وزیرِ محترم اپنے نائب قاصد کی کسی کوتاہی پر خفا ہو گئے۔ آپ نے اسے اپنے دفتر میں طلب کرکے جھاڑ پلا دی۔ نائب قاصد ڈانٹ سے سرفراز ہو کر باہر نکلا تو پی ایس نے پوچھا کہ منسٹر صاحب کیا کہتے ہیں؟ اس نے ناراضی سے جواب دیا ''ایویں اے کچے اساں پکیاں کی تڑیاں لانڑیں‘‘ (یہ کچی نوکریوں والے خواہ مخواہ ہم پکی نوکری والوں کو تڑیاں لگاتے ہیں)۔
یہ کچی نوکریوں والے بھی عجیب ہیں۔ شمس السیاست، قمرالسیاست، فخرالسیاست، ملک السیاست، قائدِ عوام، قائد اعظم ثانی... ہونہہ، اس نوکری کی اوقات کیا ہے بھلا؟ ٹی وی پر ایک خطاب کی مار کچی ملازمت۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نوکری کچی تھی۔ عوامی حمایت کے زعم میں پکی سمجھ بیٹھے۔ اپنی کرسی پر ہاتھ مار کر کہتے تھے کہ یہ بڑی مضبوط ہے۔ تڑیاں بہت دیتے تھے۔ 1973ء کے پہلے متفقہ آئین، جمہوری کلچر، ایٹمی پروگرام کی بنیاد، سٹیل ملز، ٹینک بنانے کی واہ فیکٹری، کامرہ کمپلیکس اور اسلامی سربراہی کانفرنس کا بڑا زعم تھا۔ ان تڑیوں سے ایک مردِ مومن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ 1977ء کے ساون کی برکھا رُت دہلیز سے آ لگی تومضبوط کرسی والے صاحب رات کی تاریکی میں یوں نوکری سے نکالے گئے، جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ کچے جو تھے۔ تڑیاں دینے کی پاداش میں پھر دار سے جھول گئے۔ اپنے ووٹ سے بھٹو کو ''مضبوط کرسی‘‘ عطا کرنے والے بہت چیخے مگر انہیں کوڑوں اور جیلوں کی وساطت سے سمجھایا گیا کہ تم تو خود کچے ہو، کسی کو پکی نوکری کیسے دے سکتے ہو بھلا؟ کچی نوکری دینے اور لینے والوں نے مگر کچھ نہ سیکھا۔
محمد خان جونیجو کو بھی اسی خوش فہمی نے آلیا تھا۔ مرحوم شریف تو تھے مگر کچی نوکری والوں کی طرح تڑیاں لگانے کے شوق پر قابو نہ پا سکے۔ کہتے تھے: آپ مارشل لا کب اٹھا رہے ہیں؟... سب کو سوزوکی پر بٹھائوں گا... بے نظیربھٹوکی وطن واپسی پر انہیں ریلیاں نکالنے کی اجازت دے ڈالی۔ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل مشاورت کی خاطر سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلا لی۔ جو مستند سکیورٹی رسک تھے‘ انہیں بھی بلا کر برابر بٹھا لیا۔ جناب ضیاء الحق کے پسندیدہ وزرائے کرام ڈاکٹر محبوب الحق، عطیہ عنایت اللہ، اور ڈاکٹر اسد محمد خان کو کابینہ سے فارغ کر دیا۔ اوجڑی کیمپ سانحے پر انکوائری کرا ڈالی۔ پکی نوکری کی خوش فہمی میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔ تڑیاں دینے میں حد سے گزر گئے تو اپنے ایک غیرملکی دورے سے واپسی پر دیکھا کہ ان کی نوکری پر 58-2/B کا گنڈاسہ چل چکا ہے۔
بے نظیر بھٹو بھی اپنے باپ اور ان کی نوکری کے حشر سے سبق حاصل نہ کر سکیں۔ 2 دسبر1988ء کو پہلی مسلمان وزیر اعظم کی کچی نوکری کا حلف اٹھاتے ہوئے ان کی باڈی لینگویج کہہ رہی تھی وہ کم از کم پانچ سال تو رہیں گی۔ اس کے بعد بھی عوامی حمایت کی جنگ میںکون ان کا مقابلہ کرے گا؟ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ان سے بہتر لوگ تیار ہو رہے ہیں۔ باپ کی طرح وہ بھی تڑیاں لگاتی تھیں۔ مکمل اختیارات چاہتی تھیں۔ سو، صرف اٹھارہ ماہ ہی ان کی نوکری چل سکی۔ خدا ان کے درجات بلندکرے، بابا اسحاق خان نے انہیںگنڈاسہ متذکرہ کے ذریعے جانکاری دی کہ اسمبلی سمیت ان کی کچی نوکری ختم ہو چکی۔ 1993ء میں بے نظیر دوبارہ وزیر اعظم بنیں مگر اپنی نوکری کی اصلیت نہ سمجھ سکیں۔ بابا رخصت ہو کر پشاور جا چکا تھا مگر اپنا گنڈاسہ ایوان صدر ہی چھوڑ گیا تاکہ اس کے بعد وہاں آنے والے کو بوقت ضرورت کام آئے۔ یہ بڑا احسن فیصلہ ثابت ہوا۔ بوقت ضرورت فاروق بھائی نے اسی تیز دھار آلے کی مدد سے اپنی بہن کی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں گھر بھیج دیا۔ عوامی حمایت کے جوش میں وزارت عظمیٰ کی نوکری کا شوق مگر ان کے دل سے نہ گیا۔ عہدے کے لالچ کو یہاں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لہٰذا بے نظیر کا کانٹا ہی نکالنے کا فیصلہ ہوا اور 27 دسمبر2007ء کو انہیں دنیا ہی سے آگے بھیج دیا گیا تاکہ وطن عزیز میں کوئی غلط روایت پنپنے نہ پائے۔
نوازشریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ کر بھی اپنی نوکری کی حیثیت سے ناآشنا رہے۔ ہرمرتبہ تڑیاں لگا کر ملازمت سے فارغ ہوتے رہے۔ پہلی دفعہ نوکری ملی تو تڑی لگا بیٹھے کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔ 58-2/B کا گنڈاسہ بابا اسحاق خان مناسب وقت تک کے لیے دفن کر چکا تھا۔ نوازشریف کی بات سن کر اسے لگاکہ یہ آدمی تواپنی نوکری پکی سمجھ بیٹھاہے۔ پس بابا جذباتی ہوگیا۔ گنڈاسا پھر منتخب ایوان پر چلا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے ایوان بحال کیا مگر کشیدگی برقرار رہی تو جنرل وحید کاکڑ نے دونوں کی کچی نوکریاں ختم کردیں۔ 1997ء میں نوازشریف بھاری مینڈیٹ لے کر دوبارہ وزیراعظم بنے مگر تڑیوں اور پنگے بازیوں سے باز نہ آئے۔ مجبوراً فاتح چہارم نے کچی نوکری سے برطرف کرکے انہیں جیل میں ڈال دیا۔ وہ ترلے کرکے اور سیاست سے دس سال تک توبہ کرکے باہرچلے گئے۔ امید تھی کہ برادر ملک میں طویل فارغ وقت کے دوران انہوں نے دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی نوکری کی بے ثباتی پر بھی کافی غوروفکر کیا ہو گا مگر وہ خادمین حرمین شریفین کی مہمان نوازی اور کھانوں کی وسیع ورائٹی ہی سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد ق لیگ میں سے میرظفراللہ جمالی اور چوہدری شجاعت حسین کی بھی مختصر وقت کے لیے کچی نوکری لگی۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی تو یوسف رضا گیلانی کی کچی نوکری لگی، جو مہا کچی ثابت ہوئی۔
2013ء کے انتخابات میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئے مگر ماضی کے کسی بھی سبق سے ان کا دامن تہی تھا۔ بے نظیرکی طرح انہیں بھی خوش فہمی تھی کہ عوامی مقبولیت میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا مگر شاید وہ بھی اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ ان کے مقابلے میں ان سے کہیں بہترلوگ تیار ہو رہے ہیں۔ اس دفعہ ان کا واسطہ سلسلۂ انقلابیہ کے ایک نئے روحانی پیشوا سے پڑ گیا۔ انہوں نے نوازشریف کی نوکری ختم کرانے کے لیے دھرنے دیے، ریلیاں نکالیں اوراحتجاجی جلسے کیے۔ نوازشریف تڑیاںدینے سے باز نہ آئے۔ حتیٰ کہ فاتح چہارم اور آئین کے آرٹیکل6 کے مجرم کے خلاف کارروائی پر کمربستہ ہوگئے۔ شہبازشریف اورچوہدری نثار جیسے جان نثاروں کی کاوشیں رائیگاں گئیں۔ پانامہ لیکس سے نوازشریف کا دامن آلودہ تھا۔ پس کچی نوکری سے فارغ ہوگئے۔ ان سے یہ توقع فضول ہے کہ وہ جیل میں غوروفکر جیسی کوئی حرکت کریں گے۔ اب اس سے بڑا انہوں نے کیاہوناہے‘ بھلا کیا سمجھ دارہوں گے؟
اب نوازشریف اپنی پارٹی، خصوصاً اس کے معتدل رہنمائوں کے لیے ''ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کی مجسم تصویر بنے جیل میں بامشقت قید کاٹ رہے ہیں۔ باپ بیٹی کے استقبال کے لیے ریلیاں نکالنے کی پاداش میں شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت اور سینکڑوں ورکروں پر دہشت گردی کے مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی اورن لیگ کو عام انتخابات کے شفاف ہونے پر بھی تحفظات ہیں۔ اب دونوں جماعتیں ایک مرتبہ پھرکسی میثاق جمہوریت کی تاک میں ہیں۔ بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ وہ تمام جمہوری جماعتوں کے ساتھ نئے میثاق کے لیے تیار ہیں۔ یہ کچی نوکریوں والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں اور جب سمجھتے ہیں کہ انہیں کسی پارٹی کے مقابلے میں دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو میثاق جمہوریت کرتے ہیں، جسے حالات بہتر ہوتے ہی ردی کی ٹوکری میں ڈالنا نہیں بھولتے۔
ہمیں مریم نواز سے زیادہ ہمدردی ہے ''کنڈے اُتے بیڑی ڈب گئی، ساڈے دل دیاں دل وچ رئیاں‘‘ وہ نوکری لگنے سے پہلے ہی فارغ ہوگئیں، بلکہ جیل جا پہنچیں۔ انہوں نے تو وزیر اعظم ہائوس میںکئی اعلیٰ سطحی اجلاسوں کی صدارت کرکے اورافسران کو احکامات دے دے کرنوکری کے لیے خاصی پریکٹس بھی کرلی تھی مگرخداکے کاموں میں کسے دخل ہے؟
ہم آج تک کے حالات دیکھ کر سمجھتے رہے ہیں کہ اس مرتبہ وزیراعظم کی نوکری ہمارے محبوب رہنماعمران خان کی لگے گی مگرآج ان کا ایک بیان پڑھ کر خاصی مایوسی ہوئی۔انہوں نے کہا ہے کہ وہ کرپٹ لوگوں سے مل کرحکومت نہیں بنائیںگے... اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اس مرتبہ بھی حکومت نہیں بنا رہے۔ شاید وہ تڑیاں لگانے کے اپنے مشہورزمانہ مزاج کو دیکھتے ہوئے سمجھ گئے ہوں کہ ان کی نوکری تو سال بھی نہیں چلنی، پھر کیا فائدہ ایسی کچی نوکری کا؟