کل کا بویا آج‘ آج کا بویا کل

ہر طرف خبریں ہی خبریں ہیں، جھوٹی سچی، ادھوری، نہایت ادھوری، مکمل، نامکمل، پلانٹڈ‘ اوریجنل، درست، غلط، چھوٹی، بڑی، اہم خبر نہایت غیر اہم جگہ پر اور غیر اہم خبر جلی حروف میں۔ الغرض یہ کہ خبروں کا ایسا ہجوم‘ ایسا شور ہے کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دیتی مگر کیا کیا جائے انہی خبروں کے شور میں سے اصل خبر کھوجنے کی کوشش کے علاوہ اور چارہ کیا رہ جاتا ہے۔ اگرچہ اس کھوج کے بعد بھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم اصل خبر تک پہنچ پائے ہیں یا نہیں‘ مگر ایک بات طے ہے کہ خبروں کے اس ہجوم میں اصل خبر کی کھوج کے ساتھ ساتھ ایک شے اور ہوا کرتی ہے۔ وہ ہے ملکی و غیرملکی معاملات میں عمومی طور پر ہماری قوم اور حکمرانوں کے رویے۔ خبر جھوٹی ہو یا سچی مگر خبروں کی سطح پر تیرتے حکمرانوں کے رویّے واضح طور پر دیکھے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ خبر جھوٹی سچی ہو سکتی ہے کہ وہ تو صرف ایک واقعے کی بابت ہی بتا رہی ہوتی ہے‘ وہ واقعہ بھلے کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، ہوتا صرف ایک واقعہ ہی ہے۔ یقیناً کبھی کبھی ایک واقعہ بھی تاریخ کا دھارا موڑ دیا کرتا ہے مگر واقعات سے کہیں زیادہ اہمیت ان رویوں کی ہوا کرتی ہے جن کے باعث کسی بھی قسم کے اچھے بُرے، اہم یا غیراہم واقعات جنم لیا کرتے ہیں۔ سماجی تاریخ تو سماجی تاریخ‘ جغرافیائی تاریخ میں بھی کوئی آتش فشاں اچانک نہیں پھٹ پڑتا بلکہ برسوں لاوا اندر ہی اندر پکتا رہتا ہے پھر ایک دن سب کچھ جلا کر خاک کر دیا کرتا ہے۔ شاعر نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سوات میں کامیاب فوجی آپریشن کرنے والے جنرل ہارون سینیارٹی کے باوجود کیوں آرمی چیف نہ بن پائے؟ اس پر برسوں بحث ہوتی رہے گی مگر جنرل ہارون کو چھوڑ کر جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی سٹاف بنائے جانے کے فیصلے کے سلسلے میں تمام کے تمام اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں‘ اطلاعات یہ بتاتی ہیں کہ اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے اب کس قسم کے معیار‘ وفاداریوں اور خصوصیات کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہی اخبار 'دنیا‘ کی خبر بتاتی ہے کہ جنرل عبدالقادر بلوچ نے میاں نواز شریف سے کہا تھا کہ ''وہ جتنا بھروسہ جنرل راحیل پر کرتے ہیں شاید اپنی اولاد پر بھی نہ کریں‘‘۔
اسی طرح یہ خبریں بھی ہیں کہ جنرل ہارون کے ایس ایس جی کے ساتھ تعلق سے بھی خوف محسوس کیا جا رہا تھا۔ گویا والنٹیریلی یہ کورس کرنے والے کمانڈوز آئندہ اس لیے اس سے اجتناب کیا کریں گے کہ جان ہتھیلی پر رکھ کر کیا جانے والا یہ کورس کل کو ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ گویا جو جتنی اچھی کارکردگی دکھائے گا‘ جتنا جان دینے کے لیے تیار ہو گا‘ اپنے فن اپنے شعبے میں جتنا ماہر، طاق، تیز طرار اور ہنرمند کہلائے گا‘ یہ ہنرمندی‘ یہ اپنے فن اپنے شعبے میں تیزی طراری، مہارت، کامیابی سے جان ہتھیلی پر رکھ کر سرانجام دیتے ہوئے آپریشنز اس کے حق میں نہیں‘ اس کے خلاف جایا کریں گے؟ حق میں جائے گا تو کیا؟ یہ کہ فلاں شخصیت کو فلاں پر اپنی اولاد سے زیادہ اعتبار ہے۔ یہی ہے ہمارے حکمرانوں کا عمومی رویہ کہ مہارت کے بجائے زندگی کے ہر شعبے میں اہم تعیناتی کے لیے ان سے ذاتی تعلقات، اعتبار اور ان کا اعتماد جیتنا ہی کامیابی کا یا اہم شعبوں کی سربراہی کا معیار قرار پایا ہے۔ جب پورے ملک میں اس معیار کے تحت تعیناتیاں کی جائیں گی تو ہر شعبے، ہر اہم عہدے پر جس قسم کے لوگ آئیں گے وہ مملکت اسی طرح چلائیں گے‘ جیسی ہماری ریاست چل رہی ہے... چلے گی کیا اب تو چلنے سے قاصر ہوئی جاتی ہے۔
اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ اوپر کے تین کیا دس جرنیل بھی ہوں تو ان کی صلاحیتیں یقیناً فوج کے کڑے احتسابی عمل سے گزرنے کے باعث بے مثال اور شاندار ہوا کرتی ہیں۔ سو اس میں کوئی شک نہیں کہ تین کیا ٹاپ کے فائیو جرنیلوں میں سے کوئی بھی آرمی چیف بنتا تو یقیناً وہ اس کا اہل ہوتا‘ اور جنرل راحیل شریف کا تو پورا خاندان ہی فوجی مہارت اور قربانیوں کی انتہائوں کو چُھو رہا ہے‘ سو چُنے جانے والے جرنیلوں پر نہیں قوم ذرا چُننے والے، انتخاب کرنے والے حکمرانوں کے رویوں پر غور کرے کہ جن کو چُننے کا اختیار ہے وہ مختلف شعبہ جات کے لیے اہم لوگوں کا چنائو کرتے وقت جس قسم کی ''صلاحیتوں‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہیں‘ وہ کیا ہیں۔ منتخب ہونے والے تو یقیناً بے مثال ہیں قوم ذرا انتخاب کے اس رویے پر غور کرے۔ اس نیت پر غور کرے جو مختلف اہم پوسٹوں کی تعیناتی کے سلسلے میں روا رکھی جاتی ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ اس قسم کی خبروں کے طوفان کے جواب میں حکومت کی طرف سے اب تک ایک بھی بیان ان خبروں کی تردید یا مخالفت میں نہیں آیا کہ یہ تعیناتی صرف اور صرف میرٹ کے تحت ہوئی ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں وضاحت کر کے بے معنی اور اداروں کو کمزور کرنے والے مباحث کا خاتمہ کرنا چاہیے۔
یہاں تو چلیں انتہائی مہارت رکھنے والے انیس بیس کے فرق کے تین لوگوں میں سے انتخاب کرنا تھا مگر دیگر بیشتر شعبوں میں وقت انتخاب مہارت تو بالکل ہی نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ صرف اور صرف ذاتی تعلق، رشتے داریاں، وفاداریاں وغیرہ ہی معیار رہ گیا ہے اور اس قسم کے ذاتی تعلق کی بنیاد پر کیے گئے چنائو کے بعد عام طور پر اداروں کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟ جب ایسے رویے ایسی نیتیں ہوں تو نتائج حادثوں کی شکل میں ہی سامنے آیا کرتے ہیں۔ البتہ فوری نہیں برسوں بعد‘ جیسے ہم برسوں پہلے کا بویا ہوا آج کاٹ رہے ہیں ایسے ہی اگر آج فیصلوں اور تعیناتیوں میں ذاتی تعلقات، اعتماد اور اعتبار کے بجائے میرٹ، میرٹ، صرف میرٹ اور مہارتوں کو پیش نظر نہ رکھا گیا تو آج کا بویا برسوں بعد کاٹ رہے ہوں گے۔ آج اگر پچاس ہزار پاکستانی بے موت مارے گئے ہیں تو کل یہ تعداد خاکم بدہن لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ سکندر مرزا سے لے کر یحییٰ خان تک اور بھٹو صاحب سے لے کر غلام اسحٰق خان تک سب چلے گئے مگر ہم ان کا بویا کاٹ رہے ہیں۔ اسی طرح آج منظروں پہ نظر آنے والے کل قبروں میں سو رہے ہوں گے مگر اگلی نسلیں ان کا بویا کاٹ رہی ہوں گی۔ جاتے جاتے یہ کہ مختلف اداروں کو بھی یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا وقت کیوں آیا ہے کہ مہارت کی نسبت اب ان کے حوالے سے اعتبار اور اعتماد جیسے الفاظ پر زیادہ بحث ہونے لگی ہے۔ آخر میں اس لافانی شعر کا پھر لطف لیجئے اور اس کی تہہ میں اتر کر زندگی کے اسرار کو بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں