یہ کون ہم پہ مسلّط ہیں اس زمانے میں…!!

گو کہ… جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی… مگر یہ بھی سچ ہے کہ آنکھ کھولی اور جب سے ہوش سنبھالا وطنِ عزیز میںکُشت و خون ہی دیکھا، مذہب و مسلک کے نام پر، زبان و نسل کے نام پر، انصاف کے نام پر، نا انصافی کے نام پر، خدا کے نام پر ،خلقِ خدا کے نام پر۔ چاہے جبہ و دستار والے ہوں یا اس سے حذر کرنے والے۔ تہجد گزار ہوں یا راتیں نائٹ کلبوں میں بسر کرنے کی خواہش رکھنے والے، بیشتر کو اپنے موقف کے لیے مارنے مرنے پر تیار دیکھا۔ کسی کو موقع مل گیا، کوئی چلاتا رہ گیا۔ پنجابی کا محاورہ ہے ’’کسے دا ہتھ چلدا اے کسے دی زبان…‘‘ سو جس کا ہاتھ چلا اس نے ہاتھ اٹھایا اور جس کا زور نہیں چلا اس نے بھی زبان سے آگ و خون ہی برسایا، ہاتھ نہیں بھی اٹھایا تو آگ ضرور لگائی … بقول قاسم شاہ: اوہدے ناں تے اللہ دی زمین ہَل جاندی اے جتھے تقریر کرے گولی چل جاندی اے یعنی اس کے نام سے اللہ کی زمین ہل جاتی ہے، جہاں تقریر کرے گولی چل جاتی ہے۔ پس چاہے رائٹ کے لوگ ہوں یالیفٹ کے، اصولوں کے ساتھ غالب والی وفاداری بشرط استواری کی مثال کوئی قائم نہ کر سکا۔ خلق خدا سے بلا امتیازِ رنگ ونسل وعقیدہ وافکار، محبت کے بجائے اپنے موقف کو مسلط کرنے کی خاطر ہر طبقے نے ہر اصول کو رد کیا، پامال کیا۔ ورنہ رائٹ اور لیفٹ کے لوگ مختلف ادوار میں ضیاء اور مشرف جیسے آمروں کی حمایت کیوں کرتے؟ جن کو جہاں اپنی بات بنتی نظر آئی، اصول وصول کو بھاڑ میں جھونک کر اپنی اپنی پسند کے آمروں کی گودوں میں جا بیٹھے۔ آمروں کو نجات دہندہ سمجھا۔ ان سے ملتے رہے۔ ان سے فائدے لیتے اور مشورے دیتے رہے اور ان کے جاتے ہی گونگلوئوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے جمہوریت جمہوریت کی گردان شروع کر دی۔ جون بھائی یاد آئے، ان کی وہ نظمیں جو زیادہ عوامی پذیرائی حاصل نہ کر سکیں ،ان میں سے ایک کہ عوام کو بھرپور طریقے سے ایسی نظموں کی اہمیت اور اس میں پوشیدہ مفہوم کا ادراک ہوتا تو عوام اس حال میں ہی کیوں ہوتے جس میں مبتلا ہیں۔ گو کہ نظم میں زیادہ تنقید رائٹ والوں پر کی گئی ہے مگر سچ پوچھیں تو پاکستان کو برباد کرنے میں، جمہور اور لوگوں کے حقِ حکمرانی کے اصول کو روند کر پاکستان کو اس حال تک پہنچانے میں رائٹ کیا لیفٹ کیا اپ کیا ڈائون کیا، عوام کیا خواص کیا، اشرافیہ کیا انٹیلیجینشیاکیا ،عالمِ کیا جاہل کیا، تاجر کیا دانشور کیا، بیوروکریٹ کیاسیاستدان کیا، جج کیا جرنیل کیا،میں کیا آپ کیا… سبھی اس میں شامل ہیں۔ سو آئیے، صرف لفظوں پہ نہ جائیں، لفظوں میں پوشیدہ معانی کے ذریعے جن کوتاہیوں جن کہنہ غلطیوں کی نشاندہی جون بھائی نے کی، ان میں اپنا اپنا چہرہ پہچاننے کی کوشش کریں۔ نظم کا عنوان ہے ’’شہرِ آشوب‘‘… (کیا حسبِ حال ہے) گزر گئے پسِ در کی اِشارتوں کے وہ دن کہ رقص کرتے تھے مے خوار رنگ کھیلتے تھے نہ محتسب کی تھی پروا نہ شہر دار کی تھی ہم اہلِ دل سرِ بازار رنگ کھیلتے تھے … غرورِ جبّہ و دستار کا زمانہ ہے نشاطِ فکر و بساطِ ہُنر ہوئی برباد فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنتِ شداد … ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے یہ انتظام تو دیکھو خزاں پرستوں کا بچھائی جاتی ہیں سنگینیاں نمو کے لیے … اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال جو سوئے رنگ اٹھے اس نظر کو گل کر دیں جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ فضا بیزار شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گل کر دیں … ہوئی ہے جانبِ محراب سے وہ بارشِ سنگ کہ عافیت خمِ ابرو کی ہے بہت دشوار ستم کیا ہے عجب منجنیقِ منبر نے حریمِ دل کی سلامت نہیں رہی دیوار … یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہد پہ بھی منافقت کی شبیہوں کا خوف طاری ہے نمازِ خوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے … یہ ہیں وہ تیرہ دلانِ قلمروِ تاریخ جو روشنائی دانش کا خون کرتے رہے یہی تو ہیں جو حکیموں کی حکمتوں کے خلاف ہر ایک دور میں حاکم کے کان بھرتے رہے … ہیں ظلمتوں کی مربیّ طبیعتیں ان کی کبھی یہ روشنی طبع کو نہیں مانے ہے روشنی کا انہیں ایک ہی نظارہ پسند کہ جشنِ فتح منے اور جلیں کتب خانے … دیا ہے کام انہیں شب کے سرپرستوں نے سپیدۂ سحری کو سیاہ کرنے کا ملا ہے عہدہ کلیسائے غرب سے ان کو شعورِ مشرقِ نو کو تباہ کرنے کا … گذشتہ عہد گزرنے ہی میں نہیں آتا یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانے میں جو رَد ہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے وہ لوگ ہم پہ مسلّط ہیں اس زمانے میں o

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں