اور رعایا یتیم ہو گئی

یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کچھ تاریخیں پھٹے اوراق کی صورت کوڑے کے ڈھیروں ہی سے کیوں دستیاب ہوتی ہیں؟ ہمیں بھی یہ ورق ایسے ہی ایک مقام سے ملا ہے۔ یہ تاریخ کی کسی نامعلوم کتاب کا ایسا ورق ہے، جو کتاب ہٰذا سے پھٹ کر علیحدہ ہو گیا۔ اس مناسبت سے آپ اسے تاریخ کا پھٹا ورق بھی کہہ سکتے ہیں۔ دروغ بر گردن راوی، ہمیں کسی نے بتایا ہے کہ اگر اس قماش کی تاریخ کی کتابیں صحیح حالت میں بھی مل جائیں تو ان میں سوکھے ہوئے پھول نہیں، زہر میں بجھے کانٹے ملتے ہیں، جنہیں آئندہ کی نسلیں مسلسل چنتی رہتی ہیں۔ ورق مذکور پر چونکہ ملک کا نام اور سن وغیرہ درج نہیں، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کس دور یا کس دیس کی تاریخ کوڑے دان کی نذر ہوئی ہے۔ البتہ ورق کے دونوں اطراف صفحہ نمبر419 اور 420 جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ بہرحال ورق بڑا دلچسپ ہے۔ لکھا ہے: 
''جیسا کہ پچھلے ابواب میں تفصیلاً ذکر ہوا، اس سلطنت میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں تاہم وسائل کی فراوانی اور اشیائے ضروریہ کی ارزانی نے اس ناہنجار قوم کو غافل کر دیا اور وہ لوگ عیاشیوں، لذت پرستیوں اور گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ اس نہلے پہ دہلا یہ پڑا کہ انہیں ایک مداری سا حکمران میسر آ گیا، جس نے پوری قوم میں جمہوریت کا ابلیسی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔ قریب تھا کہ ان پر عذاب نازل ہوتا اور وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے کہ اچانک آسمان سے جذبۂ خیر و فلاح سے سرشار ایک بغیر پروں والا فرشتہ نازل ہوا اور اس نے کوڑوں کی خوفناک شاں شاں میں سب کا قبلہ درست کرکے رکھ دیا۔ وہ جمہوریت اور آئین کے اسپ تازی کو لگام دے کر شمشیر کے مینڈیٹ کے زور پر خود مسند خلافت پر سوار ہو گیا‘ اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں خرد کی جگہ جنوں کو فروغ دینے پر کمر کس لی۔
اس پرہیزگار بزرگ نے معاشرے کو اخلاقیات کی نئی نئی جہات سے روشناس کرایا‘ اور بد کردار قوم کا قبلہ درست کرنے کی خاطر سخت فیصلے کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ رعایا پر علم و ادب کے دروازے مقفل کر دیئے گئے اور شعور و آگہی سیم و تھور اور جدید تحقیق کفر قرار پائی، تاکہ دنیا میں قوم کو باعزت مقام دلایا جا سکے۔ عوام کی دنیاوی اور اُخروی زندگیاں سنوارنے کے لیے تاریخ، فنون لطیفہ، کلچر، فکر و فلسفہ، معقولیت اور مقصدیت کے تمام رستے بند کر دیئے گئے اور فقط مردِ مومن کا وضع کردہ صراطِ مستقیم کھلا چھوڑا گیا، جس کے کانٹوں کی خوشبو رعایا کی روحوں کو معطر کر گئی۔ اس نے رعایا کے سفلی جذبات کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک عدد آرڈیننس جاری کیا‘ اور رعایا جو دنیاوی وسائل سے پہلے ہی بہرہ مند تھی، ایمان کی دولت سے بھی مالا مال ہو گئی۔ مستند روایات سے ثابت ہے کہ اس دور میں کسی بھی کم بخت کو گلچھرے اڑانے کی اجازت نہ تھی۔ غیر محرم تو دور کی بات ہے، میاں بیوی سے بھی جا بجا پولیس ناکوں پر نکاح نامے طلب کیے جاتے اور انہیں سر عام گھومنے جیسے سنگین جرم کی پاداش میں جیل یاترا کرا کے ان کے اخلاق درست کیے جاتے۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ جو بھی حکمران کی خوبصورت آنکھوں سے بچ نکلتا ہے، ان ناکوں پر شرم سے ڈوب جاتا ہے بلکہ ڈوب مرتا ہے۔ اس مرد مومن نے اخلاقیات کا ایسا کڑا نظام نافذ کیا کہ دوپٹہ اوڑھے بغیر خاتون نیوز کاسٹر کو بھی جھوٹ بولنے کی اجازت نہ تھی۔ 
اس صالح نے اپنے سنہرے دور میں جاہل عوام کے اندر کینسر کی طرح پھیلتے جمہوریت کے مرضِ کہن کا شافی علاج کیا۔ اس نے جمہوریت کے خانہ خراب باب کے آگے بند باندھا اور اس کا بندوبست دوامی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اس کارِ خیر کے لیے اس نے شر پسندوں یعنی جمہوریت پسندوں کے خلاف کوڑوں، جیلوں اور پھانسیوں کا بے دریغ استعمال کیا، حتیٰ کہ اس مداری رہنما کو بھی پھانسی چڑھا دیا جو قوم کے اندر یہ خطرناک عارضہ پھیلانے کا مرتکب ہوا تھا۔ تاریخ کی کچھ کتابوں میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ مداری ملک کا مقبول ترین عوامی رہنما اور پہلا منتخب وزیر اعظم تھا، جو دار پہ جھول کر اپنے قاتلوں کے چہروں پر کبھی نہ اترنے والی کالک مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک رنگ باز شخص تھا اور اس کے قاتلوں کے ارفع چہروں پر فقط نور ہی پھیل سکتا ہے، کالک کی وہاں کوئی گنجائش نہیں۔
وہ صالح ہشت پہلو شخصیت کا مالک تھا۔ جلاد مگر حلیم طبع، کوڑے باز مگر عجز و انکسار کا پیکر، شقی القلب مگر نیکوکار، ریاکار مگر کھرا۔ سلطنت میں انڈسٹری پہلے ہی عروج پر تھی، مگر اس مرد کے بچے نے اسی پر اکتفا نہ کیا اور ''ہیروئن انڈسٹری‘‘ اور ''کلاشنکوف انڈسٹری‘‘ متعارف کراکے ملک بھر میں ان کا جال بچھا دیا، جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ نیز ملکی وقار جو پہلے ہی آسمان سے باتیں کر رہا تھا، ساتویں آسمان پر جا پہنچا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے اس دور میں قانونی اسلحہ رکھنے پر سخت پابندی تھی، البتہ غیرقانونی کلاشنکوف کے استعمال یا بم دھماکے کرنے پر کوئی قدغن نہ تھی۔ بم دھماکوں جیسے صدقہ جاریہ کی خاطر اس نے ایسی دور رس پالیسی تشکیل دی کہ آج تک کی نسلیں اس سے مستفید ہو رہی ہیں‘ اور اس کی ضیا کی تابکاری سے لطف اٹھا رہی ہیں۔ خلیفہ نے نہ صرف قوم کو فرقہ واریت کی لازوال بہار کا تحفہ دیا بلکہ رعایا کی بھلائی کے لیے نفرت کی نقرئی کرنوں سے منور ہر وہ قدم اٹھایا، جس سے ملی یکجہتی جیسی خرافات کی بیخ کنی ممکن ہو سکے۔ 
اس مردِ صالح نے سلطانیٔ جمہور کو نکیل ڈال کر سیاسی جماعتوں ایسی بدعت پر پابندی لگائی تو قوم کا درد رکھنے والے تحریکِ بحالیٔ آمریت کے صالحین کرام اور اصفیا اس کی حمایت میں جوق در جوق نکل آئے اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان طیب طبیعتوں کو یہ دور بڑا راس آیا۔ امیرالصالحین انہیںاپنی معیت میں لے کر جہادی سفر کی انجانی منزلوں کے ان دیکھے رستوں پر رواں دواں ہو گیا اور گناہگار رعایا کو بھی ساتھ ہانک لیا تاکہ ان کی بھی بخشش کا کچھ ساماں کیا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ جہاد کی برکتوں سے ڈالروں کی گنگا بہہ نکلی اور بہت سے نیکوکاروں نے اس میں خوب ہاتھ دھوئے۔ تاہم اس الزام کی تائید میں کوئی مستند روایت یا ثبوت دستیاب نہیں، البتہ اس گنگا میں اشنان کرنے کے ٹھوس شواہد جلیل القدر درویشوں کی لگژری گاڑیوں، بنگلوں، جائیدادوں اور کاروباروں کی صورت میں جا بجا ملتے ہیں۔ گویا بندہ ہائے درہم و دینار جہاد کے صدقے فقیران ڈالر بھی ہو گئے۔ 
باغی اور شورش پسند یعنی جمہوریت کے خوگر اتنے ڈھیٹ عناصر تھے کہ انہوں نے اصلاحِ احوال کے اس تاریخی دور میں بھی شیشے سے پتھر توڑنے کی سعیٔ لاحاصل جاری رکھی۔ وہ کوڑوں کی ٹکٹکیوں اور پھانسی کے پھندوں پر لٹکتے ہوئے بھی آئین، جمہوریت اور بنیادی حقوق کی بحالی اور انتخابات کرانے جیسے غیر اخلاقی مطالبات کرتے رہے‘ مگر مردِ مومن کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور اس نے جیتے جی ان بدعتوں کو کبھی سر نہ اٹھانے دیا۔ کئی مؤرخین نے اس دور کو تاریک اور آسیب زدہ بھی لکھا ہے، جس کی غلط تشریح نے بہت ساری غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ درحقیقت اس سنہرے دور میں پہلی دفعہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ متعارف کرائی گئی، جس کی وجہ سے تاریکی چھائی رہتی اور لوگوں کو اندھیرے میں آسیب نظر آتے تھے۔ محض اس بنا پر مؤرخین اسے تاریک اور آسیب زدہ دور سے تعبیر کرتے ہیں۔ حالانکہ مردِ حق کی اس سنت کو تو بعد میں آنے والے ہر حکمران نے حسبِ توفیق فروغ دیا ہے، تو کیا وہ سارے دور خدانخواستہ تاریک اور آسیب زدہ قرار پائیں گے؟ 
المختصر! قبل اس کے کہ سلطنت خداداد ترقی کرتے سپر پاور بن جاتی اور ملک و قو م کو نظر لگ جاتی، ایک خود کش حملہ آور طیارہ امیرالمومنین و مومنات کو لے کرانجانی منزل کی طرف پرواز کر گیا۔ امیرالصالحین قوم کو وحشتوں کے بھڑکتے الائو کے حوالے کر کے راہی عدم ہوا اور رعایا یتیم ہو گئی‘‘۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں