تیری آواز مکے اور مدینے، پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ عمران خان کے 11 نکات ن لیگ کے انتخابی منشور کا چربہ ہیں۔
ہماری کم علمی دیکھیے کہ ہم نے اب تک صرف چربہ فلموں ہی کا سن رکھا تھا۔ سیاسی جماعتوں کے منشور بھی چربہ ہو سکتے ہیں، اس کی تو ہمارے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔ بخدا، ہم تو یہ سمجھتے رہے ہیں کہ فلم اور منشور کا آپس میں دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا؛ تاہم پنجاب حکومت کی کوئی بھی بات بے معنی تو نہیں ہو سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ اندرون خانہ فلموں اور منشوروں میں کوئی ان دیکھی سی مماثلت ہوتی ہو یا ان کی گوٹیاں آپس میں ملی ہوتی ہوں، جو ہم ایسے کج فہموں کی نظروں سے اوجھل ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ منشور چربہ فلموں کی بجائے چربہ ڈرامے ہوتے ہوں۔ خیر، منشور تو منشور ہوتا ہے چاہے وہ حقیقی ہو یا چربہ۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ ن لیگ اور تحریک انصاف جیسی چند جماعتوں کے پاس ماڑے موٹے منشور ہیں تو سہی۔ ورنہ یہاں تو ایسی جماعتوں کی بھی کمی نہیں جو بغیر کسی منشور کے عشروں سے سیاسی میدان میں دگڑ، دگڑ، دگڑ...
ترجمان پنجاب ملک احمد خان اور صوبائی وزیر اوقاف زعیم قادری نے پریس کانفرنس میں یہ انکشاف بھی کیا ہے ان کی حکومت عمران خان کے گیارہ نکات پر عمل کرکے ان کے ثمرات عوام تک پہنچا بھی چکی۔ اب یہاں پر پنجاب حکومت داد کی مستحق ہے کہ اس نے اپنے عوام دوست منشور پر اس خفیہ طریقے سے عمل کیا کہ مخالفین تو کیا، خود ثمرات سمیٹنے والے عوام کو بھی کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ عدالت عظمیٰ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہی ہے۔ صوبے کے لوگ آج بھی صحت، تعلیم، امن و امان، عدم تحفظ، لوڈ شیڈنگ اور بد انتظامی کا رونا رو رہے ہیں مگر جس طرح ہمیں فلم اور منشور میں مماثلت کا معلوم نہیں تھا، اسی طرح عوام کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ وہ کیسے کیسے ثمرات سے بہرہ مند ہو چکے ہیں۔ گویا پنجاب حکومت نے اپنے تخت لاہور پر بری نظر رکھنے والے سیاسی مخالفین کو ایسا چکمہ دیا کہ وہ چکرا کر رہ گئے ہیں۔
ادھر خیبر پختونخوا حکومت بھی سیاسی مخالفین کو جوابی چکمہ دینے میں پیچھے نہیں رہی۔ اس نے صوبے کے پہاڑی اور دشوار گزار علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورے بلین ٹری ایسی ایسی جگہوں پر اگائے کہ کسی خلائی سٹیشن سے ناسا کے سائنسدان ہی ان کا نظارا کر سکتے ہیں۔ مقصود یہ تھا کہ زمینی مخالفین ایسا شاندار آئیڈیا چوری نہ کر سکیں، جیسے خود انہوں نے ن لیگ کا منشور چوری کیا ہے۔ اسی احتیاط کا شاخسانہ ہے کہ نا سمجھی میں اپوزیشن نے اس منصوبے پر کرپشن کا الزام لگایا اور نیب نے خیبر پختونخوا بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے فنڈز میں خورد برد سے متعلق تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ 19 اپریل کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پشاور رجسٹری میں خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں کی حالت زار، پینے کے گندے پانی کی فراہمی اور تعلیم کی صورتحال سمیت مختلف کیسوں کی سماعت کی تو حیران کن حالات سامنے آئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کی گڈ گورننس بہت مشہور ہے، تبدیلی کے بہت دعوے تھے، آپ کی کارکردگی کے بہت چرچے تھے لیکن آج یہاں آ کر معلوم ہوا ہے کہ ادھر تو کوئی نظام ہی نہیں، عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ میڈیا میں رپورٹ ہوا ہے کہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ عدالت کے بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دے پائے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ پرویز خٹک اپنی حکومت کی کارکردگی سے متعلق ان سوالوں کا جواب دے سکتے تھے‘ مگر سیاسی مخالفین کو چکمہ دینے کی حکمت عملی کے تحت وہ خاموش رہے۔ ہر دو پارٹیاں اپنی اپنی حکومتی کارکردگی سے متعلق شطرنجی چال یہ چلتی ہیں کہ مخالفین کو جلانے کے لیے ترقیاتی کاموں کے دعوے تو بہت کرتی ہیں مگر ان کی کاپی ہونے کے ڈر سے انہیں عملاً سامنے لانے سے گریز کرتی ہیں۔ یہ سیاسی چال جناب صدیق سالک کی حکمت عملی سے مشابہت رکھتی ہے، جنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ مزید گہری ہوں مگر اُگ کر زمین پر نہ آئیں کیونکہ انہیں ڈھورڈنگروں کے چَر جانے کا خطرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے لاہور کے جلسے سے اپنے طویل خطاب میں ورلڈ کپ اور شوکت خانم جیسی کامیابیوں کا ذکر تو کیا مگر خیبر پختونخوا میں اپنی پانچ سالہ کامیابیوں کو کمال ہوشیاری سے چھپا گئے، جیسے ان کی حریف پنجاب حکومت پانچ سال تک عوام تک پہنچائے جانے والے ثمرات پوشیدہ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔
جہاں تک عمران خان کے گیارہ انقلابی نکات کا تعلق ہے تو کوئی شک نہیں کہ ان کی عوامی پزیرائی نے مخالفین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ ان نکات نے تحریک انصاف کے حریفوں کے کان ہی نہیں، رونگٹے بھی کھڑے کر دیے ہیں۔ ملک بھر میں یکساں نظام تعلیم اور سب کے لیے ایک ہی ہیلتھ پالیسی، غریبوں کا وی آئی پی علاج، ان کے لیے پچاس لاکھ گھر، دس ارب درخت، ٹیکس اصلاحات، کرپٹ لوگوں کا احتساب، بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ لگانے کی طرف راغب کرنا، سیاحت کا فروغ، بیروزگاری کاخاتمہ، فاٹا کا کے پی کے میں ادغام اور صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام، گڈگورننس کا فروغ، زرعی ایمرجنسی، ملک بھر میں ایک جیسا بلدیاتی نظام، پولیس کے نظام میں اصلاحات اور خواتین کو قومی ترقی کے عمل میں شامل کرنا۔ لا ریب، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ اگر ان نکات پر عمل ہو گیا اور یقیناً ہو گا تو ایک صاف ستھرا نیا پاکستان ابھر کر دنیا کے سامنے آئے گا۔ ہاں، یاد آیا زرداری حکومت نے بھی اپنے نکات کے کافی ثمرات عوام تک پہنچائے تھے۔ سوشل میڈیا پر ایک کارٹون گردش کر رہا ہے، جس میں زرداری صاحب پوچھ رہے ہیں کہ نیا پاکستان بنا رہے ہو تو میں پرانا بیچ دوں؟ آج ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ اب ن لیگ کو بھی یہی کہہ کر اللہ اللہ کرنا چاہیے۔
عمران خان ایک مثبت سوچ اور ولولہ رکھنے والے حقیقت پسند رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اچھی حکمرانی کے لیے نمونے کے طور پر ایوب خان کی مثال دی۔ انہوں نے اپنا منشور پیش کرنے کے لیے نہایت مناسب فورم اور وقت کاانتخاب کیا ہے۔ سیاست کے بازار میں یہی سودا بکتا ہے اور جذبات کی منڈی میں اسی مال کی تجارت منافع بخش رہی ہے۔ پی پی پی نے بھی یہی سودا بیچا تھا، ن لیگ نے بھی یہی تجارت کی تھی اور وقت آنے پر تحریک انصاف نے بھی اسی مارکیٹ کا رخ کیا ہے۔ آج عمران خان کے اقتدار کے رستے میں ایستادہ بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ ان کی بھرپور عوامی پزیرائی دیکھ کے لگتا ہے کہ اللہ نے چاہا تو اس منشور کے صدقے باقی رکاوٹیں بھی تبدیلی کے سونامی میں بہہ جائیں گی۔ خوش قسمتی سے ان کے پاس تجربہ کار اور منجھے ہوئے لوگوں کی ٹیم ہے، جو اس سے قبل دوسری جماعتوں میں رہ کر ایسے منشوروں پر عمل کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ البتہ مستقبل میں ان کے پروگرام کو اپنے منشور کا چربہ قرار دینے والی شکست خوردہ ن لیگ انہیں ایک بات کا ٹھوس ثبوت کے ساتھ طعنہ دے سکے گی۔ خان صاحب نے کہا ہے کہ وہ ملک کے ستائیس ہزار ارب روپے کا قرضہ عوامی چندے سے ادا کریں گے۔ اس خیرالعمل کے دوران ان کی حریف جماعت کے فاضل اراکین انہیں بجا طور پر کہہ سکیں گے کہ یہ تو ہمارے پروگرام ''قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا شرطیہ نیا پرنٹ ہے۔
پوری قوم ایک مرتبہ پھر ''امید‘‘ سے ہے اور ن لیگ کے بعد تحریک انصاف کے منشور کے ثمرات سمیٹنے کے لیے بے چین ہے۔ غالبؔ نے کہا ہے:
دیکھیے، پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے