تعصب کی آگ سے جلتے چولہے

زلف تراش اور ٹیکسی ڈرائیورز‘ دونوں انتہائی دلچسپ مخلوق ہیں۔ بیشتر آپ کو ہمیشہ باتونی ملیں گے؛ چونکہ دونوںکا واسطہ دن میں بلاشبہ بیسیوں لوگوں سے پڑتا ہے لہٰذا طرح طرح کی‘ بھانت بھانت کی معلومات کا خزانہ دونوں کے پاس پایا جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے بعض تو اس قدر باتونی ہوتے ہیں کہ آپ کو سر درد لگا دیں گے۔ چونکہ ایک استرے قینچی سمیت آپ کے سر پہ سوار ہوتا ہے اور دوسرے کا ہاتھ گاڑی کے سٹیرنگ اور پائوں ایکسیلیٹر پر ہوتا ہے؛ لہٰذا آپ سختی سے انہیں ڈانٹ کر غصہ دلانے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے کہ کہیں خفا ہو گئے تو اس کی سزا بھگتنی پڑے گی کیونکہ جواب میں وہ صرف اتنا ہی کہیں گے کہ ''غلطی ہو گئی صاحب جی‘‘ البتہ ان کی یہ غلطی آپ کو کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا واسطہ کبھی نااہل‘ ناہنجار یا غصہ ور قسم کے زلف تراش اور ٹیکسی ڈرائیور سے پڑ چکا ہو۔ میرے ایک دوست اپنے زلف تراش کو شیو کے دوران خفا کر نے کے نتیجے میں کئی دن تک منہ چھپانے پر مجبور رہے۔ ظاہر ہے برسوں کی پالی مونچھیں اچانک بے ارادہ ناک کے نیچے نہ رہیں تو یہی کرنا پڑتا ہے۔ 
کراچی میں چند دنوں کے قیام کے دوران ایک دوست اور ادارے کی طرف سے مہیا کی گئی گاڑی کے بجائے زیادہ تر میں نے ٹیکسی کے استعمال کو ترجیح دی۔ اندازہ ہوا کہ یہ شہرُ جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا‘ اندر سے کس قدر بے چین اور کھوکھلا ہو چکا ہے۔
پختون، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی اردو بولنے والے ہر طرح کی کمیونٹی کے لوگ ٹیکسی چلاتے ہیں اور جس قسم کی نفرتیں ہر کمیونٹی کے اندر دوسری کمیونٹی اور زبان بولنے والوں کے حوالے سے سرائیت کر چکی ہیں۔ اللہ کی پناہ...! 
سیاسی جماعتوں نے لگتا ہے پچھلی چند دہائیوں میں ووٹ اور پاور کے حصول کی خاطر صرف اور صرف نفرت کی آبیاری کی ہے کہ اپنے لوگوں اور ورکرز کی تربیت تو وہ کیا کرتے ہیں جن کا اپنا کوئی نظریہ ہو اور اس نظریے کی خاطر سیاست کی جا رہی ہو۔ جہاں سارا معاملہ ہی پاور اور پیسے کا حصول ہو، وہاں نفرت، تعصب اور فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر جتنی سرعت سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ یقیناً نظریاتی تربیت کی رفتار سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ 
مختلف زبانیں بولنے والوں سے باتیں کر کے اندازہ ہوتا رہا کہ نفرت اور تعصب کی بنیاد پر تقسیم کو، مختلف زبانیں بولنے والے اپنے سروائیول کی مجبوری سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے اندر کا انسان زندہ اور برقرار ہے۔ کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ فرقہ واریت، زبان، تعصب کی بنیاد پر اپنی کمیونٹی یا فرقہ کی شناخت والی پارٹی کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے تو مخالف انہیں زندہ نہیں رہنے دے گا۔ تقریباً ہر زبان بولنے والا شخص یہ گفتگو کرتا پایا گیا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اس کا جان و مال اور اس کے اہل خانہ کی عزتیں اور عصمتیں تک اس شہرِ پریشاں و بے کراں میں محفوظ نہیں رہ پائیں گی۔ اگرچہ ملک بھر میں‘ پاکستانی بری طرح زبان، نسل، فرقے‘ عقیدے کی بنیاد پر مرنے مارنے کی حد تک تقسیم ہیں مگر جو نقشہ شہر کراچی پیش کرتا ہے ویسی صورتحال یقیناً کہیں اور نہیں؎ 
سینے میں جلن آنکھ میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر شخص ریاست کی اہمیت سے آگاہ اور اس کے موثر ہونے کی آرزو کرتا نظر آیا۔ اگر لوگوں کو یقین ہو جائے کہ مختلف ادارے میرٹ پر عمل کر رہے ہیں تو ہر شخص کے اندر تعصب سے نفرت پائی گئی اور وہ اس سے جان چھڑا کر ایک بہتر انسان بننے کا آرزو مند نظر آیا۔ مگر جہاں ریاست انصاف فراہم نہیں کرتی ریاستی اداروں‘ اہلکاروں میں تعصب پایا جاتا ہو وہاں عام آدمی کو زندہ رہنے کے لیے متعصب ہونے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ کراچی کے مختلف لوگوں سے بات کر کے آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ تعصب ان کے سروائیول کی مجبوری ہے۔ جیسے قحط کے عالم میں لوگ ناچار حرام کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ باوجود نفرت اور کراہت کے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بات بھی یقیناً دلچسپ اور قابل غور ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک میں ایک وطن کے اندر رہتے ہوئے آپس میں جس طرح کا تعصب پایا جاتا ہے اس کی بنیاد عموماً تفاخر یا دوسروں کو کم تر سمجھنا ہوتا ہے۔ فرنچ، سپینش، جرمن، کیتلان، آئرش اور سکاٹش آپس میں اسی قسم کا تعصب رکھتے ہیں جبکہ پاکستان میں خصوصاً کراچی میں پائے جانے والے تعصب میں اس کی مقدار سب سے کم محسوس ہوتی ہے۔ شاید اس کی وجہ اسلام کا وہ آفاقی اصول ہے جو اس مملکت پاکستان میں بچپن سے تقریباً ہر شخص کے کانوں میں پڑ رہا ہوتا ہے کہ ہر انسان برابر ہے اور رنگ نسل کی بنیاد پر کسی کو کسی پر فوقیت نہیں‘ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کے اعمال بہتر ہیں۔ ہر شخص اسی خوبصورت پیغام کو درست سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی چاہتا ہے مگر جب دیکھتا ہے کہ انصاف نہیں، اداروں کے سلوک میں غیر جانبداری نہیں، میرٹ نہیں، ریاست اور اداروں کے لوگ ایک آنکھ سے سب کو نہیں دیکھتے تو تعصب کی گود میں پناہ لینا مجبوری بن جاتا ہے کہ رزق، تحفظ اور سروائیول کیلئے متعصب ہونا ہمارے آقائوں نے رعایا کی مجبوری بنا دیا ہے کہ اسی آگ سے تو ان کے چولہے جلتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں