دکھانے والے کی مرضی ہے‘ چاہے تواپنے گستاخ بندوںکومریخ پرپہنچاکرانہیں وہاںکی پتھریلی چٹانوں کی حقیقت سے روشناس کرا دے۔ دکھانے والے نے دکھایاتونہیں ‘مگراس قلمدارنے سنا ہے کہ برطانیہ میں ایک ہائیڈپارک بھی ہواکرتاہے ۔جو چاہے‘ وہاں جا کرزبان سے اپنے من کی بھڑاس نکال سکتاہے۔ دکھایاتوان گناہ گارآنکھوں کو امریکہ کا ڈسٹرکشن کلب بھی نہیں گیا‘مگرکانوں سے سنا بہت ہے کہ جس کی مرضی ہو‘ اس کا ممبر بنے اور وہاں قیمتی اشیا توڑ کر اپنا غصہ نکال لے ۔
دکھانے والے کی مرضی ہے‘ہرروزدکھاتاہے کہ پورے کا پورا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہائیڈ پارک اور ڈسٹرکشن کلب ہے ۔ آٹھ لاکھ بیاسی ہزار مربع کلومیٹرپرپھیلے اس وسیع ''ہائیڈ پارک‘‘ میں جس کا جہاںجی چاہے ‘ چنگھاڑتا ہوا میوزک ‘ پریشر ہارن اور لاؤڈ سپیکر بجا کر اپنے جی کا بوجھ ہلکا کرے یا اپنے مریضانہ خیالات دوسروں پر بزور شمشیر ٹھونس کر سکون حاصل کرے ۔ کرپشن کے ذریعے دولت کے انبار اکٹھے کرنے والاایماندار ی کے بھاشن دے یا اپنی خود ساختہ فرشتہ سیرتی کی نرگسی سرشاری میں دوسروں کو جہنمی قرار دے ۔ کوئی بھی فکری طور پر کنگال اور وژن سے عاری خود کو عقل کل سمجھ کر قوم کی رہنمائی کا ٹھیکہ بزور بازو حاصل کرلے یا اپنے نظریاتی و سیاسی مخالفین کو دشمن کا ایجنٹ اور کافر قرار دے ۔سچ کی بیخ کنی کی مشق ستم جاری رکھے یا جھوٹ کی ترویج میں دن رات ایک کرے۔ عوامی درگاہ سے دھتکاراہوا اپنے دقیانوسی خیالات کو عوامی امنگوں کا ترجمان گردانے یا مخالفین پر دشنام طرازی اور طعنہ زنی میں تمام اخلاقی حدود عبور کر جائے ۔ جدید سائنس وٹیکنالوجی کودولتی جھاڑ کر دنیا میں اپنی قوم کا تماشا بنائے یا دانش کے نام پر دھول اڑاکروطن عزیز کی جگ ہنسائی کاساماں کرے۔ حتیٰ کہ کوئی بھی ذہنی مریض ہمارے منتخب جمہوری ادارے توڑنے کے ببانگ دہل مطالبات کرے۔ کسی پرکوئی پابندی‘ کوئی قدغن نہیں۔سب شاداب و ثمر بار‘ سب سرخرو ہیں ۔
دکھانے والے کی مرضی ہے ‘ہرروزدکھاتاہے کہ ہمارے اس ''ڈسٹرکشن کلب‘‘ میں ہر چیز توڑ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنا بھی روا ہے ۔ یہاں کسی بھی قماش کے احتجاج کی آڑ میں سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی اجازت ہے ‘ حتیٰ کہ عوامی مینڈیٹ کے سر پر جوتے توڑ کر اپنی شکست کا بدلہ لینے کی بھی مکمل آزادی ہے ۔ کسی خود ساختہ یاگروہی مفاداتی نظریے کی آڑ میں تاریخ ‘ افکار قائد اور قیام پاکستان کے مقاصد کو توڑ موڑ کر پیش کرنے میں بھی کوئی رکا وٹ حائل نہیں ۔ مملکت خداداد میں شیشے ‘ سگنلز ‘ دل ‘ وعدے ‘عہد‘ معاہدے ‘ امیدیں ‘ سانسیں ‘ حتیٰ کہ آئین اور اسمبلیاں توڑنے پر بھی پابندی نہیں ۔ اب اس سے زیادہ آزاد ی کیا ہو گی‘ اسی لیے جون ایلیا نے کہا تھا ''کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے /روز ایک چیز ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔ دکھانے والے کی مرضی ہے‘ہم سوختہ بختوں نے اپنی زندگیوں میں آئین کو معتبر دیکھا نہ قانون کی حکمرانی کہ ہم نے نسل در نسل غیر جمہوری حکومتوں کے زیر سایہ ہوش سنبھالے ہیں ۔ یہاں آئین بھی کاغذ کا بے وقعت ٹکرا تھا اور قانون بھی ''جس کی لاٹھی ‘ اس کی بھینس ‘‘ کے پرچم تلے ماتم کناں رہا۔ آمرانہ ادوار کی بادِصموم نے ہمارے لطیف جذبات اور مثبت رویوں کی ایسی نہس کی کہ ہمارے لیے اخلاقی اقدار بھی سدا غیر رہیں اور تہذیب بھی اجنبی ۔ ہمیں رواداری کبھی مرغوب رہی ‘نہ احترامِ انسانیت اور وسیع القلبی ایسے چونچلے دل کو بھائے ۔ ہم نے دلیل کو درخور اعتنا جانا ‘نہ کبھی مکالمہ ہمارے نیک دلوں میں کوئی مقام بنا سکا۔لا علمی سے ہمیں محبت اور علم و دانش سے ہماری عداوت رہی ہے۔ سارے سفر رائیگاں میں انتہا پسندی ہماری رفیق تھی اور جہالت ہمسفر ۔الناس علیٰ دین ملوکہم‘ہماراالمیہ یہ بھی رہاہے کہ رہنمائے عظام کے دہانِ شیریں سے اسمبلیوں‘جلسوں اورٹاک شوزمیں ‘جوپھول جھڑتے ہیں‘ہم انہیں چن کراپنے گلے کا ہاربنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں ۔
ہمارے خیال میں معاشرہ تبھی متوازن رہ سکتاہے‘ جب اس کے ہائیڈپارک اورڈسٹرکشن کلب اپنی مخصوص جگہوں پر رہیں۔انسانی فطرت کے آگے بندباندھے جائیں توسارا معاشرہ ہائیڈپارک اورڈسٹرکشن کلب بن کربے قابوہجوم کی شکل اختیارکرلیتاہے۔اب جبکہ 'تبدیلی‘ کا دریچہ وَا ہوا ہے ‘تو رہنمائوں کو اپنے کج ادارویوں میں بھی تبدیلی کی کوشش کرنی چاہیے‘ تا کہ ان کی تقلیدمیں عوام بھی مثبت جمہوری رویے اختیارکرسکیں؛ اگرچہ فاضل حکمرانوں کے اقوال و افعال سے نہیں لگتا ہے کہ بدلتے وقت نے خار دارجھاڑ یوں میں پھول کھلانے شروع کیے ہیں اور ہماری سیاسی انحطاط پذیری اور بے سمتی کو درست سمت میں موڑنے کی کوشش ہو رہی ہے ‘ تاہم حسن ِظن رکھتے ہوئے اسے ابتدائی ناتجربہ کاری سمجھ کر نئی حکومت کو مہلت دینی چاہیے کہ وہ اصلاح احوال کی سعی کرسکے ؛ البتہ اس کا یہ مطلب ہرگزنہیں کہ کسی کو اپنی منتخب حکومت کی ناقص کارکردگی پرتنقیدکا حق نہیں۔اگر 'شورمچانے والے سیاستدان مجرم ہیں‘ تو ان کے خلاف عدالتوں کو ثبوت فراہم کیے جائیں۔ جوابی شورمچاکرملک کو ہائیڈپارک تو بنایاجاسکتاہے‘ مگرقوم کو دکھائے گئے‘ خواب کی تعبیرممکن نہیں۔
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ اگربندہ لکھاہواکوئی جملہ باربارپڑھے تو وہ اس کے دماغ میں راسخ ہوکراس کے کردارمیں اسی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ ہماری ناقص فہم میں اگر ہم شاہراہوں پر لگے سائن بورڈوں پرپوشیدہ بیماریوں اورجلسوں کے اشتہارات لگانے کی روش ترک کرکے انہیںباربار پڑھنے کو اپنا شعار بنا لیں‘ تو یہ مثبت رویہ ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ‘ تاہم اس کے لیے ان میں کئی نئے بورڈوں کا اضافہ بھی کرنا پڑے گااورانہیںپڑھنے کی عادت رہنمائوں کو بھی اپناناہوگی ۔ مثلاً جہاں پر لکھا ہو ''پالوشن مت پھیلائیں‘‘ اسی کے ساتھ ''منافرت مت پھیلائیں ‘‘ بھی لکھاہو۔جہاں ''ٹریفک کے قوانین کا احترام کریں‘‘ کی ہدایت ہو ‘ وہاں ''دوسروں کی رائے کا احترام کریں ‘‘ بھی درج ہو۔ اسی طرح جہاں'' اشارہ توڑنا منع ہے ‘‘ یا ''پھول توڑنا منع ہے ‘‘ جیسے سائن بورڈ ہوں ‘ وہیں ایسے ہدایت نامے بھی ایستادہ ہوں کہ ''اسمبلیاں توڑنا منع ہے ‘‘، ''امیدیں توڑنا منع ہے ‘‘، ''عوامی مینڈیت کی توہین منع ہے ‘‘،'' اقربا کو نوازنا منع ہے ‘‘، ''سیاسی بنیادوں پر روزگار کی فراہمی منع ہے ‘‘، ''آبادی بڑھانا منع ہے ‘‘،''جھوٹ بولنا منع ہے ‘‘، ''اختیارات سے تجاوز کرنا منع ہے ‘‘۔ جس جگہ ''تیز رفتاری سے پرہیز کریں ‘‘کے بورڈ ہوں ‘ وہیں ''ریاستی جبراورانتقامی کارروائیوں سے گریزکریں ‘‘ اور جہاں '' اپنی لین میں رہیں ‘‘ کی ہدایت ہو ‘ وہاں '' اپنی حد میں رہیں ‘‘ بھی لکھا ہو ‘ یا جیسے ''دیر سے پہنچنانہ پہنچنے سے بہتر ہے ‘‘ کی طرح '' لولی لنگڑی جمہوریت ‘خوشنما آمریت سے بہتر ہے ‘‘ ۔
اکیسویں صدی کی مہذب دنیا نے ثابت کیا ہے کہ دکھانے والاوہی رستہ دکھاتاہے‘ جسے دیکھنے کی بندے کو تمناہو۔اس نے اپنی اشرف المخلوقات کو علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے‘ مگراس کارخیرکی توفیق اسے ہی دیتاہے‘ جس کے دل میں اس کی تڑپ ہو۔کیاعجب کہ مستقل بنیادوں پرایسی ہدایات پڑھتے ہمارے دلانِ نیک میں بھی جنوں کی پرُخارراہوںکی جگہ جدیدعلوم کی گل پوش وادیوں کے سفرکی خواہش جاگ اٹھے اورہمیں سمجھ آجائے کہ ریاست ہائیڈ پارک یا ڈسٹرکشن کلب نہیں ہوتی۔