پار درختاں دُھپ سویرے… (1)

شمالی پنجاب کے اس پسماندہ گائوں میں جب ہم کمپیوٹر پر کالم کمپوز کرکے اخبار کو ای میل کرتے ہیں، ڈش انٹینا کی مدد سے یورپ یا آسٹریلیا کا کوئی چینل دیکھتے ہیں، کانفرنس کال پر بیک وقت قاہرہ اور نیویارک میں بات کرتے ہیں، آئی فون پر انگلی کی ایک ٹچ سے پانامہ کی نہر سے لے کر فجی کے جزیروں تک دنیا کو اپنے سامنے پاتے ہیں، یہاں کی کوئی ویڈیو بنا کر اسی لمحے واٹس ایپ پر افریقہ میں اپنے کسی پیارے کو بھیجتے ہیں‘ یا زندگی سے مایوس مریض کو اسلام آباد کے کسی پرائیویٹ ہسپتال سے جدید علاج معالجہ کے بعد واپس آ کر روزمرہ کے کام کرتے دیکھتے ہیں... تو خیال آتا ہے کہ اہل مغرب عالم اسلام کے خلاف سازشوں کی اپنی گوناگوں مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر علم و تحقیق اور ایجادات پر ضرور صرف کرتے ہیں۔
ہو سکتا ہے یہ آنجہانی سٹیفن ہاکنگ کی سائنسی پیش گوئیوں کی طرح ہوائی باتیں ہوں مگر سچی بات ہے کہ ہم مغربی ماہرین کی ''دی سمارٹ تھنگز فیوچر لیونگ‘‘ نامی رپورٹ پڑھ کر دم بخود رہ گئے۔ رپورٹ میں آنے والی صدی کا نقشہ کچھ یوں کھینچا گیا ہے کہ تب تھری ڈی پرنٹڈ گھر، زیر آب شہر اور موجودہ فلک بوس عمارتوں سے کہیں زیادہ بلند عمارتیں حقیقت بن جائیں گی۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگلے سو برس کے دوران زیر زمین 25 منزلہ عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور زیر آب شہر وجود میں آئیں گے، جنہیں ''ببل سٹی‘‘ کہا جائے گا۔ لوگوں کے پاس ذاتی ڈرون طیارے ہوں گے، جن کی مدد سے وہ نقل و حرکت کریں گے اور دنیا بھر کی سیر کر سکیں گے۔ گھروں میں موجود فرنیچر تھری ڈی پرنٹڈ ہو گا جبکہ گھروں کی نقل اور ساخت کو بھی پرنٹ کیا جا سکے گا۔ ان ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگلی صدی میں ہم اپنے پسندیدہ شیفس کی ڈشیں ڈائون لوڈ کرکے پرنٹ کرنے کے اہل ہو جائیں گے، جو چند لمحوں میں کھانے کے قابل ہوں گی۔ اس کے علاوہ چاند اور مریخ پر آباد کاری بھی ہو جائے گی اور خلا میں جانے کے لیے باقاعدگی سے کمرشل فلائٹس بھی روانہ ہوں گی۔ نیز گھروں کی دیواریں ایل ای ڈی سکینرز پر مشتمل ہوں گی، جنہیں موڈ کے مطابق تبدیل کیا اور سجایا جا سکے گا۔ 
اس رپورٹ کی صحت پر ہمیں کافی تحفظات ہیں مگر ساتھ ہی ڈر بھی ہے کہ جس دارالکفار کی صنعتی ترقی اور سائنسی ٹیکنالوجی نے زمین کی طنابیں کھینچ کر رکھ دی ہیں اور صدیوں کے فاصلے لمحو ں میں طے ہونے لگے ہیں، جن کی انفارمیشن ٹیکنالوجی پوری دنیا کے علوم اور تاریخ کو سمیٹ کر انٹرنیٹ پر لے آئی ہے اور ہر کسی کو ہر لمحہ دنیا بھر سے رابطہ میسر ہے، جن کی سائنس نے انسانی جسم کے ہر خلیے، اس کی ساخت کے ہر ریشے اور اس کی بافت کے ہر گوشے کو بے نقاب کر دیا ہے، جن کی ٹیکنالوجی نے ہر انسان پر کائنات کے اسرار و رموز پر ناقابل یقین تحقیق کے در وَا کر دیئے ہیں اور جنہوں نے اپنے جدید علوم کی بدولت فطرت کی ان قوتوں کو بھی زیر پا کر لیا ہے جو ماضی میں انسان کے لیے ناقابل فہم معمہ تھیں، ان سے کیا بعید کہ آئندہ صدی میں یہ سب کچھ بھی کر گزریں۔
ہمارے تحفظات اپنی جگہ لیکن اگر ہم آج سے سو برس قبل کی اپنی ''بے آب و گیاہ‘‘ زندگی اور موجودہ دور کی سہولتوں کا تقابل کریں تو ان سائنسی پیشگوئیوں کے درست ہونے کے خدشات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے ہمارے آبائواجداد، جن کے سفر کے لیے فقط ان کے اپنے پائوں یا گھوڑے اور خچر ہی دستیاب تھے، اگر آج کے سیٹلائٹ عہد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے یہاں آ سکیں تو حیرت سے دوبارہ فوت ہو جائیں۔ کیا مہینوں اور سالوں کا باپیادہ یا بحری جہازوں کا سفر کرکے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے والے سوچ سکتے تھے کہ ان کے بچے چارٹرڈ فلائٹس سے چند گھنٹوں میں مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں اپنے بچوں کے نکاح پڑھوا کر واپس بھی آ جائیں گے یا لنچ دبئی اور ڈنر کراچی میں کریں گے؟ رفتگان کو چھوڑئیے، کیا خود ہم لوگ چند برس قبل موبائل فون، آئی پیڈ، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹاگرام جیسی محیرالعقول اشیاء کا تصور بھی کر سکتے تھے؟ 
مالک حقیقی بہتر اور خوب جانتا ہے مگر حالات و واقعات کی روشنی میں تو آنکھیں اور کان رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے سو برس بعد کی اس حیرت انگیز زندگی کو جھٹلانا خاصے دل گردے کا کام ہے۔ جو غیر مسلم ہماری خدمت کے لیے عینک اور بال پوائنٹ سے لے کر لائف سیونگ ڈرگز، بائیسکل، موٹر سائیکل، موٹر کار، ٹرین، جہاز، بجلی، فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ، لائوڈ سپیکر، فریج، پنکھا، اے سی، سلائی مشین، واشنگ مشین، فائر بریگیڈ اور ایمبولینس تک لاتعداد چیزیں ایجاد کر سکتے ہیں، جو اپنے تاریک دور سے نکل کر جمہوریت، مساوات، شخصی آزادیوں، رواداری اور قانون کی حکمرانی کا معتبر نظام کامیابی سے متعارف کرا کے قابل تقلید وسیع النظر سماج قائم کر سکتے ہیں، کیا عجب وہ کائنات کی وسعتوں اور سمندر کی تہوں کو چیر کر شہر بھی آباد کر دکھائیں۔ آج اگر ناسا خلا میں 13 ارب 40 کروڑ نوری سال دور واقع جی این زیڈ 11 نامی کہکشاں کی تصاویر جاری کر سکتا ہے، امریکی ماہرین فلکیات نظام شمسی کا 9واں سیارہ دریافت کر سکتے ہیں، خلا میں عالمی سپیس سٹیشن میں پھو ل کھلا سکتے ہیں، ان کا خلائی جہاز 4 ارب 70 کروڑ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پلوٹو کو چھو سکتا ہے، ان کے سائنسدان اپنی مریخ گاڑی کیوروسٹی کی لیبارٹری میں مریخ کے ''کمبرلینڈ‘‘ پتھروں کا زمین پر بیٹھ کر تجزیہ کر سکتے ہیں کہ یہ اربوں سال پہلے پانی کی جھیل میں پڑے تھے، قتالہ مغرب کے ماہرین فلکیات اور سائنسدان تحقیق سے زمین جیسے 8.8 ارب سیاروں کا ''گولڈی لاک زون‘‘ دریافت کر سکتے ہیں، اپنے خلائی روبوٹ زمین سے کروڑوں میل دور دمدار ستاروں پر اتار سکتے ہیں، اپنے خلائی سٹیشن سے اس کے مدار پر دنیا بھر میں سوا چار کروڑ طالب علموں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، خلا میں 180 سے زائد مرتبہ چہل قدمیاں کر سکتے ہیں، سوچنے والی مشینیں بنا سکتے ہیں، چار سالہ بچے کو مصنوعی پتہ لگا سکتے ہیں اور ماں کے پیٹ میں بچے کے دل کا آپریشن کر سکتے ہیں تو سو برس بعد ان کی طرف سے 3D پرنٹڈ گھر، چاند اور مریخ پر انسانی آبادکاری اور زیر آب شہر بسانے جیسے ''مافوق الفطرت‘‘ کام بھی کر دکھانے کے خدشات بے بنیاد قرار نہیں دیئے جا سکتے۔ 
یہاں پر ایک وضاحت ضروری ہے کہ یہ اغیار کی سو سال بعد کی دنیا کا نقشہ ہے۔ ہماری دنیا آج بھی ان سے مختلف ہے اور اگلی صدی میں بھی وکھری ہو گی۔ ہم نے اپنی روایات سے بغاوت کرتے ہوئے ذرا غوروفکر کیا ہے تو سو سال بعد کی اپنی دنیا کا بھی شاندار سا خاکہ سامنے آ گیا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ سو سال بعد ہماری دنیا کے پارسا بزرگ گناہگاروںکی دنیا کی ایجاد سے مستفید ہو کر اپنی پسندیدہ ڈشیں ڈائون لوڈ کرکے تناول فرماتے ہوئے ان کے معاشروں کے اندر سے کھوکھلا ہونے اور کسی بھی وقت دھڑام سے زمین بوس ہونے کی خوشخبریاں سنا رہے ہوں گے۔ ہماری عاجزانہ سی پیش گوئی ہے کہ اگلی صدی میں جس دن زمین اور اجرام فلکی کے درمیان فاصلوں کی پیمائش کرنے والے مریخ پر پہلی اینٹ لگائیں گے، اسی دن طولِ شب فراق ماپنے والے اپنے ہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے غور شروع کر دیں گے۔ جب وہ سٹیفن ہاکنگ کے زیر استعمال کمپیوٹر بیسڈ کمیونیکیشن کا اس سے بھی بڑا عقل شکن سسٹم متعارف کرائیں گے، ہم دشنام طرازیوں، الزامات اور گالیوں کا حیرت انگیز نیا سسٹم کامیابی سے چلا رہے ہوں گے۔ وہ کائنات کے اسرار و رموز، وقت اور بلیک ہولز سے متعلق جدید سائنسی نظریات پیش کر رہے ہوں گے اور ہم مفروضے گھڑ رہے ہوں گے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں