کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اس میں دو رائے نہیں کہ مملکتِ خداداد میں حکمرانوں نے اپنی ذمہ داریاں دیانتداری سے سرانجام نہیں دیں‘ ورنہ وطنِ عزیز اس حالِ بد میں نہ مبتلا ہوتا۔ تباہی، بربادی، غربت و بے سکونی 20 کروڑ کے لگ بھگ عوام کا مقدر نہ ٹھہرتی اگر حکمرانوں نے اپنے معدوں اور خاندانوں کا ناجائز طور پر خیال رکھنے کے بجائے خلق خدا کا ذرہ بھر بھی خیال رکھا ہوتا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ حکمرانوں نے تو کچھ نہ کر کے جو کرنا تھا سو کیا مگر عوام نے کیا کیا؟ میں نے، آپ نے کیا کیا ہے؟ ہماری مائوں بہنوں بزرگوں نے کیا کیا؟ کیا ہم نے اپنی وہ ذمہ داریاں پوری کیں جس کا حکمرانوں سے دور دور تک لینا دینا نہیں تھا۔؟ کیا ہم نے اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت میں ان آداب ان راہنما اصولوں کو مدنظر رکھا جو صدیوں سے اس تہذیب کا خاصہ رہا ہے؟ جو ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے؟ بقول شاعر...
راستو کیا ہوئے وہ لوگ کہ آتے جاتے
میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے
اس شعر میں دو نسلوں کا وہ المیہ جو عدم تربیت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیا اس پر کبھی غور کیا ہم نے؟
کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کے احکام اور اچھی یا بری ہر طرح کی کارکردگی عوام پر کسی نہ کسی طرح اثرانداز ہوا کرتی ہے لیکن اپنے اپنے گھروں میں اپنی اولادوں کی کیسے تربیت کرنی ہے یہ تو ہمارے اختیار میں ہے۔ کیا ہماری مقدس ہستی کے اس قول مبارک پر بھی کہ ''جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے‘‘ حکمران عملدرآمد روکتے ہیں؟
کیا لوٹ مار میں مصروف حکمران منع کرتے ہیں کہ دین کے راہنما اصول ''کہ اپنے سے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آیا کرو‘‘ پر عمل نہ کیا جائے؟
کوئی شک نہیں کہ حکمرانوں کی بداعمالیوں اور بدانتظامیوں کے باعث غربت میں پسے ہوئے انصاف کے لیے در در ٹھوکریں کھاتے انسان کی کایا ہی پلٹ چکی ہوتی ہے۔ ہر شخص شدید نفسیاتی ہیجان کا شکار ہوتا ہے۔ اس بے سکونی کی وجہ حکمرانوں کا تشکیل دیا ایسا معاشرہ ہوتا ہے جس میں عام آدمی ہمہ وقت ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے۔ اس کے باوجود جس حد تک ممکن ہوتا ہے کیا اس حد تک ہم اپنے ذہن کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنی اولادوں کی تربیت کرتے ہیں؟
کیا ہم اپنی اولادوں کو اٹھنے بیٹھنے کا سلیقہ، صفائی ستھرائی کی تربیت، چھوٹوں بڑوں کا احترام‘ قانون کی اہمیت اور پابندی جیسی انتہائی اہم باتوں کے ساتھ ساتھ، جھوٹ، حسد، مکر، فریب وعدہ خلافی سے گریز جیسی لعنتوں کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنی نسلوں کو بتاتے ہیں کہ کتنا ہی غصہ‘ کتنا ہی ناانصافی کا گلہ ہمیں کیوں نہ ہو مگر اس کے اظہار کے لیے کسی کی کھڑکی، دروازے یا بس کے شیشے پر پتھر مارنا کسی طرح بھی جائزنہیں ہوا کرتا۔ کیا ہم انہیں بتاتے ہیں کہ اپنا حق لینا یقیناً اہم ہے مگر اس حق کی خاطر گھنٹوں سڑک بلاک کر کے، مسافروں، بچوں، عورتوں کو پریشان کرنا انتہائی مجرمانہ فعل ہے۔ کیا ہم بتاتے ہیں کہ جگہ جگہ خواہ مخواہ دھرنا دینے سے بیمار مریضوں کو گھنٹوں سڑک پر اذیت اور تکلیف میں گزارنا پڑتے ہیں اور اکثر اوقات ان میں سے کچھ لوگ دم توڑ جایا کرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اپنی نسلوں کو بتایا کہ ہر ایسا شخص جو شخص سڑک پر دم توڑتا ہے بنیادی طور پہ ہمارا احتجاج اس کے قتل کا باعث ہوتا ہے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم میں سے بیشتر ایسا کچھ نہیں کرتے۔ بچوں کی تربیت پر‘ جس سے وہ اچھے شہری بن سکیں‘ ہم شاید ایک فیصد بھی توجہ نہیں دیتے۔ اگر توجہ دیتے ہیں تو صرف اس پر کہ ان کے گریڈز اچھے آ جائیں، نمبر اعلیٰ آ جائیں اور وہ صرف اور صرف اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان نمبرز سے گریڈز سے بچہ کل کو مالی طور پر آسودہ زندگی گزار سکے گا۔ اس کا ٹور ٹہکا ہو گا ، جے جے کار ہو گی ہر جگہ اس کی بلے بلے ہو گی۔ وہ دنیاوی طور پر خوب ترقی کرے گا اس کے پاس گاڑی نہیں گاڑیاں، بنگلہ نہیں بنگلے الغرض یہ کہ بے شمار آسائشیں ہوں گی۔
ہم اپنی اولادوں کو صرف اور صرف ''مادی و معاشی‘‘ فرنٹ پر کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے ہیں۔ انسانی سطح پر وہ اعلیٰ انسان بننے کے حوالے سے کتنے درجے طے کرتا ہے ،کب طے کرے گا، کیسے کرے گا؟ یہ ہمارے نزدیک آج وقت کا زیاں ہے حکمرانوں کی طرح ہماری بھی تمام تر توجہ صرف اور صرف اپنی اولادوں کی معیشت سنوارنے پر ہوتی ہے‘ تربیت و انسانیت نامی شے کو ہم ڈسٹ بِن میں پھینک چکے ہیں۔
اگر ہم ایسا نہ کر رہے ہوتے تو پنجاب یونیورسٹی میں جنم لینے والے حالیہ واقعات جیسے واقعات کبھی نہ ہوتے، ہمارے ینگ ڈاکٹرز نے جو رویہ اپنائے رکھا ہم ان اذیتوں سے نہ گزرے ہوتے، ہمارے وکلا جب آپے سے باہر ہوتے ہیں کیسے ہر قانون کو تاراج کر دیتے ہیں یہ تکلیف دہ سانحے جو کسی بھی طرح خود کش حملوں جیسے تباہ کن سانحات سے کم نہیں‘ ہمیں آئے روز دیکھنے کو نہ ملتے۔ اور تو اور اگر تربیت کی گئی ہوتی تو بہتر لیڈرز بھی قومی سطح پر نظر آتے۔ شستہ و شائستہ، ہم درد، دیانتدار، ایماندار، خوف خدا رکھنے والے لیڈر آج اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوتے۔
سو مٹھی بھر اشرافیہ و حکمران ہوں یا 20 کروڑ عوام ہم سب کو اپنی اولادوں اپنی اگلی نسل کی تربیت پہ بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 
میں قارئین کو بتا نہیں سکتا کہ جب میں اپنی مادرِ علمی پنجاب یونیورسٹی والے معاملے میں عدالت میں پیش کیے جانے والے طلبا کی فوٹیج دیکھ رہا تھا تو کس قدر اذیت سے گزر رہا تھا۔ جن کے ہاتھوں میں کل کو اس ملک کی باگ ڈور ہونی ہے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہا۔ وائس چانسلر سے لے کر طلبا کے والدین، طلبا تنظیموں کی پشت پناہی کرتی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود طلبا کو بھی اس شرم ناک صورتحال پر غورکرنا چاہیے۔ میرے نزدیک یہ والدین، وائس چانسلر، ریاست اور معاشرے سمیت میری آپ کی سب کی ناکامی ہے۔ خصوصاً وائس چانسلر صاحب کو چاہیے کہ اس واقعے کے بعد صرف نیا تھانہ بنانے پہ ہی غور نہ کریں بلکہ ساتھ ساتھ طلبا کی تربیت پر بھی کچھ توجہ دیں۔ اگر اپنی نوکری پکی کرنے کے سلسلے میں انہیں پی آر سے کچھ فرصت مل سکے تو ...!!! آخر میں اپنی مادرِ علمی پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کے لیے سراپا شاعر محترم اسلم کولسری کا لازوال شعر... ؎
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں