ستر سال کا ہجر اور ’’گلزار‘‘صاحب …(دوسرا حصہ)

دینہ میں سب سے پہلے ہم دینہ اسٹیشن پر پہنچے جس سے گلزار صاحب کی بے شمار یادیں وابستہ تھیں۔ جذبات میں ڈوبے ہوئے گلزار صاحب وہاں موجود احباب سے وہاں آنے جانے والی ٹرینوں اور اس سے جڑی اپنی شرارتوں اور یادوں کا تذکرہ کرتے رہے۔ دینہ اسٹیشن پر گلزار صاحب کے محلے کے کچھ لوگوں کے علاوہ اور بھی کافی لوگ جمع ہو چکے تھے۔ حساس شاعر اور انسان گلزار صاحب نے تو اس کا قطعی اظہار نہیں کیا مگر مجھے شدت سے محسوس ہو رہا تھا کہ گلزار صاحب کو وہاں کچھ وقت اکیلے بھی فراہم کرنا چاہیے…کہ صرف گلزار صاحب ہوں دینہ ہو اور گلزار صاحب کی یادیں ہوں۔ میں نے اپنے دوست حسن ضیاء سے اس کا اظہار کیا تو حسن نے بڑی مشکل سے لوگوں کو قائل کر کے کچھ دیر کے لیے اپنے ’’بابا‘‘ کو تنہائی فراہم کی۔ دینہ اسٹیشن پر لگے بورڈ کے پاس کھڑے گلزار صاحب بہت دیر تک دور تک جاتی خالی ریل کی پٹڑیوں اور ارد گرد کی فضا کو دیکھتے رہے۔ اس دوران میں نے گلزار صاحب کو اپنی شہادت کی انگلی سے آنکھوں میں آئے ہوئے کھارے پانی کو بھی صاف کرتے دیکھا۔ دینہ اسٹیشن سے یہ قافلہ اس اسکول میں پہنچا جہاں گلزار صاحب بچپن میں پڑھا کرتے تھے۔ سکول کے میدان میں‘ میں نے گلزار صاحب کو ان کی وہ نظم یاد کرائی جس میں وہ تختی لے کر بھاگتے ہیں تو گلزار صاحب نے نظم کے اس ٹکڑے کا ذکر کیا جس میں تختی پر گاچی ملی جاتی ہے اور کوئی حاملہ لڑکی ان سے وہ گاچی چھین لیا کرتی تھی۔ وقت نہیں تھا ۔ ہجوم تھاورنہ میں گلزار صاحب سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھنا چاہ رہا تھا اور مجھے لگا کہ گلزار صاحب بھی اس وقت اس بارے میں بہت سی باتیں کرنا چاہ رہے تھے مگر لوگوں کے ہجوم میں یہ ممکن نہ تھا۔ شہرت کا ایک المیہ یہ بھی ہواکرتا ہے کہ انسان بعض اوقات جہاں تنہائی چاہ رہا ہوتا ہے وہاں ہجوم اسے تنہائی نہیں دیتا اور جہاں بظاہر ہجوم میں ہوتا ہے وہاں بھی دراصل اکیلا اور تنہا ہی ہوتا ہے۔ گلزار صاحب وہاں موجود لوگوں سے بچپن کے دوستوں اور اساتذہ کی باتیں کرتے رہے ان کے سکول والوں نے بلڈنگ کا ایک بلاک گلزار صاحب سے محبت وعقیدت کے اظہار کے طور پر ان کے نام کیا اور اس پر گلزار کالڑہ بلاک کی تختی لگا دی۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ ستر سالوں کا ہجر وصل میں تبدیل ہونے جا رہا تھا۔ اگلی منزل تین سے چار فٹ کی وہ تنگ وتاریک گلی تھی جس کے ایک چھوٹے سے آنگن میں گلزار جیسے مہکتے ہوئے کشادہ انسان کا بچپن گزرا تھا۔ جب ہم گلزار صاحب کی گلی میں پہنچے تو پھولوں کے ہار اور مٹھائی کے ڈبے لیے ہوئے لوگ ان کے منتظر تھے گلزار صاحب انتہائی حسرت ومحبت وعقیدت سے دیوار پہ لگی ایک ایک اینٹ کو دیکھتے اور محسوس کرتے رہے جیسے ہر اینٹ پہ ماضی کی کسی یاد کا چہرہ اُبھر کر انہیں مسکرا مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہا ہو۔گھر میں داخل ہو کر چھوٹے سے صحن میں محلے والوں سے ماضی کے لوگوں کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ اپنے والد اور اپنے دادا کے قصے سناتے رہے۔ ان کے آباؤاجداددودھ کے کاروبار سے منسلک تھے اور چرواہے بھی تھے۔ پھر کس طرح ان کے بڑوں نے تعلیم حاصل کی اور تجارت شروع کی، کیسے تختی لہراتے ہوئے سکول جایا کرتے تھے ، کیا کیا شرارتیں کیا کرتے تھے۔ برابر والی گلی میں ہم جولیوں کے ساتھ کیسے کھیلا کرتے تھے؟ جو جو یاد آتا جا رہا تھا گلزار صاحب وہ سب شیئر کر رہے تھے۔ آنکھوں میں حسرت ویاس مسرت وخوشی وصل وہجر کے ملے جلے دیے جل رہے تھے ہونٹوں پہ اداسی بھی تھی اور مسکراہٹ بھی۔ شام اپنے پَر تولے ہوئے اس گلی‘ اس گھر اور گلزار کے دل پر اتر رہی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ گلزار صاحب وہاں کچھ اور دیر قیام کرنا چاہتے ہیں انہوں نے اس کا اظہار نہیں کیا مگر شاید وہ گھر جو ان کے لیے کسی کعبے سے کم نہیں تھا‘ اس میں ایک رات ضرور قیام کرنا چاہتے تھے لیکن شاید یہ ممکن نہیں تھا۔ ان کے پرانے محلے داروں میں سے کچھ لوگ ان سے دیر تک پرانے لوگوں اور ان کے آباؤاجداد کا تذکرہ کرتے رہے اور گلزار صاحب سے عقیدت کے طور پر اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ وہ اس گلی کو گلزار صاحب کے نام سے منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ دل بھی اشکوں کے تعاقب میں بہا جاتا ہے ایک صحرا سا ہے سیلاب کے پیچھے پیچھے مختصر سے وصل کے بعد جدائی کی گھڑی آپہنچی تھی۔ سمندروں سے گہرے دلوں کا حال تو خالقِ کائنات ہی جانتا ہے مگر کیا کیجئے کہ دلوں پہ گزرنے والے موسموں کی باس اور رنگ، چہروں پر آکر صدیوں سے دلوں کے پوشیدہ رازوں کا احوال بیان کرتے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ اپنے چھوٹے سے گھر کے صحن میں کھڑے گلزار صاحب نے الوداعی نظروں سے ان دروازوں کو دیکھا جن پہ آج بھی مانوس دستکوں کے نشان باقی تھے۔ان کھڑکیوںپہ نگاہ ڈالی جن کے پٹ کھول کر بیلیوں سے باتیں کیا کرتے ہوں گے ۔ ہاتھ لہرا لہرا کر گاچی ملی ہوئی گیلی تختی سُکھایا کرتے ہوں گے ۔ ان چھتوں کو دیکھا جن پہ دوڑتی ہوئی چھپکلیاں شاید کبھی گلزار کو بچپن میں ڈراتی ہوں گی‘ دیر تک جگاتی ہوں گی اور اس رتجگے کی وجہ سے صبح سکول جاتے ہوئے گلزار کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہوتی ہوں گی۔ ان دیواروں کو دیکھاجن پہ شاید کبھی گلزار صاحب نے قلم سے لکیریں کھینچی ہوں گی۔ اپنی پہلی ادھوری نظم لکھی ہو گی۔ شاید ان کی ماں نے کبھی اسی آنگن میں توے پہ روٹی ڈالتے ہوئے غصے میں انہیں جھڑکا ہو گا ۔ کوئی فرمائش نہ پوری ہونے پر ان کے والد نے ان کے گال تھپتھپاتے ہوئے ان کے ہاتھوں میں کھلونے کی جگہ کوئی وعدہ تھمایا ہو گا۔ کسی ضد پہ اڑ جانے پہ ماں نے اپنے سمپورن سنگھ کو سینے سے لگایا ہو گا… اب وہاں نہ ماں کی گود تھی نہ والد کی چھائوں‘ نہ ہتھیلی پر رکھے ہوئے وعدے۔ نہ گلزار کو ڈراتی ہوئی چھپکلیاں نہ دیواروں پہ لکھی ہوئی ابتدائی ادھوری نظمیں نہ وہ ہنسی نہ وہ شرارتیں جو بچپن کے ساتھ ہی کہیں کھو جایا کرتی ہیں۔وہاں یادوں کے سوا کچھ نہیں تھا… کچھ بھی نہیں…!!! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں