قانون شکن لبرلز اور مذہب فروش

حضرت عمرؓکے صاحبزادے عبدالرحمن مصر میں قیام پذیر تھے۔ وہاں انہوں نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ''نبیذ‘ ‘ پی لی جس سے انہیں نشہ ہو گیا... یہ جُرم قابل سزا تھا... حضرت عمرؓ کے بیٹے عبدالرحمن اور ان کا دوست اس وقت کے مصر کے گورنر عمروبن عاصؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ انہیں سزا دی جائے... حضرت عمرو بن عاصؓ نے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر نکال دیا اور سزا نہ سنائی اور اس کی وجہ یقینا عبدالرحمن تھے جو حضرت عمرؓ کے بیٹے تھے۔
گناہ تو ہو گیا تھا... غلطی تو کر بیٹھے تھے مگر مت بھولیے کہ عبدالرحمن کی رگوں میں خون تو حضرت عمرؓ جیسے منصف کا ہی دوڑ رہا تھا... ورنہ ایسا حوصلہ کون کرتا ہے... ایسی جرأت کہاں پائی جاتی ہے... عبدالرحمن دوبارہ عمروبن عاصؓ کے پاس پہنچے۔ اُن سے کہا کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے... اور اگر آپ نے ہمیں سزا نہ دی تو میں اس کی شکایت امیرالمومنین سے کروں گا۔ اس پر حضرت عمرو بن عاصؓ مجبور ہو گئے لیکن انہوں نے عبدالرحمن یعنی حضرت عمرؓ کے بیٹے کے ساتھ رعایت یہ برتی کہ سرعام کوڑے لگانے اور سرمونڈکر تشہیر کرنے کے بجائے ان کو اپنے مکان کے اندر سزا دی اور حضرت عمرؓ کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہ دی یعنی اپنی طرف سے اس واقعے کو حضرت عمرؓ سے چھپا گئے...
چند دنوں کے بعد حضرت عمرو بن عاصؓ گورنر مصر کو امیرالمومنین حضرت عمرؓ کی طرف سے حسبِ ذیل مراسلہ موصول ہوا۔
اللہ کے بندے عمر کی جانب سے ''عاصی ابن العاصی کے نام‘‘
ابن العاص!
''تمہاری جرأت اور بد عہدی پر مجھے بے حد تعجب ہوا۔ میں تمہیں معزول کر کے چھوڑوں گا۔ تم نے عبدالرحمن کو اپنے گھر کے اندر کوڑے لگوائے اور اس نے وہیں اپنا سرمونڈا،حالانکہ تم جانتے تھے کہ یہ میری طبیعت کے خلاف ہے۔ عبدالرحمن تمہاری رعایا کا ایک فرد تھا۔ تمہیں اس کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے تھا جو دوسرے مجرموں کے ساتھ کرتے ہو لیکن تم نے کہاکہ وہ امیرالمومنین کا بیٹا ہے اس لیے اس کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنا چاہیے۔ حالانکہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے نزدیک کسی شخص سے حق لینے میں کسی قسم کی رعایت اور نرمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس وقت تمہیں یہ خط ملے، عبدالرحمن کو ایک اونی چغہ پہنائو اور پالان (ننگی پیٹھ کے اونٹ) پر سوار کر کے مدینہ روانہ کردو تا کہ وہ اپنی بد کرداری کا مزہ چکھے...‘‘
حضرت عمرو بن عاصؓ نے اس حکم کی تعمیل کی۔ جب عبدالرحمن مدینے پہنچے تو ننگی پیٹھ کے اونٹ پر سواری کی وجہ سے ان سے چلا بھی نہیں جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اسے باقاعدہ سزا دی جائے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف پاس بیٹھے تھے۔ انہوںنے کہا ''امیرالمومنین! مجرم کو سزا مل چکی ہے۔ اب اسے اسی جرم کی پاداش میں دوبارہ سزا کس طرح دی جا سکتی ہے‘‘حضرت عمرؓ نے سنی اَن سُنی کر دی ۔بیٹا چلّایا ''میں بیمار ہوں، آپ مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں‘‘ اس کے باوجود حضرت عمرؓ نے انہیں دوبارہ سزا دی اور قید کر دیا۔ وہ حالتِ قید میں بیمار ہوئے اور وہیں وفات پا گئے۔
اس واقعے سے بہترین انصاف کے کئی پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس دور میں یا تاریخی طور پر انصاف کی حکمرانی والے دور میں کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا رشتہ دار ہونا فائدہ مند نہیں بلکہ Disadvantageous ہوتا ہے۔
اصولی طور پر لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں عوام کو سکھ پہنچانے اور ان میں انصاف قائم رکھنے کیلئے جب تک مملکت کے اعلیٰ عہدیداروں کے قریبی رشتہ داروں،یہاں تک کہ سگی اولادوں تک کے سلسلے میں قانون سختی سے پیش نہیں آتا، مملکت میں صحیح معنوں میں قانون نافذ نہیں ہو سکتا۔ 
اگر عوام کے لیے اور اصول ہے اور قریبی رشتے داروں اور دوستوں کے لیے کوئی دوسرا اصول تو انصاف کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا... مہذب معاشروں میں موروثی سیاست اور اقرباء پروری سے اسی لیے نفرت کی جاتی ہے۔
مندرجہ بالا واقعہ میں نے پہلے بھی کسی موقعہ پر درج کیا تھا مگر آج اس کے یاد آنے کی وجہ جمشید دستی صاحب کا وہ زبانی حملہ ہے جو انہوں نے اپنے ہی ساتھیوں پر کر دیا۔ تحقیق تو خیر ہونی ہی نہیں، ہوتی تو ضرور پتہ ملتا کہ جب اتنی شدت سے دھواں اٹھا ہے تو پارلیمنٹ لاجز کے کس کس کمرے میں ''آگ‘‘ لگا کرتی ہے ۔ جو شخص ذرا سا بھی پاکستانی پارلیمنٹرینز اور سیاسیہ کو قریب سے جانتا ہے ، اسے خوب علم ہے کہ جمشید دستی جو کچھ فرما رہے ہیں اس میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ۔ ایک ایسا شخص جو مجذوب نہیں ہے بلکہ ملکی ایوانوںکا اہم حصہ ہے، روز انہی لوگوں میں اٹھتا بیٹھا، انہی کے ساتھ کھاتا پیتا ہے جن پر وہ الزامات لگا رہا ہے تو کیا ایسے شخص کے الزامات کے جواب میں ملزموں کو اسے بُرا بھلا کہنے کے بجائے خود کو محاسبے کے لیے پیش کر کے اپنی پوزیشن کلیئر نہیں کرنی چاہیے۔؟مگر سچی بات ہے سب سے زیادہ حیرت اور رنج مولانا فضل الرحمن کے اس بیان پر ہوا جس میں جمشید دستی صاحب کے الزامات کے جواب میں شفاف تحقیق کا مطالبہ کرنے کے بجائے موصوف نے جو کچھ فرمایا اس کا لب ولباب یہ تھا کہ باہر دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا کیا صرف پارلیمنٹرین گنہگار ہیں ؟
آج پاکستان کی بدحالی کی ایک بڑی وجہ یہ منافقت ہی ہے جو مذہبی طبقے ہوں یا لبرل، دونوں میں درآئی ہے۔ مذہب کے نام لیوا مذہب کو مانتے ہیں، مذہب کی ایک نہیں مانتے۔ اسی طرح آئین اور قانون کو مذہب سے بالاتر سمجھنے والے بھی آئین اور قانون کی بالادستی کا مطالبہ تو ضرور کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ جبھی تو منافقین سے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے اور اپنے افکار و خیالات پر دیانتداری سے قائم رہنے والے کو زمانہ سلیوٹ کرتا ہے۔ شاعرِ بے بدل نے یونہی تو نہیں کہہ دیا تھا...
وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
یہاں ایک وضاحت بہت ضروری ہے کہ کسی بھی قسم کی روشن خیالی کا مطلب معاشرے میں رائج آئین اور قانون کو توڑکر مستی وسرمستی کرنا نہیں ہوا کرتا، بلکہ اصل روشن خیالی آئین وقانون کے تحت انسانی وشخصی آزادیوں کے لیے جدوجہد کرنے کا نام ہے ۔ روشن خیالی کے نام پہ ملکی قوانین کو چرس کے دھوئیں میں اُڑانے کا نام نہیں۔ افسوس کہ ہمیں قانون شکن لبرلز اور مذہب فروشوں نے مل کربرباد کیا۔قانون کو خدا ماننے والا قانون شکنی کرتا ہے اور خدا کے قوانین کو رائج کرنے والے خدا کی ہی نہیں مانتے... جائیں تو جائیں کہاں؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں