لکھنا تو مجھے ایک انتہائی اہم مغربی ملک کے اہم سفارتکار کے گھر ڈنر پر ہونے والی ملاقات کے بارے میں تھا۔ چند صحافیوں اور اینکر پرسنز کے ساتھ ہونے والی اس ملاقات میں گو کہ بار بار آف دی ریکارڈ کے الفاظ استعمال ہوئے ، لیکن کوئی بات(Quote)کوٹ کیے بغیر اس پر اپنا تاثر تو پیش کیا ہی جا سکتا ہے کہ مغربی سفارتکار پاکستان میں ہونے والی اے پی سی سے لے کر انتہا پسندی کے معاملات و پاکستان میں کام کرنے والے تیس سے زیادہ انتہا پسند گروپوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کو کیسے دیکھتے ہیں۔ پاک انڈیا تعلقات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ پاک فوج اور حکومت کے مابین تعلقات کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ سو لکھنا آج اسی تاثر کے بارے میں تھا کہ دنیا اور دنیا کے اہم ممالک جن کی ہماری زندگیوں پر، ہم چاہیں نہ چاہیں ، مانیں نہ مانیں‘ گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیا رائے رکھتے ہیں۔ اور اس رائے کے کیا مثبت یا منفی اثرات ہماری ملکی سیاست و عوامی زندگیوں پر پڑ سکتے ہیں۔ مگر درمیان میں معصوم ننھی پری سُنبل کے ساتھ ہونے والی زیادتی نے پورے ملک کی طرح مجھے بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ آنکھ بند کرتے ہی سنبل کا معصوم پھول سا چہرہ نظروں کے سامنے آجاتا ہے اور جس طرح درندوں نے اس پھول کو بھنبھوڑا ہے اس کی تفصیل مدتوں نس نس میں درد وغم کی لہریں اٹھاتی رہے گی۔ سنبل کے باپ کا بیان چھپا ہے کہ ’’میری بیٹی کا قصور کیا ہے؟‘‘ شاید یہی کہ وہ ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئی ہے جہاں بقول سعدی… سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد اسلامی نظام لانے والے داعی ضیاء الحق ہوں یا معاشرے کو مادر پدر آزاد دیکھنے کی خواہش رکھنے والے جنرل مشرف، شبنم ریپ کیس سے لے کر ڈاکٹر شازیہ و کیپٹن حماد کیس تک درندگی کے ان واقعات پر ہر دور میں جس طرح انصاف کی دھجیاں اُڑائی گئیں اس کا نتیجہ یہی ہوا کرتا ہے۔ سنبل کے ساتھ دردندگی کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ شبنم ریپ کیس سے ہی اگر شروع ہو جائیں تو 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال تک آتے آتے سینکڑوں ہزاروں کیسز سامنے آتے ہیں اور جاوید اقبال سے لے کر سنبل کیس تک بھی ان کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے۔ کڑوا ترین سچ یہی ہے کہ جن معاشروں میں سیاسیہ واشرافیہ سے لے کر عام انسانوں تک ہر ایک کی تمام تر توجہ مادی اشیا کے حصول پر لگی ہو، تعلیم سے لے کر ممبر پارلیمنٹ کی سیٹ تک کے حصول کی خواہش صرف اور صرف اس غرض سے کی جاتی ہو کہ کتنا ’’مال‘‘ کمایا اور بنایا جا سکتا ہے۔ جس معاشرے میں انسانوں کو ان کی گاڑیوں ان کے لباس، ان کی مہنگی گھڑیوں ، برانڈڈ چشموں اور ان کے گریڈز سے پہچانا جاتا ہو۔ جہاں استاد اور علم کے بجائے صرف اور صرف کاروبار، زردار، اور تجار کی اہمیت ہووہاں بالآخر حالات وہاں پہنچا دیا کرتے ہیں جہاں سنبل جیسی معصوم کلیوں کو مسلا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو راوی میں بہایا جاتا ہے اور سگے بیٹوں کو بھوک وغربت کے باعث قتل کر کے خودکشیاں کی جاتی ہیں۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ سیاسی ماحول کی گرما گرمی میں جو ذرا کمی آئی ہے اس وجہ سے میڈیا نے بھی اس واقعے کو اتنا ہائی لائیٹ کر دیا ورنہ سیاست، سیاست، سیاست اور وہ بھی سماجی رویوں سے آشنائی کی بنیاد پر نہیں، معاشرتی الجھنوں کے ادراک کی بنیاد پر نہیں، صرف شطرنجی سیاست ہی ہمارا موضوع ہوا کرتی ہے۔ اس لیے ایک آدھ دن چینلز کا سیاپا ہو گا جس کے جواب میں اعلیٰ حکام کے نوٹس لیے جانے کی خبریں چلیں گی اور پھر سنبل ساری عمر کے لیے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی اذیت کے ہمراہ جسمانی و ذہنی سطح پر اپنے برباد وجود کا بوجھ ڈھونے کے لیے کہیں گم ہو جائے گی۔کوئی سنبل کے ساتھ ہونے والی اس درندگی کے اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جیسے آج کوئی نہیں جانتا کہ تقریباً تین دہائیوں قبل ریپ ہونے والی معروف فلم سٹار شبنم آج بھی رات کوسو نہیں پاتی ہیں۔ اچانک چونک کر اٹھ جاتی ہیں۔ تین دہائیاں گزرنے پر فلمسٹار شبنم کے جسمانی زخم تو بھر چکے ہیں مگر روح پہ لگنے والے زخم تین سو دہائیوں میں بھی نہیں بھر پائیں گے۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب مسیحا کسی بیماری کے اسباب ہی نہیں سمجھے گا‘ تشخیص کرنے کا اہل ہی نہیں ہو گا۔ بیماری کی وجوہات ہی دریافت کرنے میں دلچسپی نہیں لے گا تو علاج کیا خاک کرے گا۔؟؟؟ اگر مجرم پکڑے جاتے ہیں اور اللہ کرے کہ ضرور پکڑے جائیں تو انہیں صرف پولیس مقابلے میں پار کرنا ہی مسئلے کا حل سمجھا جائے گا بجائے اس کے کہ مجرموں کو عدالتی نظام کے ذریعے سخت ترین سزائوں سے پہلے ان کا نفسیاتی تجزیہ کرکے ان وجوہات کو سمجھا جائے جن کے باعث وہ اس درندگی کے مرتکب ہوئے۔ جیسے کسی جسم کے مختلف حصوں میں فسادِ خون کے باعث اگر آبلے نمودار ہوجاتے ہوں اور خون کی صفائی کے بجائے آبلے کو کاٹ کر یہ سمجھا جائے کہ مرض سے نجات مل گئی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ آبلے اسی طرح تب تک وجود کے مختلف حصوں پر نمودار ہوتے رہیں گے اور ان سے پیپ بہتی رہے گی جب تک اصل مرض جو کہ وجود کے اندر ہے نسوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے اس کی تشخیص اور علاج پر توجہ نہیں دی جاتی۔ لیکن یہ کون کرے گا؟؟؟ جب حکومتیں علم وخرد والوں کے بجائے تاجروں اور زرداروں کے ہاتھوں میں چلی جائیں تو معاشیات پر توجہ کا چرچا تو ہوتا ہے مگر روحانیات واخلاقیات کی بات کوئی نہیں کرتا۔ بقول واصف صاحب لوگ صرف نیوٹن ہی کو کامیابی کی علامت سمجھتے ہیں‘ ملٹن کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہو ا کرتی ۔ مختلف طرح کے سیٹھ ، سرمایہ دار، جاگیر دار، مل اونر ہی پوری قوم کی انسپائریشن بن کر رہ جاتے ہیں۔ محبت ، انسانیت، درگزر، بھائی چارے کا درس دینے والے ادباء ، شعراء، فن کار، گلوکار، لکھاریوں، مصوروں کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں رہ جایا کرتی۔ ن لیگ کی حکومت جب نئی نئی آئی تھی تو بیان آیا تھا کہ معاشی بحالی کا بیل آئوٹ پیکیج لائیں گے۔ تب بھی لکھا تھا کہ ضرور لائیں معاشیات و معاشی خوشحالی یقینا فرد اور قوموں کی زندگی میں بے پناہ اہمیت رکھا کرتی ہے مگر ساتھ ساتھ اخلاقیات کے بیل آئوٹ پیکج پر بھی توجہ دیں ۔ چین سے پیسہ ، انویسٹمنٹ بجلی گھروں کے منصوبے سب کچھ ضرور لائیں مگر کبھی چینی فلسفی کنفیوشس اور اس کے افکار سے بھی قوم کو آگاہ وآشنا ضرور کریں۔ اسی شد ومد اسی قوت کے ساتھ جس طرح معاشی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ کاشغر سے گوادر تجارتی راہداری ضرور بنائیں مگر قوم وملک کی اخلاقی، روحانی وبشر سے انسان بننے کی تربیت کیلئے ایک ایسی علمی شاہراہ بھی بنانے کی کوشش کی جائے جس پہ سفر کر کے ہم اپنے اندر کے حیوان کو پیچھے چھوڑ کر انسان کہلانے کی منزل پر پہنچ سکیں۔ ورنہ اول تو اخلاقی بحالی کے بغیر معاشی بحالی ممکن ہی نہیں ہوا کرتی اور اگر جزوقتی ہو بھی گئی تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ شاہ رخ جتوئیوں جیسے کچھ لوگ معاشرے میں اور بڑھ جائیں گے لیکن اخلاقی سطح پر تربیت اور بحالی کے بغیر شاہ زیب جیسے ایسے ہی قتل ہوتے رہیں گے۔ 100 بچوں کے قاتل جاوید اقبال جیسے ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا اور سنبل جیسی بیٹیاں اسی طرح آئے دن ریپ ہوتی رہیں گی، قوم وملک سے پوچھتی رہیں گی کہ آخر ہمارا قصور کیا تھا…؟؟؟ اب تو لگتا ہے کہ اس ملک کے بچے اور بچیاں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ… قتلِ طفلاں کی منادی ہو رہی ہے شہر میں ماں مجھے بھی مثلِ موسیٰ تو بہا دے نہر میں ابابیل / وصی شاہ