موبائل سم… سمِ قاتل…

ظہور الاسلام صاحب کے مشاعرے کے سلسلے میں پچھلے دنوں ابوظہبی جانا ہوا۔ پیرزادہ قاسم صاحب کی زیر صدارت بپا ہونے والا مشاعرہ تو ایک ہی شام تھا مگر کچھ ذاتی نوعیت کے معاملات کے باعث ہفتہ بھر دوبئی اور ابو ظہبی قیام رہا۔ ہر پاکستانی کی طرح وجود بیرون ملک تھا اور روح وطنِ عزیز میں... کان اور آنکھیں ہر وقت آئی پیڈ‘ ٹی وی یا فون کے ذریعے پاکستان کے بارے میں جاننے کیلئے بے چین۔ 
ایک آدھ دن کی مصروفیت کے علاوہ وقت ہی وقت تھا‘ سو کئی بار قلم اٹھایا مگر کچھ لکھنے کو دل نہ چاہا۔ اس ملک میں حکمرانوں کی بداعمالیوں کے باعث ہونے والے المیوں پر سوائے نوحہ گری کے کیا رہ جاتا ہے لکھنے کو۔ جس دن تھر جیسے دل دہلانے والے واقعات کی خبر نہیں بھی آتی‘ اس دن بھی کسی نہ کسی سانحے کے باعث وطنِ عزیز کا وجود تھرتھرا ہی رہا ہوتا ہے‘ کہ نحیف ونزار مملکتوں ریاستوں اور انسانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ یہ فتویٰ تقدیر کا قاضی ازلوں پہلے صادر فرما چکا تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہر ایک کی سنتے ہیں مگر وقت کے فتاویٰ پر کان دھرتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت ہمیں روند کر گزرے چلے جا رہا ہے اور ہم بقول جون ایلیا ع 
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں ۔
ہاں! نہ لکھنے کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ جب لکھنے بیٹھا‘ مرزا کے مصرعے نے قلم تھام لیا ع 
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
سوچا ٹھیک ہی کہتے تھے مرزا‘ سو زیادہ تر وقت یوٹیوب پر بیگم اختر کے سروں کی انگلی تھام کر شکیل بدایونی، میرتقی میر، غالب، کیفی اعظمی اور جگر کے ساتھ گزارا۔کبھی کبھی ذائقہ بدلنے کو فریدہ خانم، مہدی حسن اور غلام علی کے مہکائے ہوئے سروں کے جہان میں چلا جاتا۔ جگر کی غزل ؎ 
طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے 
تو اتنی بار سنی کہ شاید خود جگر صاحب نے بھی اتنی مرتبہ اپنی زندگی میں نہ پڑھی ہو گی۔ اس بار یوٹیوب پر کسی مہرباں کا عطا کیا ہوا جگر صاحب کا کلپ بھی دیکھنے کو ملا۔ آج تک جگر صاحب کے ترنم کے بارے میں سنا تھا‘ پہلی مرتبہ سن کر اندازہ ہوا کہ زمانہ جو کہتا ہے سو فیصد درست کہتا ہے اور بہت ٹھوک بجا کر کسی کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے۔ یقینا یہ رائے بھی کسی کے نزدیک غلط ہو سکتی ہے مگر اجتماعی ذوق اور اجتماعی دانش بیشتر موقعوں پر درست رائے ہی قائم کرتی ہے۔ 
البتہ پاکستان میں حکمرانوں کے چنائو کے حوالے سے اجتماعی دانش کیسے، ایسے فیصلے کر جاتی ہے جس کا نتیجہ ان حکمرانوں کی صورت میں سامنے آتا ہے جو جمہوریت کے روپ میں کتنی کامیابی سے موروثیت اور بادشاہت کو بیچے جا رہے ہیں... اس پر غور ضرور کرنا چاہیے... اور جیسے ہی ذرا غور کیجئے‘ عقدہ وا ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے نام پہ اجتماعی دانش کا بھی استحصال کیا جاتا ہے اور پولیس ، پٹوار جیسے ریاستی اداروں کے ذریعے اجتماعی دانش کو مکمل آزادی سے اپنا حق رائے دہی کہیں استعمال ہی نہیں کرنے دیا جاتا‘ بلکہ مخصوص اداروں کے غیر مرئی دبائو میں لاکر اور ہانک کر ایک خاص سمت‘ خاص گلی میں مطلب کے نتائج کی طرف لے جایا جاتا ہے‘ گویا لوگوں کو جن دُرّوں کے ذریعے سزا مل رہی ہے وہ انہی کی چمڑی کے تیار کردہ ہیں۔ لہٰذا اپنے چنے ہوئے لوگ ہی جب ستم ڈھاتے ہیں تو ''تم نے خود ہی تو چنا تھا ‘‘کہہ کر بیچارے عوام کو بیک فٹ پر دھکیل کر الٹا ''گِلٹ‘‘ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے کہ شاید سب ہمارا ہی کیا دھرا ہے۔ حالانکہ ذرا غور کیجئے تو صاف نظر آرہا ہے کہ کہانی آپ الجھی نہیں ہے بلکہ الجھائی گئی ہے تاکہ نہ کسی کردار کی سمجھ آئے نہ کسی کا کردار باقی رہے۔
دوبئی میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی فون کے لیے سم کا حصول پاکستان کی طرح آسان مرحلہ نہ تھا۔ موبائل سم کے حصول کے لیے جس طرح سیاحوں کو سفری دستاویزات اور وہاں کے دیگر شہریوں کو بھی جس طرح دستاویزات جمع کروانی پڑتی ہیں حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کے انتظامی معاملات کو دیکھنے والے اتنے خون خرابے کے باوجود بھی موبائل سمز کو ریگولرائز کرنے پر کیوں توجہ نہیں دیتے۔ دوبئی میں نہ صرف پہلی مرتبہ موبائل سم کے حصول پر شہری کو ایک پورے پراسیس سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ چند ماہ کے بعد اسی سم کو دوبارہ اپنے کاغذات لے جا کر رجسٹر کروانا پڑتا ہے تا کہ تصدیق وتسلی ہو سکے کہ کچھ مخصوص عرصے کے بعد سم کا حامل شخص تبدیل تو نہیں ہو گیا؟ مجھے یاد ہے ہمارے گروپ ایڈیٹر محترم نذیر ناجی صاحب نے ایک مرتبہ مجھے بتایا تھا کہ موبائل سم کے حصول کے لیے اسی قسم کے ایک مشکل مرحلے سے انہیں بھارت میں گزرنا پڑا تھا گویا وہاں بھی موبائل سم آلو پیاز کی طرح ریڑھیوں پر ہر گاہک کو دستیاب نہیں ہوا کرتی‘ شاید ایسا صرف اور صرف پاکستان میں ہی ممکن ہے جہاں موبائل سم ، صرف سم نہیں ہے سمِ قاتل بھی ہے ۔پاکستان آکر ٹی وی آن کیا تو یہی موبائل سم کی فروخت اور ریگولرائز کرنے اور رجسٹر کرنے کا مطالبہ کراچی کے تاجروں کی طرف سے وزیر اعظم کو پیش کیا جا رہا تھا۔ دیکھتا رہا اور افسوس کرتا رہا کہ تاجر بیچارے حکومت کو سیکورٹی معاملات کی الف ب سمجھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حکومت خود سوچے کہ یہ بھی تاجروں یا عوام کے بتانے کی بات تھی؟ لیکن چلیں اگر بتا ہی دی گئی ہے تو کیا وزیراعظم موبائل سم‘ جو پاکستا ن میں سمِ قاتل کا روپ دھار چکی ہے‘ کی فروخت کے حوالے سے کسی ضابطے پر سختی سے عمل درآمدکا حکم دیں گے یا یونہی یہ سمیں انتشار پھیلاتی رہیں گی‘ لوگوں کے گھر اُجاڑتی رہیں گی ۔ پاکستان میں سمِ قاتل کی فروخت کیوںکسی ضابطے میں نہیں آتی۔ یہ بھی ایک لمبی کہانی ہے جو پھر کبھی سہی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں