میں ڈپلومیٹک انکلیو کی طرف بڑھ رہا تھا‘ اسلام آبادکی اُس سڑک سے ہوتا ہوا جس پہ موجود عمارتوں میں 20 کروڑ کے لگ بھگ پاکستانیوں کی تقدیر کے فیصلے ہوا کرتے ہیں۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ تاریخ اور تجربہ بتاتا ہے کہ ہمیشہ بیشتر فیصلے حکمران اپنی اور اپنے خاندان کی تقدیرسنوارنے کی غرض سے کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے فیصلوں میں عوام کی بربادی مضمرہوا کرتی ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی تقدیر سنورتی رہی اور سنور رہی ہے اور 20 کروڑ کے قریب نفوس کی تقدیر تذلیل میں بدل چکی ہے۔ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے جس کا پاکستانی پچھلے 65 برسوں سے شکار ہیں اور آج کل اس رسوائی‘ اذیت وتذلیل کی چوٹی پر براجمان ہیں۔ سو انہی عمارتوں کی بے حسی پر نظر ڈالتا ہوا ڈپلومیٹک انکلیو میں داخل ہوا تو ماحول میں تھوڑی خُنکی تھی‘ جنگل کو کاٹ کر بسائے گئے اس شہر میں ماضی کے جنگل کی مخصوص خوشبو فضا کو مسحور کر رہی تھی۔ عذاب عامہ کے حوالے سے جس قسم کے فیصلے اس شہر کے ایوانوں سے نکل کر پورے ملک کے عوام پر مسلط کیے جاتے ہیں جنگل کی اس خوشبو میں ان بدبودار رویوں اور فیصلوں کی کوئی آمیزش نہ تھی۔ میں جب انتہائی اہم مغربی ملک کے سفارتکار کی رہائش گاہ پر پہنچا تو ہمیشہ کی طرح تھوڑی تاخیر ہو چکی تھی۔ بقول منیرؔ صاحب: ع ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں مگر ابتدائی ہیلو ہائے کے بعد ایمبیسیڈر صاحب کے بار بار آف دی ریکارڈ‘ آف دی ریکارڈ کے الفاظ سے اندازہ ہوا کہ تاخیر سے پہنچ کر بھی وقت پر پہنچ گیا تھا۔ اردو اور انگریزی صحافت کے کئی درخشندہ ستارے دبیز صوفوں پر براجمان تھے۔ دائیں طرف لائونج سے ذرا ہٹ کے دیوار پر چھوٹے چھوٹے درجنوں پاکستانی پرچم سے آویزاں دیکھ کر ایک عجیب سی خوشی نے مجھے گھیر لیا۔ ایجنڈا معاشیات اور تجارت تھا مگر گفتگو جو انتہا پسندی اور بدامنی پر شروع ہوئی وہ کسی طرح تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی بالکل ایسے ہی جیسے 40ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی کے باوجود امن پاکستانیوں کو نصیب ہوتا نظر نہیں آتا۔ لائونج سے لے کر ڈنر ٹیبل تک یہی گفتگو چلتی رہی کہ مذاکرات کا کیا ہو گا؟ کیسے شروع ہوں گے؟ کس کس گروپ سے ہوں گے؟ جس سے نہیں ہوں گے ان کا ردعمل کیا ہو گا؟ اور کیا جن سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں وہ مذاکرات کو سنجیدگی سے لیں گے؟ یا اس دوران صرف اپنی طاقت مجتمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ جن سے مذاکرات کی خواہش کے لیے اے پی سی بلوائی گئی ان کا کوئی نظریہ ہے بھی یا نہیں اور اگر نظریہ نہیں ہے تو وہ اتنے موٹیویٹڈ کیسے ہیں؟ پاکستان کے اندر مختلف سیاسی جماعتوں اور بعض حکمران جماعتوں کی صفوں میں انتہا پسندوں سے جو گہرے تعلقات پائے جاتے ہیں ان کا مذاکرات پر کیا اثر ہو گا؟ مذاکرات کامیاب نہ ہونے کی صورت میں اگر فوجی آپریشن شروع ہو جاتا ہے تو حکمران جماعتوں کی صفوں میں پائے جانے والے انتہا پسند گروپس کس کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ ان کا ردعمل کیا ہو گا ؟ کسی بہت ہی قدیم قبائلی سردار کی پیچ در پیچ پگڑی کی طرح سوالات انتہائی پیچیدہ تھے اور انتہائی اہم ذرائع تک رسائی رکھنے کے باوجود اس سفارتکار کے پاس بھی کسی بات کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا۔ گفتگو میں یہ تاثر ضرور ملا کہ بیرونی دنیا میں پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت کے انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کے بیانات کو زیادہ پسندیدگی کی نظروں سے نہیں دیکھا گیا حالانکہ اس اہم سیاسی جماعت کے اہم ترین تجارتی شہر پر غلبے کے باعث اس کی سیاسی اہمیت کا ادراک بیرونی قوتوں کو بھی ہے اور یقینا اپنی اس اہمیت کا احساس اس جماعت کو بھی ہے۔ موجودہ گورنمنٹ کی اب تک کی پیش کردہ پالیسیز کے حوالے سے بھی یوں لگا کہ بیرونی دنیا بھی پاکستانیوں کی طرح ابھی پوری طرح سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی کہ موجودہ گورنمنٹ کس سمت میں ملک کو لے جانا چاہتی ہے اور کیسے لے جانا چاہتی ہے۔ البتہ یہ تاثر ضرور ملا کہ اس گورنمنٹ سے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا بھی بہتری کی امیدیں باندھے ہوئے ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے سفارتکار حیرت کا اظہار کرتے پائے گئے کہ بھارت کیوں نہیں سمجھ پا رہا کہ بارود پہ بیٹھا پاکستان اگر کمزور ہو گا تو بھارت کے لیے زیادہ خطرے کا باعث بنے گا۔ مگر کیا کیا جائے کہ فرد ہو کہ مملکتیں، انا،عقل پہ حاوی آجائے تو یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ چین کے ساتھ موجودہ حکومت کے نئے منصوبوں کے حوالوں سے گفتگو پہ اندازہ ہوا کہ مغربی دنیا خصوصاً بلوچستان گوادر میں بننے والے منصوبوں پہ گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ ساری گفتگو چونکہ آف دی ریکارڈ تھی لہٰذا صرف تاثر ہی پیش کیا جا سکتا ہے اور گفتگوکا مجموعی تاثر یہ ہے کہ پاکستانیوں کی طرح بیرونی دنیا بھی موجودہ حکومت کو دو بڑے عہدوں کے سربراہوں کی تبدیلی کے بعد صحیح معنوں میں مختلف معیار پہ پرکھنا شروع کرے گی جیسے شیخ رشید فرماتے ہیں کہ اصل حکومت یکم جنوری 2014ء سے شروع ہو گی۔مگر میجر جنرل ثناء اللہ کے واقعے کے بعد خصوصاً پاک فوج میں پائے جانے والے غم وغصے کے باعث صاف نظر آتا ہے کہ جنوری تک کا سفر بھی نحیف ونزار پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بہت کٹھن ہو گا شاید اس سے بھی زیادہ کٹھن جتنا پچھلی ایک دہائی سے پاکستان اور پاکستانی جھیل رہے ہیں ۔