قدیم زمانوں کا ذکر ہے‘ جب شہر جنگلوں سے زیادہ خطرناک نہیں ہوا کرتے تھے‘ ایک بزرگ نے ایک سنسان جنگل سے گزرتے ہوئے ایک بچے کو سجدے میں زاروقطار روتے ہوئے دیکھا۔ بزرگ نے بچے سے پوچھا ’’تو کون ہے بیٹا ؟اس ویران جنگل میں تیری عبادت نے مجھے حیران کر دیا ہے‘ کون ہے تیرا استاد؟ جس نے تیری اتنی اچھی تربیت کی ہے کہ تو اتنی سی عمر میں اتنا متقی اور پرہیز گار بن گیا…؟‘‘ بچے نے جواب دیا ’’ میری استاد میری ماں ہے۔ وہ ایک دن چولہے میں لکڑیاں جلا رہی تھی جو بہت بڑی بڑی تھیں، بڑی ہونے کی وجہ سے لکڑیاں آگ نہیں پکڑ رہی تھیں تو میری ماں نے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اٹھائیں اور ان کو آگ لگانی شروع کی، دیکھتے ہی دیکھتے ان چھوٹی لکڑیوں میں فوراً آگ لگ گئی‘ ان چھوٹی لکڑیوں کی آگ کے باعث بڑی لکڑیاں بھی جلنے لگیں تب میں نے سوچاکہ قیامت والے دن فرعون ونمرود جیسے بڑے بڑے گناہ گاروں کو جلانے کیلئے جہنم کی آگ پہلے ہم جیسے چھوٹے گناہ گاروں کے ذریعے ہی لگائے جائے گی۔‘‘ پاکستان میں بھی زیادہ تر ہماری توجہ بڑے بڑے گناہ گاروں‘ بڑی مچھلیوں‘ مگرمچھوں اور بڑے بڑے مسائل پر ہوتی ہے۔ ہمارا بیشتر وقت زرداری، گیلانی، الطاف حسین، ، نواز شریف، پرویز خٹک، قائم علی شاہ ، عبدالمالک اور بڑے بڑے بیورو کریٹس، ججوں اور جرنیلوں پر تنقید میں گزرتا ہے، یقینا بڑوں پر تنقید کرنی بھی چاہیے کہ بڑے شگاف جہاز کو جلدی لے ڈوبتے ہیں مگر ساتھ ساتھ ہمیں اپنی اور اپنی قوم کی چھوٹی چھوٹی باتوں، چھوٹے چھوٹے گناہوں اور چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پہ بھی نظر رکھنی چاہیے کہ سوئی کے ناکے جتنا سوراخ بھی مرمت نہ کرنے پر شگاف میں تبدیل ہو کر جہاز کے ڈوبنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ہم میں سے بیشتر اپنے آپ کو نیکو کار اور معصوم کا سرٹیفکیٹ دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں حالانکہ روزِحشر جب اعمال سامنے لائے جائیں گے تو یہ نہ ہو کہ چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر ایک بہت بڑے پہاڑ کی صورت میں ہمارے سامنے آکھڑے ہوں اور کیا خبر کسی کے چھوٹے چھوٹے گناہ مل کر کسی بظاہر کرپٹ، نااہل، راشی بدکردار شخص کے گناہوں کے مقابلے پہ اتر آئیں۔ روز مرہ کی زندگی میں ہم بے شمار ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں کرتے ہیں جن کے نتائج انتہائی خوفناک ہو سکتے ہیں مگر ہم انہیں بُرائی اور گناہ تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں ہوتے مثلاً ہم اگر سائیکل پر ہیں تو ٹریفک اشارہ توڑنا ہمارے لیے معمول کی بات ہے حالانکہ اس کی وجہ سے بہت بڑا حادثہ جنم لے سکتا ہے۔ سائیکل کے علاوہ موٹر سائیکل اور کار سواربھی ٹریفک سگنل توڑنا فخر سمجھتے ہیں۔ اور اگر ٹریفک وارڈن روکے تو وہی کرتے ہیں جو سردار زہری کے گارڈز نے بلوچستان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ کیا۔ وزیر اعلیٰ نے بجائے قانون اور پولیس کا ساتھ دینے کے اپنے پیٹی بند بھائی صوبائی اسمبلی کے ممبر کو سپورٹ کرتے ہوئے پولیس افسر کو معطل کر دیا۔ عام آدمی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ نے وقت پڑنے پر عام آدمی کے بجائے خاص کا ہی ساتھ دیا گویا ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اسی طرح شیو کرتے، برتن دھوتے حتیٰ کہ وضو کرتے ہو پانی کے نل کھلے چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی احساس ہی نہیں کرتے کہ یہ اگر گناہ نہیں بھی ہے تو نعمتِ خدا وندی کا کتنا زیاں ہے، کفرانِ نعمت ہے۔ کیا خالقِ کائنات اس کا حساب نہیں لے گا؟ دورانِ ڈرائیونگ موبائل سنتے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کرنا ہم سب کا معمول ہے۔ اس سے جو حادثے جنم لیتے ہیں ان کا انجام یا موت ہوتا ہے یا تمام عمر کی معذوری ۔ کیا ایسا فعل ایسی کوتاہی جس کے انجام پر انسان کسی کی جان سے کھیل جائے‘ یعنی قتل کا مرتکب ہو جائے‘ گناہ نہیں کہلائے گا تو کیا کہلائے گا؟ اگر ٹریفک ہی کی بات کریں تو عین زیبرا کراسنگ کے اوپر گاڑی، موٹر سائیکل کھڑی کر کے پیدل چلنے والوں کا حق مار لینا بھی ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یہ بھی ہمارے نزدیک کوئی بُرائی یا گناہ نہیں۔ اسی طرح اپنی گلیوں، سڑکوں پر ریپر، بوتلیں، خالی کین ، چھلکے اور گندگی پھینکنا ہمارا معمول ہے جس سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، بیماریاں پھیلتی ہیں نتیجے میں لوگ مر بھی جاتے ہیں مگر یہ بھی ہمارے لیے بُری بات نہیں ہے۔ اب تو اسے معمولی بُرائی بھی نہیں سمجھتے بلکہ معمول کی کارروائی سمجھتے ہیں۔ اپنے ملازموں سے چیخ کر بولنا‘ ان کی دل آزاری کرنا‘ پرائیویٹ یا سرکاری دفاتر کی سٹیشنری، وسائل، گاڑیوں کا سرکاری یا آفس کے کاموں کے علاوہ نجی مقاصد کے لیے استعمال ہماری سوسائٹی میں اب بُرا یا غلط سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جو گاڑیاں یا پٹرول ہمیں صرف سرکاری یا آفس کے کاموں کیلئے ملتا ہے تقریباً 90 فیصد سے زیادہ سوسائٹی ان سہولتوں کا استعمال نجی کاموں کے لیے بے دریغ اور ڈھٹائی سے کرتی ہے۔ اسی طرح مختلف اداروں کے ملازمین کودستیاب میڈیکل سہولت کا غلط استعمال بھی عام ہے۔ گلی محلوں میں قناتیں لگا کر غمی یا خوشی میں خلقِ خدا کا رستہ روک لینا ہمارا فخر بن چکا ہے۔ اسی طرح وفات کے موقع پر دیے جانے والے درس یا خوشی کے، شادی کے موقع پر انتہائی اونچی آواز میں میوزک بجا کر سارے محلے کو ڈسٹرب کرنے کو ہم اپنا حق اور بڑائی توسمجھتے ہیں‘ مگر برائی یا گناہ نہیں۔ دوسروں کی اذیت کا ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا تب ہی تو سکول اور ہسپتالوں کے سامنے ہارن بجانا اپنا فرض سمجھتے ہیں… مزید تفصیل میں جائیں گے تو کالم کے کالم لگ جائیں گے مگر ’’پکچرپھر بھی باقی رہے گی دوست…‘‘ کالم کے شروع میں درج کردہ حکائت سے کسی کو اختلاف ہوگا ، کوئی اتفاق کرے گا۔ اسی طرح کیا خبر کون جنتی ہے کون دوزخی ۔ مگر ایک بات طے ہے کہ ہمیں اپنی اپنی سلگائی ہوئی آگ کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں ہم معمولی سمجھتے ہیں ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشرے کو خوبصورت یا بدصورت بناتی ہیں۔ جہنم کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎ اہل دنیا یہاں جو آتے ہیں اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں