مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ تشدد کے بغیر بچہ علم حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ غیر انسانی مفروضہ بڑا قدیم ہے، جوہمارے ہاں خصوصاً دیہات میں آج بھی رائج ہے۔ بچے کو کسی جلاد نما ماسٹر یا مولوی کے حوالے کرکے کہا جاتا ہے کہ بچے کی ہڈیاں ہماری اور گوشت تمہارا۔ اس سفاکانہ مفروضے کے تحت میڈیا میں اکثر کسی سکول یا مدرسے کے معصوم بچوں کے تشدد زدہ مردہ یا نیم مردہ جسموں کی تصاویر ہم دیکھتے ہیں ۔ یہ ظالمانہ مفروضہ ورکشاپوں وغیرہ میں کام سیکھنے پر بھی لاگو کیا جاتا ہے ۔ سمجھا جاتا ہے کہ جب تک استاد شاگرد پر بہیمانہ تشدد نہیں کرے گا، وہ اچھا مکینک یا ڈرائیور نہیں بن سکتا۔ لعنت ایسی استادی پر۔ نفسیات کہتی ہے کہ خوف کی فضا میں انسانی دماغ کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں ۔ ایسے میں وہ مار کے ڈر سے رَٹا لگا کر کنوئیں کا مینڈک تو بن جاتا ہے لیکن علم حاصل نہیں کر سکتا ۔ دنیا پر حکومت کرنے والے پاگل نہیں جو بچے کے ذہنی رجحان کا پتہ لگاتے ہیں اور پھر خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں اسے اس شعبے کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اس طریقے سے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے جبکہ مفروضہ ہذا کے تحت تو بچے کے گلے میں '' علم‘‘ کی زنجیریں پہنا کر اسے کسی مخصوص کھونٹے ہی سے باندھ جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ کوئی بھی بچہ پیدائشی طور پر لاتوں کا بھوت نہیں ہوتا، بلکہ گھر اور معاشرتی ماحول اور طریقۂ تعلیم اسے انسان سے کسی بھی قسم کا بھوت یا روبوٹ بنا دیتے ہیں۔
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ دنیا میں ہماری گڈ گورننس کی دھومیں ہیں ۔ نہیں جناب! دنیا میں ہماری کرپشن ،بے ایمانی ، لوٹ کھسوٹ ، ناجائز منافع خوری ، لاقانونیت ، آئین شکنی ، بے روزگاری ، اقرباء پروری ، نا انصافی ، تیزاب گردی ، ونی گردی ، پولیس گردی ، غنڈہ گردی ، ناخواندگی ، غیرت کے نام پر قتل ،منافقت ،لوڈ شیدنگ اورآف شور کمپنیوں کی دھومیں ہیں ۔ جن کی گڈ گورننس کی دنیا میں واقعی دھومیں ہیں ، وہ اس کی بڑھکیں نہیں مارتے ، بلکہ خاموشی سے دیانتدار اور خدمت گار قیادت کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ چونکہ ہمیں باکردار اور خدمتگار قیادت کی جگہ ولولہ انگیز قیادت میسر آئی ہے ، سو اسے چیخ چیخ پر بتانا پڑتا ہے کہ دنیا میں ہماری گڈ گورننس کی دھومیں ہیں ۔
مفروضہ ہم نے گھڑرکھا ہے کہ آئے روز ٹریفک کے حادثات میں جو لوگ مرتے ہیں ،ان کی تقدیر یونہی لکھی ہوتی ہے ، لہٰذا قاتل ڈرائیور کو فی سبیل اللہ معاف کر دیا جاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جن ملکوں میں ٹریفک قوانین کی پابندی کی جاتی ہے وہاں تقدیر تھوک کے حساب سے لوگو ں کو کیوں نہیں نگلتی ؟ حقیقت یہ ہے کہ حادثہ ہمیشہ مرنے یا مارنے والے کی غفلت ، لا پروائی ، تیز رفتاری ،بد معاشی اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی بنا پر ہوتا ہے ۔ اگر ڈسپلن اور قانون کی عملداری ہو ، ان گھڑ اور بلا لائسنس ڈرائیوروں کو ڈرائیونگ سے روک دیا جائے اور ڈرائیونگ لائسنس صرف تربیت یافتہ (اس میں ڈرائیونگ کے علاوہ انسانیت کی تربیت بھی شامل ہے) لوگوں کو جاری کئے جائیں تو تقدیر کا رخ موڑا جا سکتا ہے ۔ اگر کوئی گھامڑ رانگ سائیڈ سے گاڑی کو کراس کر رہا ہے یا ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ، دوسرے ہاتھ میں پکڑا موبائل کان سے لگائے '' ہور سنا فیر‘‘ کا ورد کرتے حادثے کا شکار ہو جاتا ہے تو اس میں تقدیر کا کیا دوش؟
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ہم دنیا بھر میں رمضان المبارک کا سب سے زیادہ احترام کرنے والی قوم ہیں اور ساری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک کو ہمارے اخلاق و کردار کی تقلید کرنی چاہیے ۔ اسلامی دنیا کو تو خیر ویسے بھی ہم نے بزور بازو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ ہمیں مقدور بھر خیرات بھی دے اور ہماری رہنمائی قبول کرکے فلاح بھی پائے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے یہ ''فلاح‘‘ پانا تو دور کی بات ہے ،ہماری ویزا درخواستوں کو بھی بہ نوکِ جوتا مسترد کر دیں تاہم رہنما تو رہنما ہوتا ہے، چاہے وہ کشکول بدست ہی کیوں نہ ہو۔
ہمارے اس مفروضے کی بنیاد یہ ہے کہ یہاں رمضان آرڈیننس پورے جوبن پر ہوتا ہے اور پر شکوہ مساجد قابل رشک انداز میں آباد ہوتی ہیں ۔ چونکہ ہم بنیادی طور پر ظاہر پر توجہ مرکوز رکھنے اور نمائشی اقدامات کے شوقین ہیں ، سو حکومت اور انتظامی مشینری ماہِ صیام میں عوام کے اصل مسائل کو چھوڑ کر روزہ خوروں اور قبل از وقت پکوڑے تلنے والوں کے پیچھے پڑ جاتی ہیں ۔ ہمارا یہ شوق اتنا بے باک ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان تعلق میں دخل اندازی سے بھی گریز نہیں کرتا اور کوئی بھی شخص ، چاہے اس کا اپنا روزہ ہے یا نہیں مگر وہ شک کی بنیاد پر کسی دوسرے کو روزہ خور قرار دے کر اسے سرِ عام گریبان سے پکڑ سکتا ہے ۔ اکثر غیر مسلم ممالک میں بھی رمضان المبارک میں مسلمانوں کے لیے اشیائے خورونوش سستی کر دی جاتی ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ ہم اس کو موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی چھریاں تیز کر لیتے ہیں اور مہنگائی ،ملاوٹ ،بے ایمانی اور ذخیرہ اندوزی کی نئی نئی مثالیں قائم کر دیتے ہیں ۔پھر اسی منافع سے عمرے کرتے ہیں یا مساجد کو بقعہ نور بناتے ہیں مگر غرباء ، مساکین، بیوائوں اور یتیموں کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں بچتا۔ مراد یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حقوق اللہ ادا کرنے کے بعد حقوق العباد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اگر ہم ان کی کچھ مدد کرتے بھی ہیں تو تصویریں بنوانے کے لیے کہ وہ نیکی ہی کیا ، جس کی تشہیر نہ ہو۔
ہم اس مبارک مہینے میں ایک دوسرے کو اس کی فضیلت کے درس دیتے ہیں ۔صبر اور برداشت کا مہینہ ، نفس کے کنٹرول کی تربیت کا مہینہ ، غریبوں ، بیوائوں ، یتیموں کی پرورش کا مہینہ، خدا سے لَو لگانے کا مہینہ، گناہ بخشوانے کا مہینہ ...مگر سب زبانی کلامی ، عملاً کیا درس دینے والے اور کیا لینے والے ، ہر طرح کی بے ایمانی ، دو نمبری ، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، گرانی اور لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ ہر حکومت کے اکابرین سختی سے احکامات جاری کرتے ہیں کہ سحر و افطار کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے ۔ اس حکم پر ہماری خوشی بجا، لیکن کیا رمضان المبارک سے پہلے اور بعد میں یہاں انسان نہیں رہتے اور سحر و افطار کے علاوہ انہیں بجلی کی ضرورت نہیں ؟ ماہِ مبارک کے علاوہ باقی سارا سال اشیائے خورونوش کی قیمتیں چیک کرنے اور سستے بازار لگانے کی کوئی ضرورت نہیں؟‘‘ سوشل میڈیا پر جاپانی لڑکی کے حوالے سے لطیفہ گردش کر رہا ہے جس نے اپنے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی سے پوچھا کہ یہ جو تم روزہ رکھ کررمضان کا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے رہتے ہو، اس سے تمہیں کیاملتاہے؟جواب میں وطنی بھائی اسے بتاتاہے کہ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ اس کے دوران جھوٹ بولنا، ایمانداری سے اپناکام نہ کرنا، ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، وعدہ خلافی اورناانصافی وغیرہ جیسے تمام برے کاموں سے بھی بچنا پڑتا ہے۔ تب جاپانی لڑکی کہتی ہے کہ آپ کی تو موجیں ہیں، ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا پڑتا ہے۔
خدا خیر کرے! اس مرتبہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان برکتوں والے اسی ماہ میں ہوا ہے۔ بروقت انتخابات کے وعدے بھی رمضان المبارک میں ہو رہے ہیں۔ہمارے فاضل امیدواروں نے سچ پر مشتمل اپنے کاغذات نامزدگی بھی اسی ماہ جمع کرانے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ختم ہونے اعلانات بھی ماہ صیام میں ہوئے ہیں اور حکومت کے پہلے 100 دنوں کا پروگرام بھی ماہ مقدس میں سنایا گیا ہے۔ خدا خیر کرے، کہیں دنیا ہمارے ان عزائم اور وعدوں کو ہمارے مایہ ناز ''احترام رمضان‘‘ رویے سے تعبیر نہ کر دے ...مگرنہیں ، ارباب اختیار کے مضبوط ارادوں اور عزم صمیم سے ظاہر ہے کہ سارا سال کے نہ سہی مگر وہ رمضان میں کیے گئے حالیہ وعدوں کو قوم اور دنیا کے سامنے سچ ثابت کردکھائیں گے۔