فرمایا: برباد ہوا وہ شخص جس کا آج اس کے گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں۔ پھر ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ سب سے بری عادت وہ ہے جس کا انسان کو ادراک نہیں ۔ عادتوں کو تبدیل کرنے، غلطیوں کو درست کرنے یا آئندہ غلطیوں کو نہ دہرانے کے لیے ادراک اور اعتراف بنیادی شرط ہوا کرتے ہیں۔تباہ وبرباد ہو جاتے ہیں وہ افراد، وہ قومیں جو غلطیوں کا تجزیہ کر کے اعتراف اور پھر ندامت کے عمل سے گزرنے کے بجائے غلطیوں پر اصرار کو وطیرہ بنا لیا کرتے ہیں۔غلطیوں یا گناہ پر عذر تراشنا، انہیں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرنا درحقیقت غلطیوں اور گناہوں سے بھی بدتر صورتحال ہوا کرتی ہے ۔
پورا سچ تو شاید دنیا میں کہیں بھی نہیں بولا جاتا مگر شاید اتنا جھوٹ بھی کہیں نہیں بولا جاتا ہو گا جتنا مملکتِ پاکستان میں ہم ایک دوسرے سے بولتے نظر آتے ہیں۔اپنی نسلوں کو جھوٹے تفاخر میں مبتلا کرتے ہوئے ہسٹری کو مسخ کر کے نصاب کی پڑیا میں گھول کر پلانے کی کوشش کرتے ہیں، تبھی تو جب آج ہمارے دانشور یہ نعرہ لگاتے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان قیامت تک سلامت رہنے کے لیے بنا ہے تو انٹرنیٹ اور فیس بک والی نوجوان نسل جو مارس اور چاند پر بستیاں بسانے کی خبروں سے آشنا ہے جھٹ سے سوال کرتی ہے کہ اگر قیامت تک سلامت رہنے کے لیے بنا ہے تو 71ء میں کیا ہوا تھا۔ ؟ لازمی بات ہے کہ اس کے جواب میں کج بحثی اور آئیں بائیں شائیں کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح 71ء کے واقعے میں سارا دوش بھارت پر ڈالنے والے نوجوانوں کو قائل نہیں کر پاتے کہ 47 ء میں جن بنگالیوں نے سینہ تان کر پاکستان کے نعرے لگائے تھے، دو دہائیوں کے اندر اندر وہ اتنے پاکستان مخالف کیوں ہو گئے۔۔؟ کیا یہ بھی بھارت کا قصور تھا۔؟ یہ جو ہر معاملے میں ہم مخالفوں کی سازشوں کو مجرم ٹھہرا کر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے نظریں چُرا جاتے ہیں ،اسی وجہ سے آج دنیا بھر کی نظروں سے گرے ہوئے ہیں۔ مخالفین کی سازشوں سے کون انکار کر سکتا ہے مگر سب سے پہلے ہمیں بحیثیت قوم اپنی غلطیوں کا ادراک اور اعتراف کرنا چاہیے، جن کے باعث تا قیامت قائم رہنے والے پاکستان کا خواب 71ء میں دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔اگر ہم دوبارہ اس خواب کو خون آلود نہیں دیکھنا چاہتے تو ان غلطیوں اوران زیادتیوں کا اعتراف اور ادراک کریں جو بنگلہ دیش کے معاملے میں ہمارے بڑوں نے روا رکھیں۔ جو گزر چکا ہے یقینا اسے واپس نہیں پھیرا جا سکتا مگر غلطیوں سے سبق سیکھ کر مستقبل میںباقی ماندہ پاکستان میں ان شورشوں سے ضرور بچاجا سکتا ہے جن کا نتیجہ بنگلہ دیش ہوا کرتا ہے۔داغ داغ وجود کا جو حصہ بچ گیا ہو اس کی بقا کے لیے غلطیوں کا اعتراف اور ادراک پہلا قدم ہوا کرتا ہے ۔ سانحہِ مشرقی پاکستان کے بعد 73ء میں لکھی گئی فیض کی نظم کایہ شعر حقیقت بن کر سامنے آتا رہتا ہے۔ ؎
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے
اور آخر میں وہی فیض کی معروف نظم'' ڈھاکہ سے واپسی پر‘‘ نذرِ قارئین،کہ کسی سانحہ کا غم کرنا ،اسے تازہ رکھنا بھی تو اس امید کے دیے کو روشن رکھتا ہے کہ شاید ہم غم کی اس تازگی کے باعث ان غلطیوں کو پہچان سکیں جن کے سبب تاقیامت قائم رہنے و الی اسلامی مملکت کا خواب دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ غم کا یہ چراغ جلتا رہے تو کیا خبرروشنی کی نوید بھی پیدا ہو جائے، وہ روشنی جو قوموں کا ماضی تو نہیں بدل سکتی مگر مستقبل کو آسان اور روشن ضرور کر سکتی ہے:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد
کب نظر میں آئیگی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گِلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
اُن سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد
اور چلتے چلتے پھر وہی گزارش کہ فرد ہو کہ قومیں اگر غلطیوں کا دیانتداری سے تجزیہ، ادراک اور اعتراف نہیں کیا جائے گا تو نتیجہ بقول فیضؔ ؎
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے