ستر سال کا ہجر اور ’’گلزار‘‘صاحب

دنیا نیوز پر معروف اینکر کامران شاہد کے پروگرام میں برصغیر کے معروف فلم ڈائریکٹر، رائٹر اور شاعر گلزار صاحب کا انٹرویو نشر ہوا تو گلزار صاحب کے ساتھ گزارے گئے لمحات کی یادیں پھر سے تازہ ہو گئیں۔ گلزار صاحب جب بھی پاکستان تشریف لاتے ہیں میرے قریبی دوست حسن ضیا کے مہمان ہوا کرتے ہیں۔ تقریباً ایک مہینہ قبل معروف گلوکار راحت فتح علی خان ، میاں یوسف صلاح الدین اور حسن ضیا کے ہمراہ گلزار صاحب کے ساتھ گزاری گئی حسین شام کی تفصیل پھر کسی وقت درج کروں گا۔ فی الحال تو گلزار صاحب کا انٹرویو دیکھ کر میرا دل چاہا کہ ’’دنیا‘‘ کے قارئین کے ساتھ اس سفر کی روداد ضرور شیئر کی جائے جو گلزار جیسے حساس لکھاری کی زندگی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں پہلے بھی اس سفر کے بارے میں لکھ چکا ہوں مگر جی چاہتا ہے، ’’دنیا ‘‘کے قارئین کو بھی اس سفر کی خوشبو، کرب اور یادوںمیں شامل کروں کہ گلزار صاحب کا اپنی جنم بھومی کا یہ سفر وصل اور ہجر کا عجیب امتزاج تھا۔ اس روز جب ناشتے کی ٹیبل پر گلزار صاحب سے ملاقات ہوئی تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے اسی گرم جوشی سے گلے لگایا جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ گلزار صاحب سے ملتے ہوئے ہمیشہ مجھے یہی احساس رہا کہ جیسے میں برگد کے کسی انتہائی شفیق اور قدیم درخت سے مل رہا ہوں جس کی آنکھوں میں گزرے ہوئے ماضی کی کہانیاں ہیں‘ ایسی کہانیاں جنہیں اس برگد کی چھائوں میں بیٹھ کر صدیوں پلکیں جھپکے بغیرسنا جاسکتا ہے۔ گلزار صاحب کی شخصیت کا یہ بھی خاصہ ہے کہ ان سے ملاقات کرنے والے پر ان کی شخصیت کا سحر اور خوشبو دیر تک ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے اور اگلی ملاقات تک پچھلی ملاقات کا ذائقہ جسم وجاں کو معطر کیے رکھتا ہے۔ گلزار صاحب کو میرا دوست حسن ضیا’’بابا‘‘ کہتا ہے اور گلزار صاحب کے پاکستان میں ’’بابا‘‘ احمد ندیم قاسمی مرحوم تھے۔ لہٰذا ان کی خواہش کے مطابق طے یہی ہوا ہے کہ سب سے پہلے مرحوم احمد ندیم قاسمی صاحب کی قبر پر جایا جائے اور برصغیر پاک وہند اور اردو دنیا کے اس عظیم شاعر اور افسانہ نگار کی قبر پر فاتحہ خوانی کے بعد گلزار صاحب کی جنم بھومی ’’دینہ‘‘ کا سفر اختیار کیا جائے۔ہمارے قافلے میں گلزار صاحب کے ساتھ معروف فلم اور میوزک ڈائریکٹر وشال بھردواج اور ان کی اہلیہ معروف سنگر ریکھا بھردواج بھی شامل تھیں ۔مال روڈ کے فائیوسٹار ہوٹل سے جب یہ قافلہ قاسمی صاحب کی آخری آرام گاہ پر حاضری کیلئے روانہ ہوا تو میں نے گلزار صاحب کو مال روڈ کی تاریخ سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ آنکھوں میں ماضی کے چراغ روشن رکھنے والے گلزار صاحب کی آنکھیں ماضی کے مال روڈ کے مناظر کا تصور کر کے چمک اٹھیں۔ آج کے ٹریفک کے بے ہنگم شور کے بجائے مال روڈ پر ماضی میں جو پرسکون زندگی تھی‘ جس طرح شاعر، موسیقار، فنکار، مصور آکر مختلف چائے خانوں اور ٹی ہائوس میں بیٹھاکرتے تھے‘ جس طرح ناصر کاظمی مال روڈ پر آوارہ خرامی کرتے ہوئے اداس کر دینے والے شعر کہا کرتے تھے‘ اس سب کا ذکر ہوا۔ گلزار صاحب کی پاکستان سے محبت تو سمجھ میں آتی ہے کہ آج تک دینہ اور پاکستان اُن کی آنکھوں اور دل میں بستا ہے مگر جس طرح وشال بھردواج کی بیگم معروف سنگر ریکھا بھردواج مال روڈ سے گزرتے ہوئے لارنس گارڈن جو اب باغِ جناح کہلاتا ہے کا ذکر کر رہی تھیں اور اردو کے بورڈ ز جس دلچسپی سے پڑھنے کی کوشش کر رہی تھیں وہ مجھے حیران کر دینے کیلئے کافی تھا۔ جب لارنس گارڈن کا ذکر آئے تو کیسے ممکن ہے کہ گفتگو میں راجہ گدھ کا اور پھر بانو آپا کا ذکر نہ آئے… مجھے حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ باہمی رابطے نہ ہونے کے باعث دونوں ممالک کے بڑے اور نامور ادیب بھی پوری طرح ایک دوسرے کے کام اور شخصیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ میں نے جب گلزار صاحب کو راجہ گدھ کے بارے میں اور بانو آپا کی شخصیت، عظمت اور منفرد اسلوب کے بارے میں بتایا تو گلزار صاحب نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ضرور راجہ گدھ پڑھنا چاہیں گے۔مال روڈسے ماضی کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے شہر کے مختلف حصوں سے گزرتے ہوئے قافلہ احمد ندیم قاسمی مرحوم کی قبر پر جا پہنچا۔ کچھ دیر گلزار صاحب اپنے مرحوم ’’بابا‘‘ کو یاد کرتے ہوئے گم سم کھڑے رہے۔پھر یوں جھکے کہ ان کے دونوں گھٹنے قاسمی صاحب کی قبر کی مٹی چھو رہے تھے‘ گلزار صاحب نے قبر کی گیلی مٹی پہ دونوں ہاتھ رکھ دیے جیسے قبر میں مدفون قاسمی صاحب کے لمس کو محسوس کر رہے ہوں‘ پھر دونوں ہاتھ اپنے سینے پہ رکھے جیسے اپنے بابا کو گلے لگا لیا ہو … انہیں جپھی ڈال لی ہو… میں نے پھول ڈالتے ہوئے پھولوں جیسے گلزار کی آنکھوں میں دیکھا‘ دور کہیں ایسی نمی جھلملا رہی تھی جسے دیکھا نہیں جا سکتا تھا‘ صرف محسوس کیا جا سکتا تھا۔ گلزار صاحب نے کچھ دور کھڑے وشال کو پاس بلایا اور ریکھا بھردواج کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر قاسمی صاحب کی قبر کے کتبے پر درج شعر پڑھ کر سنایا جس پر مجھے غالب یادآگئے: سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں میرے شعر پڑھنے پر گلزار صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی مگر آنکھوں میں احمد ندیم قاسمی کی یاد بھری اداسی۔ قبرستان سے نکل کر قافلہ موٹروے سے ہوتا ہوا دینہ کی طرف چل پڑا… رستے میں کئی جگہ رکتے رُکاتے بالآخر یہ قافلہ جہلم کے علاقے میں داخل ہو گیا ۔ دینہ کی سرحد میں داخل ہونے سے پہلے جہاں دینہ کا بورڈ لگا ہے‘ گلزار صاحب نے وہاں کچھ دیر قیام کی خواہش کا اظہار کیا اور خاص طو رپر اردو میں لکھے ہوئے ایک بورڈ کے سامنے تصویر بنوائی ۔ صاف لگ رہا تھا کہ گلزار صاحب اُس ساری فضا‘ سارے ماحول کو اپنے جسم وجاں میں اتار لینا چاہتے ہیں۔اس دھرتی پر لگے ایک ایک درخت‘ ایک ایک پودے‘ ایک ایک نقش کواپنے حافظے میں محفوظ کر لینا چاہتے ہیں۔ یہاں میری بیٹی دُعا نے گلزار صاحب کو غالب، میر، بلھے شاہ کے اور خود ان کے اشعار سنائے تو گلزار صاحب بہت دیر تک دُعا سے باتیں کرتے رہے۔ ان کے ہونٹوں پہ مستقل ایک مسکراہٹ تھی مگر جوں جوں دینہ قریب آرہا تھا ایک ایسی بے نام سی کیفیت ان کے چہرے پر پڑھی جا سکتی تھی جو نہ پریشانی تھی نہ بے چینی نہ اداسی نہ خوشی بلکہ اس کیفیت کو کوئی بھی نام نہیں دیا جا سکتا‘ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیفیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اپنی جنم بھومی سے برسوں دور رہنے پر مجبور رہے ہوں اور برسوں بعداس سرزمین پر قدم رکھ رہے ہوں جہاں ان کا بچپن گزرا ہو۔ عام انسان تو عام انسان عظیم پیغمبر بھی جن علاقوں میں پلے بڑھے ہوتے ہیں انہیں ہمیشہ یاد کرتے رہتے ہیں۔ میرے آقا سرکار دوعالم ﷺ جب مکہ سے ہجرت کے بعد مدینے میں قیام پذیر تھے تو اپنا رُخِ انور مکہ کی طرف کر کے اس جانب سے آنے والی ہوا کو اپنے چہرۂ مبارک اور جسمِ اطہر پر محسوس کیا کرتے تھے۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں