مرزا کی شاعری کا تذکرہ تو رہتا ہی ہے‘ کون سا دن ہے جب اہلِ قلم اپنا بیان پُر اثر بنانے کے لیے مرزا کے شعروں کا سہارا نہ لیتے ہوں۔ آج کا کالم مرزا کو یاد کرتے ہوئے ان کے حوصلے‘ ان کی ظرافت اور ان کی بذلہ سنجی کے نام۔ اس لیے بھی کہ جس کرب والم سے پاکستانی گزر رہے ہیں‘ زندہ رہنے کے لیے انہیں غالب جیسا ہی حوصلہ درکار ہے۔ تمام عمر عسرت وتنگ دستی میں کٹی‘ تمام زندگی بچوں کو دفناتے گزری مگر تقدیر کے جبر غالب سے غالب کے پیارے تو چھین چھین کر لے جاتے رہے‘ غالب کی خوشیاں خاک میں ملاتے رہے مگر آخر دم تک غالب کے ہونٹوں سے مسکراہٹ نہ چھین سکے۔ غالب کو غمگین تو کیا مگر توڑ نہ سکے۔ دکھ درد سہتے ہوئے‘ اپنے پیاروں کو کھوتے ہوئے‘ تنگ دستی سے چومکھی لڑتے ہوئے سر اٹھا کر کیسے جینا ہے‘ یہ مرزا کے اشعار ہی نہیں زندگی کے واقعات بھی ہمیں بتاتے ہیں۔
ایک مرتبہ لکھنؤ کی ایک صحبت میں جب کہ مرزا وہاں موجود تھے، لکھنؤ اور دلی کی زبان پر گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک صاحب نے مرزا سے کہا کہ جس موقع پر اہل دہلی'' اپنے تئیں‘‘ بولتے ہیں وہاں اہل لکھنؤ ''آپ کو‘‘ بولتے ہیں، آپ کی راے میں فصیح ''آپ کو‘‘ ہے یا ''اپنے تئیں؟‘‘ مرزا نے کہا ''فصیح تو یہی معلوم ہوتا ہے جو آپ بولتے ہیں، مگر اس میں دقت یہ ہے کہ مثلاً آپ میری نسبت یہ فرمائیں کہ میں آپ کو فرشتہ خصائل جانتا ہوں، اور میں اس کے جواب میں اپنی نسبت پہ عرض کروں کہ میں تو آپ کو کتے سے بھی بدتر سمجھتا ہوں، تو سخت مشکل واقعہ ہو گی۔ میں تو اپنی نسبت کہوں گا اور آپ ممکن ہے کہ اپنی نسبت سمجھ جائیں‘‘۔
زبان کے متعلق مرزا کا اسی قسم کا ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے۔ دلی میں رتھ کو بعض مونث اور بعض مذکر بولتے تھے‘ جیسے آج بھی عوام کے مذکر یا مونث ہونے کی بحث اکثر دیکھنے کو ملتی ہے‘ ایسے ہی تب کسی نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ حضرت! رتھ مونث ہے یا مذکر؟ آپ نے کہا ''بھیا! جب رتھ میں عورتیں بیٹھی ہوں تو مونث کہو اور جب مرد بیٹھیں تو مذکر سمجھو‘‘۔
اسی طرح جب چوسر کے چکر میں مرزا چند مہینے قید خانے میں گزار کر واپس آئے تو ''میاں کالے صاحب‘‘ کے مکان میں آکر مقیم رہے ۔ ایک روز میاں کے پاس بیٹھے تھے؟ کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارک باد دی۔ مرزا شاید بھرے بیٹھے تھے‘ جھٹ سے مگرظریفانہ انداز میں بولے ''کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے؟ پہلے ''گورے‘‘ کی قید میں تھا‘ اب ''کالے‘‘ کی قید میں ہوں‘‘۔
اسی طرح جب نواب یوسف علی خاں کا انتقال ہو گیا تو مرزا تعزیت کے لیے رام پورگئے۔ چند روز بعد نواب کلب علی خاں مرحوم کا لیفٹیننٹ گورنر سے ملنے کو بریلی جانا ہوا۔ ان کی روانگی کے وقت مرزا بھی موجود تھے۔ چلتے وقت نواب صاحب نے معمول کے طور پہ مرزا صاحب سے کہا ''خدا کے سپرد‘‘۔ مرزا نے کہا ''حضرت خدا نے تو مجھے آپ کے سپرد کیا ہے‘ آپ پھر الٹا مجھے خدا کے سپرد کرتے ہیں‘‘۔
اور پھر دیکھیے جب مرزاکی صحت کا یہ عالم تھا کہ ٹھیک سے چلا نہ جاتا تھا اور سماعت سے بھی تقریباً محروم ہو چکے تھے‘ لکھ کے بات سمجھنی سمجھانی پڑتی تھی‘ اس زمانے میں کسی نے خط میں مرزا کو خوب مغلظات سے نوازا۔ حالی لکھتے ہیں کہ جب مرزا نے مجھے وہ خط پڑھنے کو دیا اور میں خاموش رہا تو مرزا نے میرے ہاتھ سے خط لے کر اول وآخر تک خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی۔ مسکرا کر کہنے لگے کہ ''اس الو کوگالی دینی بھی نہیں آتی۔ بڈھے یا ادھیڑ آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جوان کو جورو کی گالی دیتے ہیں۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ یہ قرم ساق جو بہتّر (72) برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے اس سے زیادہ کون بے وقوف ہو گا؟‘‘
یہ تھا مرزا غالب کی ظرافت وحوصلے کا عالم ضعیفی اور بڑھاپے میں۔ اور چلتے چلتے یاد آگیا کہ مرزا کی کتاب'' قاطعِ برہاں‘‘ کے جواب میں بہت سے رسالے لکھے گئے۔ ان میں سے کچھ کا جواب مرزا نے اپنے مخصوص شوخ انداز میں دیا مگر مولوی امین الدین کی کتاب ''قاطع قاطع‘‘ کا جواب مرزا نے کچھ نہیں دیا کیونکہ اس میں فحش اور ناشائستہ الفاظ کثرت سے تھے۔ کسی نے کہا ''حضرت! آپ نے ''قاطع قاطع‘‘ کا کچھ جواب نہیں لکھا‘‘۔ مرزا نے کہا ''اگر کوئی گدھا تمہارے لات مارے تو کیا تم بھی اس کے لات مارو گے ؟‘‘...
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اِک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
اگر مرزا کے اسی شعر کے تناظر میں موجودہ مذاکرات یا آپریشن کی بحث پر نظر ڈال لیں تو مرزا کے اشعار کی ہر دور میں اہمیت، معنویت وافادیت کھلتی چلی جائے گی۔ مگر پاکستانیوں کو جس طرح حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے مرزا کا یہ شعر شاید زیادہ راس آئے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا