پیارے وطن کی تاریخ میں عزت فلمی ہیروئن نے کمائی ہے یا پھر ووٹ نے۔ فرق یہ ہے کہ شوبز کی خوبرو اداکارائیں ہمیں بار بار یاد دہانی کراتی ہیں کہ خدا نے انہیں بڑی عزت سے نوازا ہے، جبکہ ووٹ بے زبان ہونے کی بنا پر یہ حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہے۔ زبان تو خیر ابھی ووٹ دینے والوں کو نصیب نہیں ہوئی، ان کے ووٹ کو کہاں سے حاصل ہو گی؟ بہت ممکن ہے کہ اگر ووٹ کے مستقل محافظ اس کے سر سے اپنا دستِ شفقت ہٹا لیں تو یہ بولنے کے قابل ہو جائے؛ تاہم ڈر یہ ہے کہ زبان ملنے کی صورت میں ووٹ میشا شفیع کی طرح سستی شہرت کے لیے خود کو ہراساں کرنے کی بے سر و پا کہانیاں گھڑنے لگے گا۔ بس اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ وہ خاموش ہی رہے تو بہتر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بولنا سیکھ لے تو اسے عزت راس نہ آئے۔
ہمارا ووٹ خوش قسمت ہے کہ اسے عظمت کے پہاڑی سلسلۂ متذکرہ سے لے کر سیاسی چور لٹیروں، حتیٰ کہ غیبی طاقتوں تک کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ ان سب نے مل کر ووٹ کی عزت کا ساماں کیا ہے، تبھی تو اتنا عزت دار ہے، ورنہ اس کی اصل اوقات تو غالب ؔ جتنی ہے کہ:
ہوا ہے شہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
ووٹ کی حرمت کی تاریخ عرض کی جا رہی تھی۔ آصف علی زرداری کی حکومت اپنی آئینی مدت تو پوری کر گئی مگر ووٹ پانچ سال تک اپنی دھوتی ہی سنبھالتا رہا۔ اسے کھینچنے والے بہت تھے اور سنبھالنے کے لیے ووٹ کے فقط دو ہاتھ۔ کھینچا تانی کی خوب رونق لگی رہی۔ ووٹ رسوا تو بہت ہوا مگر اس کی عزت محفوظ رہی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انتخابات کا میلہ تو لگایا ہی ووٹ کی دھوتی چرانے کے لیے جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ انتخابات پر ہی کیا موقوف، یہاں تو اس شغل کے لیے اس سے بھی زیادہ شاندار میلے لگائے جاتے ہیں۔ جیسے مارشل لائ، ایمرجنسی‘ کنونشن لیگ، غیر جماعتی انتخابات، آئی جے آئی، ق لیگ، ایم ایم اے اور چھانگا مانگا جیسے بے شمار پررونق میلے۔ ایک وضاحت ضروری ہے کہ ان میلوں کو ووٹ کی دھوتی چرانے کے لیے منعقد کیا جانا محض اپنے روایتی ہنسوڑ پن کی بنا پر قرار دیا جاتا ہے، ورنہ سنجیدہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے ہر میلے کا اصل مقصد ووٹ کی آبرو بچانے کی سعیٔ جمیلہ ہوتا ہے۔
2013ء کے میلے میں ن لیگ کی حکومت بنی۔ اس حکومت کی دھوتی نے پیپلز پارٹی کی دھوتی سے بھی مشکل وقت دیکھا ہے۔ آج میاں نواز شریف ووٹ کی جس بے عزتی کی دہائی دیتے ہیں، ماضی میں خود ان کی جماعت ووٹ کی اسی حرمت کے لیے لگائے جانے والے میلوں کی رونق رہی ہے۔ اس مرتبہ وقت کی سائیکل کا پہیہ الٹا گھوما ہے تو ان کی حکومت کی دھوتی چین میں پھنس گئی ہے۔ جتنا یہ اپنی دھوتی کو اوپرکھینچتے ہیں، سائیکل کی چین اسے اتنی ہی طاقت سے نیچے کھینچتی ہے۔ شاید یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ نواز شریف ووٹ کی حرمت کے مایہ ناز بیانیے سے پھر گئے اور ان کے ہاتھوں ووٹ کی آبرو کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ حالانکہ قبلہ ضیاء الحق نے انہیں ووٹ کی پاسبانی کے اسلوب خوب سمجھائے تھے اور انہوں نے لمبے عرصے تک پاسبانی ہٰذا کا فریضہ انجام بھی دیا ہے۔ تاہم لگتا ہے کہ وہ استاد محترم کا سبق بھول گئے اور بیلٹ باکس کو اقتدار کا منبع سمجھنے لگے، جبکہ انہیں اپنے تجربے کی روشنی میں بیلٹ باکس کے محافظوں کی طرف دیکھنا چاہیے تھا۔ آج نواز شریف کی دھوتی تو سلامت نہیں رہی مگر ووٹ کی عزت بدستور برقرار ہے۔ شاید بشیر بدر نے اسی نوع کے کوئی حالات دیکھ کر کہا تھا:
میری شہرت سیاست سے محفوظ ہے
یہ طوائف بھی عصمت بچا لے گئی
ووٹ کی عزت کی حالیہ مستند مثال سینیٹ اور اس کے چیئرمین کے انتخابات ہیں۔ ان انتخابات سے ہم پر ووٹ کی امارت اور ''قدر و قیمت‘‘ خوب آشکار ہوئی ہے۔ ووٹ کی آبرو کی خاطر مستند کرپٹ اور جید پارسا اکٹھے ہو گئے اور ن لیگ کو شکست ہوئی۔ ادھر عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے 20 ایم پی اے بکائو نکلے، جنہوں نے کروڑوں میں اپنے ووٹ بیچے۔ ایک نیک نام پارٹی کی شہرت کو نقصان پہنچانے پر ان لوٹوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جواب میں‘ الزام علیہم نے جوابی الزام لگاتے ہوئے سوال کیا ہے کہ عمران خان اپنے وزیر اعلیٰ اور سینیٹ کے امیدواروں سے قرآن پر حلف لیں کہ کیا انہوں نے سینیٹ میں پیسے تقسیم نہیں کیے؟ لوٹوں نے پریس کانفرنس میں اپنی پارٹی کے چیئرمین سے یہ بھی پوچھا ہے کہ انہوں نے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں زرداری کو ووٹ کتنے میں بیچا؟ووٹ کی حرمت کی اس جنگ میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی راہیں بھی جدا ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ جناب سراج الحق نے لنکا ڈھائی ہے کہ چند گھوڑے نہیں، پورا اصطبل بک گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی والوںکی طرف سے ہمیں سنجرانی کو ووٹ دینے کے لیے کہا گیا، جب ان سے وجہ پوچھی تو کہا گیا کہ اوپر سے حکم آیا ہے، اب خدا معلوم یہ حکم کہاں سے آیا ہے؟
ہمارے ہاں یہ اوپر والی بات ہمیشہ کنفیوژن کا باعث بنتی ہے، چاہے وہ بات سیاسی ہو یا غیر سیاسی۔ پہلے اس کی ایک غیر سیاسی مثال سن لیں۔ ہم نے دیکھا کہ ایک پلازے کی دوسری منزل کی بالکونی میں کھڑا نوجوان نیچے فٹ پاتھ پر جانے والی لڑکی کو اشاروں سے مخاطب کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے مگر لڑکی کا اوپر دھیان ہی نہیں۔ اچانک وہ چلایا ''تم لوگوں کو اوپر والا دیکھ رہا ہے‘‘۔ ایک بزرگ نے اسے اس نیچ حرکت پر لعن طعن کی تو کمبخت بولا کہ میں تو لوگوں کو خدا یاد کرا رہا ہوں۔ سراج الحق صاحب کی اس اوپر والی بات سے بھی شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ تاثر یہ پیدا ہوا کہ ووٹ آزاد نہیں اور اس کی نکیل کہیں اور ہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے پرویز خٹک کا کہ انہوں نے سراج الحق کی بات کو من گھڑت اور لغو قرار دیتے ہوئے معاملہ صاف کر دیا ہے کہ اوپر والوں سے ان کی مراد بنی گالہ اور عمران خان تھے۔
دوسری طرف نواز شریف ابھی تک بضد ہیں کہ عمران خان اس کا نام بتائیں، جس نے انہیں زرداری کو ووٹ دینے کے لیے کہا؟ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ زرداری کو ووٹ کس کے حکم پر پڑا۔ یہ وہی ہے جس کے حکم کی تعمیل میں خود نواز شریف ماضی میں ووٹ دیتے رہے ہیں۔ حکم دینے والے کا نام ضمیر ہے۔ اب آپ خود بتائیں کہ عمران خان ضمیر کا نام لیتے اچھے لگیں گے؟ اس سے تو اپنی بڑائی اور پارسائی ظاہر ہوتی ہے اور ایسا بڑا بول تو خان صاحب کبھی نہیں بولیں گے۔ کچھ بیمار ذہن تجزیہ نگار مسلسل الزام تراشی میں مصروف ہیں کہ ن لیگ کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے، حالانکہ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کے مقدمات چل رہے ہیں اور ان کے ساتھ بے لاگ انصاف ہو رہا ہے اور بس، باقی سب ہوائی باتیں ہیں۔ ایک نیوز چینل پر ایک تجزیہ نگار نے الزام لگایا ہے کہ یہ تماشا پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی بیک وقت تحریک انصاف کے ساتھ بھی ہے اور ن لیگ کے ساتھ بھی۔ حالانکہ ایسے تماشے تو کئی مرتبہ لگے ہیں۔ جو بات سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام کاوشیں اور تماشے ووٹ کو عزت سے نوازنے اور اس کی آبرو برقرار رکھنے کی خاطر ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
البتہ یہ جو آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے 'من گھڑت‘ الزام کے تحت پرویز مشرف کے احتساب کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس سے ہمارا ووٹ رسوا ہو سکتا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے، ورنہ دنیا میں ہماری اور ہمارے ووٹ کی اچھی خاصی بنی بنائی عزت خاک میں مل جائے گی۔