل اپنے گائوں کی طرف روانہ ہو گیا۔ تب لوگوں کے پاس ہینڈ میڈ جوتوں کا بھی ایک ہی جوڑا ہوتا تھا۔ دور دراز کا پیدل سفر درپیش ہوتا تو خواتین و حضرات جوتے اتار کر سر پر رکھ لیتے تاکہ وہ گھِس نہ جائیں۔
بات پھرموضوع سے ہٹ گئی۔ سردیوں میں دیہاتی دھوتی کرتے کے علاوہ اپنی بھیڑوں کی اون سے گائوں کی دیسی کھڈی پر بُنی لوئی (گرم چادر) کی عیاشی بھی افورڈ کر لیتے تھے۔ تاہم بنیان، سویٹر یا جرابوں جیسی اشیاء کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ بابا یکڑی کے صاحبزادے کی پرانی لوئی پھٹ گئی۔ وہ صبح بھیڑ بکریوں کا ریوڑ چرانے نکلا تو والدہ محترمہ سے مانگ کر‘ سوئی دھاگہ ساتھ لے گیا کہ دن کو چراگاہ میں وقت نکال کر لوئی سی لے گا۔ اگرچہ والدہ کے دل میں اپنے خاوند محترم کے حوالے سے خاصے تحفظات تھے مگر وہ بیٹے کو انکار نہ کر سکیں۔ نالائق فرزند جنگل میں ریت پر بیٹھا دھوپ سینکتے لوئی کی رفو گری میں مصروف تھا کہ اچانک سوئی اس کے ہاتھ سے گر کر ریت میں گم ہو گئی۔ وہ شام تک خاک اڑاتا رہا مگر وہ جو فرمایا گیا ہے کہ ''مٹی نہ پھرول فریداؔ، یار گواچے نئیں لبھدے‘‘ ... سوئی نے نہ ملنا تھا، سو نہ ملی۔
شام ڈھلے چرواہا گھر آیا تو ماں جی نے فوراً ہی سوئی کا تقاضا کر دیا۔ نوجوان نے شرم سے سر جھکا لیا۔ جہاندیدہ خاتون سمجھ گئیں کہ نااہل فرزند ناقابل تلافی نقصان کر آیا ہے۔ ا ب گمشدگی کے اس واقعہ کو یکڑی سے مخفی رکھنا لازم تھا مگر اتفاق سے بابا یکڑی نے یہ افسوسناک منظر دیکھ لیا۔ حسب توقع وہ اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر ماں بیٹے پر برس پڑے اور دشنام طرازی اور طعنہ زنی کا ایک بازار گرم کیا کہ دونوں کی طبیعت ہری ہو گئی۔ زوجہ نے انہیں تسلی دی کہ وہ شہر جاکر نئی سوئی خرید لائیں گی مگر ان کا پارہ کسی صورت نیچے آنے کو تیار نہیں تھا۔ بعد ازاں مرحوم کچھ ٹھنڈے ہوئے تو زوجہ اور فرزندسے کہا کہ وہ ڈنر کر کے سو جائیں، اللہ نے چاہا تو صبح سوئی مل جائے گی۔ ان کے لہجے میں عزمِ صمیم جھلک رہا تھا۔
اگلی صبح بابا یکڑی نے ضروری ساز و سامان کے علاوہ چھلنی اٹھائی اور چراگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے بیگم کو حکم دیا کہ دوپہر کو ان کا لنچ وہیں پہنچا دیا جائے۔ جنگل میں پہنچ کر بابا جی نے بیٹے کو جائے وقوعہ کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا۔ نشاندہی کے بعد آپ نے جائے واردات کے گرد اپنی ڈانگ سے بڑا سا دائرہ بنایا اور بیٹے کو ریوڑ چرانے کا کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے۔ سوئی تلاش کرنے کے لیے چھلنی سے ریت چھانتے دوپہر ہو گئی۔ آپ نے لسی اور باجرے کی روٹی کا لنچ کیا اور ذرا دیر سستا کر دوبارہ اپنے مشن میں جُت گئے ۔ کہتے ہیں کہ شام کے سمے جب سورج ڈھل رہا تھا تو بابا یکڑی گائوں کی طرف آنے والے کچے رستے پر دھول اڑاتے نمودار ہوئے۔ گھر پہنچ کر انہوں نے سوئی زوجہ کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا کہ اب اسے سنبھال کر رکھنا، ایسی اہم چیزیں بچوں کے ہاتھ میں نہیں دیتے۔
بابا یکڑی کی زندگی کا اجمالی سا جائزہ ہم لے چکے۔ ویسے کیا خیال ہے، عادات و خصائل میں ہم لوگ بھی بابا یکڑی جیسے نہیں ہوتے جا رہے؟... اس پر آئندہ بات کریں گے ۔